عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے؟

عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کل کے معاشرے میں اس بات کا فیصلہ کرنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے کہ کون بے وقوف ہے اور کون عقلمند؟بے راہ روی ایسی کہ حکومت نے جو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا ہے، بلکہ مکمل خاتمہ کر دیا ہے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لا پٹخا ہے تو ہر طرف روشنی، بلکہ بے انتہا روشنی کے باوجودبھی اپنے سوا کوئی عقلمند دکھائی ہی نہیں دیتا، البتہ بے وقوف بہت سارے مل جاتے ہیں۔اب المیہ یہ ہے کوئی بے وقوف مانتا ہی نہیں کہ وہ بے وقوف ہے۔مَیں نے بہت سارے لوگوں سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو کہیں سے بھی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا ،مگر ایک دوست نے موبائل پر ایک ایس ایم ایس بھیجا جو کچھ اِس طرح تھا کہ ایک شخص پانچویں شادی کر نے جا رہا تھا۔ایک بہت پرانا دوست پندرہ بیس سال بعد ملاتو اُسے بھی اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے گیا۔دوست نے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟شادی کرنے والے دوست نے کہا کہ یار کیا کروں ، پہلی بیوی زہر کھا کر مر گئی تو مجھے دوسری شادی کرنا پڑی، پھر دوسری بیوی بھی زہر کھا کر مر گئی تو پھر تیسری شادی کی۔چھ مہینے کے اندر اندر اس نے بھی زہر کھا لیا ، پھر چوتھی شادی کرنا پڑی۔ دوست نے پوچھا کہ چوتھی بیوی نے بھی زہر کھا لیا ہوگا؟جواب ملا نہیں، اُسے مَیں نے ڈنڈے مار مار کر ختم کر دیا۔دوست نے پوچھاکہ وہ کیوں ؟اُس نے زہر کھانے سے انکار کر دیا تھا۔
فارمولا تو اچھا ہے کہ جو بے وقوف یہ نہ مانے کہ وہ بے وقوف ہے تو پھر چوتھی بیوی والا ڈنڈاحربہ استعمال کیا جائے۔بس ذرا احتیاط یہ ہونی چاہیے کہ سامنے والے بے وقوف کو تسلی سے پرکھ لو کہ وہ آپ سے زیادہ زور آور تو نہیں، ورنہ ڈنڈے کا استعمال ری ایکشن بھی کر سکتا ہے۔ یہ واحد طریقہ ءعلاج ہے کہ مریض کی بجائے علاج کرنے والا ری ایکشن کی زد میں آجاتا ہے۔اپنا آپ بچا کر یہ طریقہ علاج لاگو کیا جا سکتا ہے۔ شادی شدہ مرد حضرات کو تو دو دھاری تلوار سے لڑنا پڑتا ہے، ایک بیوی اور دوسرا بے وقوف (یہ دوسرا بے وقوف لکھا ہے، آپ اپنی مرضی سے دوسری پڑھ سکتے ہیں ،مگر بعد کے حالات کی ذمہ داری میری نہیں ہوگی) اور مرد بیچارے کی جان ہوتی ہے بہت ننھی سی ، اس لئے وہ عقلمندی سے اشارہ ہی سمجھ لیتا ہے۔

