پاک فوج، عوام اور ایف ایم ریڈیو چینلز

’’ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے،
توں لبھدی پھریں بازار کُڑے‘‘
ہمارے گھر میں شام کو اکثر ریڈیو پر جب یہ ترانہ گونجتا تو گاؤں میں دُور دُور تک آواز جاتی۔ جنگ ستمبر کی میلوڈی کوئن نے اسے پورے دل و جان سے گایا تھا۔ اِسی لئے کئی دوسرے جنگی ترانوں کی طرح یہ نغمہ اور اس کی شاعری آج بھی جذبات میں ولولۂ تازہ بھر دیتی ہے۔ پرانے زمانے کی صرف پانچ جماعتیں پڑھی، ہماری امی جان اس ترانے کے احترام میں ریڈیو کی طرف مُنہ کر کے پورے عقیدت و احترام سے بیٹھ جاتیں۔ جوں جوں ترانہ آگے بڑھتا جاتا ، آنسوؤں کی ایک دھار ان کے سرخ و سپید چہرے پر پھیل جاتی۔امی جان ہمارے سکول کی کتابوں میں نشانِ حیدر والے مضمون اور تصویروں کو غور سے دیکھا کرتیں اور انہیں دیوانہ وار پیار کرنا شروع کر دیتیں۔ ہم اگر چاہیں بھی تو اپنی زندگی سے بچپن کی ان یادوں کو الگ نہیں کر سکتے۔
شعور کی آنکھیں کھلتی گئیں تو پتہ چلا کہ نشانِ حیدر کن شہدا کو ملتا ہے۔ ایک دن ایسا بھی آ گیا کہ ہم لاہور کے مقامی ہوٹل میں فوج کے شعبہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ISPR) کی میڈیا ورکشاپ میں شریک تھے۔ ہمیں اس وقت پہلی بار پتہ چلا کہ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی کوئی ہے۔ لاہور کی دو یونیورسٹیوں میں افسر تعلقات عامہ رہنے کی وجہ سے ہمیں اس شعبے کے مزاج اور حساسیت کا بخوبی اندازہ ہے کہ99فیصد خبریں شائع کروا دیں تو ان کی اکثر کوئی شاباش اور نیک نامی نہیں ہوئی، جبکہ ایک خبر شائع نہ ہو تو آپ کا نامۂ اعمال مسلسل تنقید کر کے مکمل سیاہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماہرین تعلقات عامہ کہتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے کام کرو اور دوسرے ہاتھ سے مسلسل ڈھول بجاتے رہو کہ مَیں یہ کام کر رہا ہوں۔اس میدان کے سدا بہار شہسوار اور خوبصورت شاعر جناب شعیب بن عزیز کا فرمان یہی ہے کہ کئی سال قبل اس میڈیا ورکشاپ میں جا کر شدت سے احساس ہُوا کہ فوج والوں نے دوسرے ہاتھ سے ڈھول نہیں بجایا، حالانکہ ہماری فوج کو دُنیا کی منظم ترین فوج سمجھا جاتا ہے۔یوں تو فوج کا شعبہ تعلقات عامہ کرنل شہباز خان کی سربراہی میں1949ء میں باقاعدہ قائم ہوا تھا، لیکن غالباً اس کی اپنے دیگر کاموں کے پھیلاؤ اور ذمہ داریوں کی وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ مرکوز نہیں ہو سکی۔ لاہور میں کچھ فعال افراد اس شعبے میں رہے۔ ان دنوں شاہد عباس کرمانی جو ایم اے ابلاغیات میں ہمارے ایک سال سینئر تھے۔ یہ ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔
اس شعبے کی فعالیت اور کارکردگی کا انحصار بنیادی طور پر ادارے پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ادارے کو مُلک کی رائے عامہ مجموعی طور پر پسند کرتی ہے، تو شعبۂ تعلقات عامہ کا کام کافی آسان ہو جاتا ہے۔اگر آپ کے ادارے کے بارے میں معاشرے کے عام افراد کچھ ملے جلے خیالات رکھتے ہو ں تو ان میں سے منفی خیالات کو مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے لئے اس شعبے کی اہمیت اور فرائض میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہماری فوج کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمارے لوگ عموماً تنقید اور نکتہ چینی کی طرف آمادگی ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا 1971ء کے بعد سے لے کر فوج کسی نہ کسی طرح ہدف بنی رہتی ہے، حالانکہ ہمیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فوج کے بے شمار مثبت کاموں کی تعریف بھی ضرور کرنی چاہئے۔ مثلاً جان سے پیاری اور زیادہ کیا چیز ہو سکتی ہے اور ہمارے فوجی جوان وہ بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور جرأت، شجاعت اور ثابت قدمی کی نئی مثالیں رقم کرتے رہتے ہیں:
ایہہ اپنے دیس دی عزت توں جان اپنی دیندے وار کُڑے
گزشتہ دنوں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے میجر جنرل نیول آئی کھوکھر کے دعوت نامے سے پتہ چلا کہ فوج کا شعبۂ تعلقات عامہ اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ متحرک اور فعال ہو چکا ہے۔ گزرے برسوں کے دوران اس شعبے کی جاری کردہ پریس ریلیز اور بیانات سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ اس شعبے کے تحت یہ ساتویں نیشنل میڈیا ورکشاپ تھی۔ ان کے آڈیٹوریم میں تقریباً75شرکاء جمع تھے، جن میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ پارلیمنٹیرین، مختلف پس منظر کے افسران اور میڈیا سے متعلق خواتین و حضرات جمع تھے۔ صبح اُٹھا تو ان کے یونیورسٹی ٹی وی چینل پر ورکشاپ کی کوریج چل رہی تھی۔ نڈر، بے باک، کسی نہ کسی طرح اپنی بات کہہ جانے کے ماہر اور محنتی طلعت حسین لیکچر دے رہے تھے۔ ان کے بعد آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ کا لیکچر تھا،جو واقعی بہت دوستانہ ماحول میں اپنی کارکردگی کو کامیابی سے بیان کر رہے تھے۔ نئی جگہ کی وجہ سے اپنی طبیعت صبح تک کافی خراب ہو چکی تھی، جبکہ حکم مِلا ہوا تھا کہ لنچ بریک کے بعد آپ نے ’’ایف ایم ریڈیو چینلز‘‘ کے موضوع پر لیکچر دینا ہے۔ لنچ کے بعد سُستی اور نیند کی وجہ سے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔ اپنی اس بشری کمزوری کے بارے میں منتظمین کو بتایا بھی تھا، لیکن اس وقت تک وہ سارا پروگرام ترتیب دے چکے تھے۔
عرض کیا کہ ریڈیو پہلے پہل سٹیشن سے نشریات ریلے ہونے کی وجہ سے صرف (AMPLITUDE MODULATION)، یعنی اے ایم کی صورت موجود تھا۔ اس سسٹم میں جو ٹیکنیکل خرابی تھی کہ سٹیشن کے بعد آواز کی لہروں کو زیادہ طاقتور بنا کر آگے بھیجنا تھا، لیکن آواز کے اس سفر میں کئی قسم کی رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ بلند و بالا پہاڑ،وسیع و عریض سمندر، آسمان سے باتیں کرتی کئی منزلہ عمارتیں اور حتیٰ کہ سورج کی روشنی تک آواز کے اس سفر کو کمزور کرتی چلی جاتی تھیں، لہٰذا سامع تک آواز بہت مدھم یا کمزور پہنچنے سے پیغام کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا تھا۔