مَیں نے وائٹ ہاﺅس کے افطار ڈنر کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟

گزشتہ پیر کے روز مَیں نے وائٹ ہاﺅس کے ”متنازعہ“ افطار ڈنر میں شرکت کی۔ متنازعہ اس لئے کہ امریکی صدر رمضان المبارک میں امریکہ کی مسلمان برادری تک رسائی کے لئے انہیں ہرسال جوڈنر دیتے ہیں، وہ اس مرتبہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی تائید کے لئے مختص ہوکر رہ گیا ۔ اس افطار ڈنر کی دعوت قبول کرنے سے پہلے مَیں اس شش وپنج میں تھا کہ جاﺅں یا نہ جاﺅں؟ کیونکہ اس معاملے پر مسلمان برادری کی رائے تقسیم تھی، میری اندرونی سوچ یہ تھی کہ کیا ڈنر کی تقریب میں شرکت کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ امریکہ میں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی جو سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، مَیں بھی ان کی توثیق کا حصہ بن جاﺅں ، ایسی خلاف ورزیوں میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے مسلمانوں کی جاسوسی اور بہت سے ایسے مسلمان ملکوں میں ڈرون حملے اور ماورائے عدالت ہلاکتیں ہیں جہاں امریکی مسلمانوں کے خاندانوں کے افراد رہتے ہیں، گوانتانامو کے عقوبت خانے میں قیدیوں پر مسلسل تشدد اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کو، جوبالکل سامنے کی بات ہے نظرانداز کرکے اسرائیل کی غیرمشروط حمایت ، میرے ضمیر پر یہ سوال چھایا ہوا تھا کہ افطار ڈنر میں حاضری کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آئندہ طویل مدت کے لئے کوئی بھی ان مسائل پر بات نہیں کرے گا اور نہ ہی فلسطین کاز کی وکالت کرے گا۔
بالآخر مَیں نے سوچ بچار کے بعد اگر اس افطار ڈنر میں شرکت کا فیصلہ کر ہی لیا تو اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مَیں اس تقریب کو سماجی روابط بڑھانے کے لئے استعمال کروں یا بڑے لوگوں سے تعلقات کی استواری کا وسیلہ بناﺅں، نہیں !مَیں نے وہاں جانے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ مَیں کچھ سیکھ سکوں، اپنے ذہنی افق کو وسیع کرسکوں اور مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں، انہیں نمایاں کیا جائے۔ مَیں وہاں اس لئے گیا تاکہ مسلمانوں سے بطور فرد اور ملک گیر سطح پر ان کے رہنماﺅں سے مل سکوں اور ان سے ربط ضبط بڑھاﺅں اور پھر ان تعلقات کو کام میں لاکر نچلی ترین سطح پر امن وانصاف کے لئے بطور ایک منتظم کے کام کر سکوں، پھر سب سے زیادہ یہ کہ مَیں صدر اوباما سے اس معاملے پر بات کرنا چاہتا تھا کہ برابر کے انسانی حقوق اور تمام شہریوں خصوصاً چھوٹی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے ہماری حکومت نے جو کمٹمنٹ کررکھی ہے، اس کے متعلق سوال اٹھاﺅں۔ مَیں فلسطین میں پیدا نہیں ہواتھا، لیکن پھر بھی فلسطین میرے دل کے اندر بستا ہے، مَیں نے (افطار کے لئے ) وائٹ ہاﺅس کا دورہ کیا اور اپنے ساتھ فلسطینی ورثے کے کچھ نمونے بھی لیتا گیا، اگرچہ مجھے میرے دوستوں نے مشورہ دیا کہ مَیں فلسطینی رومال، جوفلسطین کی شناخت بن چکا ہے، اوڑھ کر نہ جاﺅں، لیکن مَیںنے ایسا ہی کیا اور فلسطینی رومال اوڑھ لیا، یہ میرے پاس اس ابرآلود شام کے لئے واحد قابل عزت وتکریم نشانی تھی۔ جو مَیں نے اس روز پہن لی۔ امریکی شہری کی حیثیت سے ہم میں سے ہر کسی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ٹیکس دینے والوں کی رقوم ملک کی سلامتی کے لئے خرچ ہوں، بجائے اس کے کہ ہم اسرائیلی نسل پرستی کی حمایت کریں۔ امریکہ اسرائیل کو سالانہ 3.1بلین ڈالر دیتا ہے، جس رقم میں سے اسرائیل فلسطینی سرزمین پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے اخراجات کرتا ہے۔ افطار ڈنر کی رات پہلی مرتبہ مَیں نے ہجوم میں اسرائیلی سفیر کو دیکھا جو اکیلے بیٹھے تھے اور سیکیورٹی چیک پوسٹ پر متعین کسی واچ ڈاگ کی طرح ڈنر میں مسلمانوں کی موجودگی کو بغور دیکھ رہے تھے۔