جب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی ہے تو حالات کچھ عجیب سے ہو چلے ہیں۔بڑے میاں صاحب نے الیکشن سے بہت پہلے فرمایا تھا کہ پیپلز پارٹی ملک نہیں چلاپا رہی ،نادانی پر نادانی کئے جا رہی ہے ،جبکہ مجھ میں اور میری پوری ٹیم میں اتنی اہلیت ہے کہ بہت قلیل عرصے میں ہم ملک کی قسمت ہی بدل کر رکھ دیں گے۔، حکومت سنبھالتے ہی جتنے بھی طبق تھے، سب روشن ہو گئے ،مگر لوڈشیڈنگ کا اندھیرا کسی طور کم نہ ہوا۔عقلمند تو یہ شروع سے ہی تھے کہ اکٹھے 35پنکچر لگوا ڈالے، ٹائر ٹیوب نہیں بدلی۔ان جیسے عقلمندوں کے لئے بھی اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ان کی سادگی سے لوگ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور بے وقوف کو آگے کر کے کوئی سا بھی بیان دلوا دیتے ہیں یا پھر ماڈل ٹاﺅن والا کام کرا دیتے ہیں یا پھر پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ بھی دے دیا جاتا ہے اور میاں صاحب ان کے اشاروں کو درست سمجھ لیتے ہیں ،بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اشارہ جس نے کیا تھا، وہ تو بے وقوف تھا،مگر کیا کریں یارانہ بھی تو نبھا نا ہوتا ہے۔میاں صاحبان اپنی عقلمند ٹیم کے بے وقوفانہ اشاروں سے اتنا نقصان اُٹھا چکے ہیں کہ اب لگتا ہے کہ ان کی بس ہونے والی ہے ،مگر اقتدار کی کرسی بڑی ظالم ہوتی ہے ،جس پر بیٹھتے ہی درد محسوس کرنے والی حس ختم ہو جاتی ہے، پھر بھلے اشارہ کرنے والا بے وقوف ہو یا پھر عقلمند، اس سے حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں تک کہ انقلاب کی آمد کا اشارہ بھی ان میں رتی برابر تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا۔
مجھے پکا یقین ہے کہ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد بھی ان کو کوئی اشارہ نہیں ملا ہوگا ۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ ملک بھر میں 77خواتین سمیت 212افراد نے خود کشی کی ،جبکہ 46افراد نے خود کشی کی ناکام کوشش بھی کی۔ملک ترقی کر رہا ہے ، میٹرو بسیں چل رہی ہیں، اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی بہت جلد شرمندہ ءتعبیر ہونے کو ہے، سڑکیں کشادہ ہو رہی ہیں، پل بن رہے ہیں، روز گار کے بے شمار مواقع منہ کھولے دھاڑ رہے ہیں، پھر بھی لوگوں کو خود کشی کرنے کا شوق کیوں ہے؟ اس میں بھی حکومت کا قصور ہے ؟گلے میں غم کا طوق ہو تو بندہ کہتا پھرتا ہے کہ ”کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی“....اب اس سے حکومت بیچاری کیا اشارہ سمجھے؟
پتہ نہیں کس عقلمند نے شہباز شریف کو اشارہ دیا ہے کہ وہ بنوں میں یہ اعلان کر آئے ہیں کہ پنجاب حکومت شمالی وزیرستان میں جدید ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے گی۔حضور اپنے صوبے میں پہلے سے موجود ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت ِ زار پر تو نظر ِ کرم فرمائیں۔بے شمار سکول ایسے ہیں ،جہاں پینے کے صاف پانی تک کی سہولت مہیا نہیں ہے ، ان گنت سکولوں میں واش روم نہیں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت پر تو اب رونا بھی نہیں آتا کہ ملتان کے نشتر ہسپتال میں کروڑوں روپے کی مشینری عرصے سے خراب پڑی ہے اور وارڈز میں کتے بلیاں دندناتے پھرتے ہیں اور آپ لگے ہیں شمالی وزیرستا ن میں نئے جدید ہسپتال قائم کرنے۔خادم اعلیٰ صاحب! جنوبی پنجاب کے ہسپتال اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کے اشارے آپ کو ملتے نہیں یا پھرآپ ان پر جان بوجھ کر توجہ نہیں دینا چاہتے کہ سیاست کے میدان میں ان پر کام کر کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے؟

