سندھ کے وزراءسے ملاقات کریں
آئیے آج سندھ کے وزرا ءسے ملاقات کرتے ہیں۔ کابینہ بن چکی ہے۔ وزراءروزہ افطار کرنے میں مصروف ہیں۔ بظاہر حکومت ہے ،عملًا حکومت نہیں ہے کیونکہ کراچی میں جرائم کی لہر بدستور جاری ہے۔ اندروں سندھ امن و امان اور سرکاری اداروں اور دفاتر کی صورت حال کانوں کو ہاتھ لگانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ وزراءہیں کہ بھرپور پروٹوکول ، سر کاری گارڈ زکی معیت میں بڑی بڑی گاڑیوں میں ادھر سے ادھر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان ہی وزراءسے، جو ہمارے معاشرے کے معزز ترین شخصیات تصور کئے جاتے ہیں، ملاقات کرنے کو دل چاہتا ہے۔ آپ ان سے اس کالم کے ذر یعے ہی ملاقات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ کبھی ان سے براہ راست ملاقات کرنے کا سوچئے گا بھی نہیں۔ آپ کو اتنے دھکے کھانے پڑیں گے کہ آپ وزیروں کا ذکر سن کر ہی دہل جائیں گے۔ ان کے پاس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ صرف وقت کی کمی ہے جو وہ اپنے صوبے کے عوام کر دے سکیں۔
شروع کرتے ہیں اسمبلی کے لئے پہلی بار منتخب ہونے والوں سے۔ پچاس سالہ سید اویس مظفر ہاشمی ضلع ٹھٹھہ سے منتخب ہوئے ہیں ۔ اس ضلع کو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پیپلز پارٹی میں انہیں شریک چیئر مین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے بعد اہم ترین حیثیت حاصل ہے کہ انہیں صدر پاکستان اپنا بھائی قرار دیتے ہیں ۔ کابینہ میں بھی انہیں محکمہ بلدیات، کراچی واٹر بورڈ، دیہی ترقی، پبلک ہیلتھ ، ٹاﺅن پلاننگ کے محکمے دیئے گئے جبکہ اضافی محکمہ صحت دے دیا گیا۔ صوبے میں ان تمام اداروں کی جو ناگفتہ بہ حالت ہے، وہ شہریوں کے لئے سوہان روح ہے۔ کراچی سے لے کرکشمور تک بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے لوٹ مار کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
یہ وزارت گزشتہ دور میں صدر پاکستان کے دوست آغا سراج درانی کے پاس تھی۔ جن افراد کو بھی اس دور کے بارے میں کچھ معلومات ہیں، ان میں صرف پیسہ بنانے کے کوئی اور کام سامنے نہیں آتا۔ یہی آغا سراج درانی اب سندھ اسمبلی کے سپیکر ہیں، اپنی خدمات اور کارنامے گنوا سکتے ہیں۔ کارنامے تو حکومت سندھ سے وابستہ کوئی ایک وزیر بھی نہیں گنوا سکتا ،اس لئے کہ اکثر نے کیا ہی کچھ نہیں، سوائے پیسہ بنانے کے۔ پیسہ بنانے یا کمانے کی ایسی رسم چلی کہ بڑے بڑوں کا قبلہ ادھر ادھر ہو گیا۔ ٹپی کو دی گئی دوسری اہم وزارت صحت کی ہے جو گزشتہ حکومت میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماءڈاکٹر صغیر احمد کے پاس تھی ۔ انہیں ایک بار راقم نے حیدرآباد میں کہا تھا کہ اگر وزارت چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے تو وزارت سے دست بردار ہو جائیں۔
اویس مظفر ، جو ٹپی کی عرفیت سے زیادہ مشہور ہیں ،کے بارے میں ایک بات ضرور گردش میں ہے کہ وہ جب اور جہاں کام کرانا چاہتے ہیں کرا لیتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ٹھٹھہ میں جہاں جہاں وعدے کئے، بعض وعدوں کو اپنی جیب سے بھی پورا کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ محکمہ بلدیات میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اور محکمہ صحت کے تحت سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کو کہاں تک بہتر بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ محکمہ صحت میں جہاں بہت بڑا بجٹ موجود ہے، ہر طرح کامافیا بھی موجود ہے، جو دواﺅں سے لے کر مریضوں کے لئے ناشتہ اور کھانا تک کھا جاتے ہیں۔ زکوٰة فنڈ سے دوائیں حاصل کر کے، میڈیکل سٹوروں پر فروخت کرنے کی وبا تو عام ہے۔حیدرآباد کا لیاقت میڈیکل ہسپتال صوبے کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال قرار دیا جاتا ہے ،جہاں گزشتہ دور میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر بار بار بھاری رقم لے کرتقرریاں کی گئیں۔ کبھی بھی وزیر صحت نے حرف اعتراض نہیں اٹھایا۔ جتنی بے ضابطگیاں ہوئیں، لوگوں نے اس میں ایم کیو ایم کے وزیر صحت کو بھی حصہ دار قرار دیا۔
حیدرآباد سے منتخب جام خان شورو بھی پہلی بار منتخب ہوئے اور وزیر بنا دئےے گئے۔ انہیں محکمہ ماہی گیری دیا گیا ہے۔ یہ محکمہ پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر زاہد بھڑگری کے پاس تھا۔ زاہد نے بہر حال اپنے دور میں محکمے میں وہ یاد گاریں چھوڑی ہیں جو کئی دوسرے وزیروں سے وابستہ ہیں۔ جام خان شورو کے خاندان والوں کو یونین کونسل کے معاملات چلانے کا موقع ملا تھا ،لیکن یہاں تو آو ے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے۔ روبینہ قائم خانی اور جاوید خان ناگوری کابینہ میں وہ دو شخصیات ہیں جو ا ردو بولنے والے قرار دئیے جاتے ہیں۔ روٹی میں نمک کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے، سو کابینہ میں نام کے اردو بولنے والے دو افراد شامل کر لئے گئے۔ روبینہ کو ترقی نسواں اور جاوید کو کچی آبادی کا وزیر مقرر کیا گیا۔ جاوید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لیاری کا باشندہ اور لیاری امن کمیٹی کے عزیر بلوچ کا نمائندہ ہے، جسے گفتگو کرنا بھی نہیں آتی ۔ علی نواز عرف راجہ مہر کا تعلق ضلع گھوٹکی سے ہے۔ مہر قبیلے کے سردار کے بھائی ہیں۔ سردار علی گوہر خان، اور ان کے ایک اور بھائی علی محمد خان مہر رکن قومی اسمبلی ہیں۔ یہ وہی علی محمد خان مہر ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنرل احسان الحق کی سفارش پر وزیر اعلیٰ مقرر کر دئیے گئے تھے۔
راجہ مہر صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ ایک کزن محمد بخش مہر بھی سندھ اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ راجہ کو وزارت زراعت دی گئی ہے۔ پیسہ جمع کرنے کا شوق راجہ کو بھی بے انتہا ہے۔ دوست محمد راہموں کا تعلق ضلع تھر پارکر سے ہے۔ ضلع میں جو بڑی برادریاں آباد ہیں، ان میں نوہڑی (ارباب غلام رحیم والے)، راہموں، سمیجو شامل ہیں۔ دوست محمد پیپلز پارٹی کے مخلص رہنما تصور کے جاتے ہیں ۔ انہیں محکمہ اوقاف دیا گیا ہے۔ انہیں وزارت اس لئے دی گئی ہے کہ ارباب غلام رحیم کے ضلع تھر پارکر میں پیپلز پارٹی کی دیکھ بھال ہو سکے۔ ضلع بدین سے سکندر مندرو کو پہلی بار وزارت دی گئی ہے۔ ان کی پیپلز پارٹی سے وابستگی بہت پرانی ہے اور وہ کئی بار سندھ اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں، لیکن ہر بار نظر انداز رہے۔ تعلیم ان کی شعبہ طب کی ہے اور وزارت انہیں قانون کی دی گئی ہے۔ ضلع بدین میں پہلے ذوالفقار مرزا پارٹی کے رہنماتھے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے کو مشیر بنایا گیا تو انہوں نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں بھی وزارت چاہئے تھی ۔ کابینہ میں شامل لوگوں میں سے کسی ایک میں بھی ایسی صلاحیتیں نظر نہیں آتیں، جو وہ بھی کبھی گنا سکیں کہ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ سندھ کابینہ میں دیگر وزراء سے ملاقات آئندہ سہی۔ ٭