مجھے صدمہ ہوا اور مَیں حیران بھی ہوا کہ کیا امریکی صدر کسی یہودی ڈنر کے موقع حماس کے کسی نمائندے کو دعوت دینے کی جرا¿ت کریں گے اور کیا اس طرح کا توہین آمیز طرزعمل صرف امریکی مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے۔ پیر کے روز ہونے والا افطار ڈنر میزبان کی طرف سے رواداری کے مظاہرے کے خلاف تھا، جب انہوں نے اپنے مسلمان مہمانوں کے چہرے پر ایک نہیں دوبار زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ افطار میں اسرائیلی سفیر کو دعوت دینا مسلمانوں کے رخسار پر ایساہی ایک طمانچہ تھا، لیکن صدر نے تقریب میں اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرکے دوسرا زور دار تھپڑ بھی مار دیا۔ میراخون کھولتا رہا، لیکن مَیں تقریر کے مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا تاکہ مَیں بھی کوئی بات کرسکوں۔ جونہی صدر کی تقریر ختم ہوئی، تو احساس ہوا کہ یہ موقع کسی حقیقی مکالمے کے آغاز کے لئے نہیں تھا، بلکہ یہ یک طرفہ بھاشن کے لئے تھا اور ڈنر کے بعد صدر تیزی کے ساتھ ساتھ جلدی جلدی کمرے سے نکل گئے۔
اے میرے عزیز ناقدین جو سکرینوں اور کی بورڈوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کے لئے یہ کہنا بہت آسان ہوگا کہ تم ڈنر کا بائیکاٹ کردیتے اور واک آﺅٹ کر کے چلے آتے۔ اس طرح کی بات کہنا ہروقت آسان ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو مخالفافہ ردعمل سامنے آ رہا ہے وہ صدر اوباما کی اس تقریر کے جواب میں ہے جوانہوں نے اس ڈنر میں کی اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقریر میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا اس امر کے باوجود کہ اسرائیل غزہ میں تازہ ترین قتل عام میں ساڑھے چارسو سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مَیں امریکی صدر کی طرف سے اسرائیل کی اس حمایت پر ہکا بکا رہ گیا، ایسی بات کرنے کا یہ موقع نہیں تھا، لیکن مَیں دوبارہ کہوں گا کہ یہ تبصرہ غیر متوقع تھا اگر یہ متوقع ہوتا تو مَیں یقین دلاتا ہوں کہ میری نشست خالی ہوتی، اگر بائیکاٹ کسی منصوبہ بندی کے ذریعے باقاعدہ طورپر کیا جائے تو وہ مو¿ثر ہوتا ہے۔ وائٹ ہاﺅس پر افطار کا اگر ایک یا دو لوگ بائیکاٹ کردیتے تو کیا تیر مار لیتے ؟بائیکاٹ کے معاملے پر بھی مسلمانوں کی آواز تقسیم تھی۔ مسلم پبلک افیئرز کونسل افطار ڈنر میں شریک تھی، جبکہ امریکن عرب اینٹی ڈسکریمنشن کمیٹی نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ایسی صورت میں کسی جوابی بیان کی امید لاحاصل تھی۔
ایک ایسے واحد شخص کی حیثیت سے، جس نے صدر کی تقریر پر تالیاں نہیں بجائی تھیں، مَیں مایوسی اور ناامیدی کی حالت میں واپس لوٹا، جو لوگ ڈنر میں شریک ہوئے تھے، ان میں سے کچھ تو کرسیوں کی ترتیب پر تبصرے کر رہے تھے، بعض خوراک کی بات کرتے سنے گئے، اور کھانے کے اس مینو پر تبصرے کررہے تھے جو بارہ میزوں پر پھیلا ہوا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مَیں دوبارہ جاﺅں گا (اگلے برس) ہاں میں جاﺅں گا، مگر اس وقت میرا طرز عمل مختلف ہو گا، بالکل مختلف ۔ مَیں ایسے توہین آمیز طرز عمل کا جواب زیادہ مہذب طریقے سے دوں گا۔ مَیں نے اپنی غلطی سے سیکھا ہے، (میری غلطی یہ نہیں تھی کہ مَیں ڈنر میں شریک کیوں ہوا، بلکہ یہ تھی کہ مَیں خاموش کیوں رہا ) ایک صدر کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مذہبی تقریب میں جو مسلمانوں کے کلچر اور عقیدے کا حصہ تھی، اس طرح مسلمانوں کی بے عزتی کا باعث بنیں۔ واپسی پر ایئر پورٹ جاتے ہوئے میرے مسلمان ٹیکسی ڈرائیور نے دانش کے کچھ الفاظ کہے ۔ ایک شیر کی چنگاڑ سن کر آپ تھوڑی دیر کے لئے بھاگ سکتے ہیں، لیکن ایک شیر کو اپنے سامنے دیکھ کر آپ اپنی زندگی بچانے کے لئے بھاگ جائیں گے “ یہ سچ ہے، اس طرح کی بے عزتی براہ راست ہوتے دیکھنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے اور صدر کے الفاظ میرے ضمیر کو کچوکے لگارہے ہیں۔ مَیں ان سے سبق سیکھوں گا ان سے حرکت پذیری لوں گا اور میں اپنی برادری کو متحرک کروں گا، غزہ کے لوگوں کی طرح، میں صدمے سے مبہوت ہوکر رہ گیا اور غزہ ہی کے لوگوں کی طرح میں اگلے حملے کے لئے تیار ہوں۔