کافی مغز ماری کے بعد بھی کوئی بات پلے نہیں پڑی کہ عقلمند حکمرانوں کو عوام کے بدلتے تیور کے اشارے کیوں نہیں سمجھ آتے؟ایک خبر نظر سے گزری تو سمجھ شریف میں ساری کہانی آگئی۔خبر کچھ یوں ہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 2012ءمیں قائم کیا گیا سونامی وارننگ سسٹم گزشتہ دو سال سے ناکارہ پڑا ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی شراکت سے قائم کئے جانے والے اس سسٹم کا کنٹرول 2012ءمیں محکمہ موسمیات کے حوالے کر دیا گیا تھا۔محکمہ موسمیات کی جانب سے سیٹلائٹ کمپنی کو سروس چارجز ادا نہ کرنے کی وجہ سے سونامی کی اطلاع دینے کا یہ نظام کام نہیں کر رہا ۔خیال رہے کہ گوادر میں دو سال قبل محکمہ موسمیات کی ایک نئی عمارت بھی قائم کی گئی تھی، تاہم اس عمارت میں صرف ایک اہلکار کی موجودگی کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔عمران خان اور ان کی پوری تحریک انصاف دو تین سال سے چیخ رہی ہے کہ سونامی آرہا ہے، سونامی آ رہا ہے اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔حکومت کا سونامی وارننگ سسٹم ہی کام نہیں کر رہا تو وہ کیسے اس چیخ و پکار پر یقین کرے۔
عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ لندن کا ایک اور دورہ کریں اور گوادر کے سونامی وارننگ سسٹم کی سالانہ فیس کی ادائیگی کے لئے چندہ مہم چلائیں۔سسٹم ٹھیک کام کرے گا اور کسی بھی طوفان کی آمد کی پیشگی اطلاع ملے گی تو پھر توقع کی جا سکتی ہے کہ عقلمند وں کو اشاروں کی کچھ کچھ سمجھ آئے گی۔پتہ نہیں دنیا میں انقلاب کے آنے کی پیشگی اطلاع دینے والا کوئی سسٹم بھی ایجاد کیا جا چکا ہے یا نہیں۔مَیں نے تھوڑی بہت تحقیق کی ہے ، مجھے تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی، البتہ کچھ لوگوں نے کہا کہ سینہ گزٹ ہی وہ آزمودہ طریقہ ہے جو انقلاب کی پیشگی اطلاع دیتا ہے۔سینہ گزٹ کے بارے میں بہت سارے لوگوں کی رائے یہی ہے، چونکہ سینہ گزٹ میں کوئی سائنسی پیمانہ استعمال نہیں ہوتا، اس لئے انقلاب کے سلسلے میں زیادہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔انقلاب کے حوالے سے سینہ گزٹ کی خبروں میں پہلے پہل بہت ہل چل ہوتی ہے ،مگر جب جہاز لینڈ کرجاتا ہے تو اس انقلاب کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے ایک گورنر ہی بہت ہوتا ہے، جو میڈیا کے سامنے بولے گئے ہر فقرے پر سر جھکا ئے رکھے۔
میری حکومت کے تمام عقلمندوں سے گزارش ہے کہ اگر کچھ بے وقوف آگے آکر ان کو اشاروں سے کچھ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”سب اچھا ہے“ تو سب اچھا نہیں ہوتا ، اس میں کچھ بُرا بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ بسا اوقات کچھ بہت بُرا بھی ہو رہا ہوتا ہے، جس کے اشارے ان کو کوئی نہیں دیتا۔ان اشاروں کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے ان کو خود میدان میں آنا پڑے گا اور اپنی عقل استعمال کرنا پڑے گی کہ ایسے بھی کچھ اشارے ہوتے ہیں، جن کے لئے ابھی تک کوئی وارننگ سسٹم بھی متعارف نہیں کرایا گیا۔یہ ان دیکھے اشارے خاموشی سے پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور ایک ہی بار دھماکے سے آپ کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔، یہ اتنے طاقتور ہو تے ہیں کہ کبھی تختہ دار کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور کبھی دوسرے کی قسمت ساتھ دے جائے تو جدہ جیسے دور دراز شہر تک خود چھوڑ آتے ہیں۔یہ اشارے بڑے کام کے ہوتے ہیں،انہیں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جس کی ساری زندگی ہی غلط اشاروں پر پروان چڑھی ہو ،اس عقلمند کے لئے ٹھیک اشاروں کو سمجھنا ذرا مشکل کام ہے اور ان دیکھے اشاروں کو سمجھنا ذرا وکھری ٹائپ کا کام ہے۔

مزید :

کالم -