اسی لئے تو ہٹلر کے انفارمیشن منسٹر ڈاکٹر گوئیلز نے دشمن ممالک کی سرحدوں کے بالکل قریب ریڈیو سٹیشن قائم کر کے پروپیگنڈہ کیا تھا۔ایف ایم (فریکونسی ماڈولیشن) میں ٹرانسمیٹر کے ذریعے ہَوا کی لہروں سے پیغام کی فریکونسی فکس کر کے نشریات چلائی جاتی ہیں۔ یہ اینا لاگ یا ڈیجیٹل ڈیٹا کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سسٹم کو1930ء کی دہائی میں ایڈون آرم سٹرانگ نے ڈویلپ کیا۔ایف ایم ریڈیو کا سیٹ اَپ نہ صرف یہ کہ سستا، بلکہ ایک محدود علاقے تک اس کی آواز بالکل صاف اور طاقتور سنائی دیتی ہے۔ اِسی لئے 1980ء اور1990ء کی دہائیوں سے ایف ایم ریڈیو دنیا بھر میں بہت مقبول ہو گیا ہے۔ ہمارے دشمن نے ریڈیو بہت بروقت اور موثر طور پر استعمال کیا ہے۔ 17اپریل 1971ء کو جب عوامی لیگیوں نے مشرقی پاکستان میں اپنی عبوری حکومت قائم کر لی تو انہوں نے باغیوں کے درمیان رابطے کے لئے اپنا ریڈیو سٹیشن قائم کر لیا تھا۔
پاکستان میں ایف ایم ریڈیو چینلز کھولنے کی اجازت Pakistan Electronic Media Regulatory Authority Ordinance 2002ء کے تحت دی گئی۔ پیمرا نے اس کے لئے تمام اصول و ضوابط طے کر دیئے تھے،حتیٰ کہ ان کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ(اخلاقی ضابطہ) بھی شائع کر دیا تھا، جو اس قانون کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اطلاع، تعلیم و ٹیکنالوجی،معاشی اور سماجی شعبوں میں ترقی، موسیقی، کھیل، ڈرامہ، صحت اور انسانی زندگی کے دیگر موضوعات پر بھی پروگرام نشر کئے جائیں گے۔ مشرف حکومت نے تعلیم کو ترجیح اول دینے کا اعلان کر رکھا تھا اس لئے یونیورسٹیوں اور تمام بڑے کالجوں بالخصوص جہاں صحافت (Mass Communication) کا مضمون پڑھایا جاتا ہے وہاں ایف ایم ریڈیو چینلز کے لائسنس آسان شرائط پر جاری کئے جائیں۔ ان دس بارہ برسوں میں اکثر یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایف ایم ریڈیو چینلز آن ایئر ہیں۔ یہ ریڈیو چینلز اکثر تعلیمی اداروں میں کسی استاد کی زیر نگرانی طلبہ وطالبات چلا رہے ہیں۔ اکثر چینلز کی نشریات محدود وقت کے لئے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ چینلز بہت معیاری،متنوع اور دلچسپ پروگرام بھی پیش کر رہے ہیں۔
ان کے علاوہ زیادہ ایف ایم ریڈیو چینلز کئی افراد انفرادی طور پر چلا رہے ہیں اور مقامی اداروں کے اشتہارات کے ذریعے خاطر خواہ رقم کما رہے ہیں، اس لئے اب نئے لائسنس کے لئے بہت مہنگے داموں نیلامی ہوتی ہے اور اہلِ زر ہی میدان میں رہ جاتے ہیں۔ کچھ سرکاری و نیم سرکاری ادارے بھی اپنے اپنے چینلز چلا رہے ہیں۔ مثلاFM 92.4 ٹریفک پولیس عوام کی رہنمائی کے لئے،89.4آرمی پیڈیاٹک لائیو آر جے میوزک، چیمبرز آف کامرس، ایف ایم101خبروں اور اُردو پنجابی میوزک کے علاوہ کرکٹ کو زیادہ کوریج دیتا ہے۔ ویزا ایف ایم94 پرانی کلاسیکل اور فوک موسیقی کو اہمیت دیتا ہے۔ غرض ایف ایم ریڈیو چینلز کی اس دلچسپ دُنیا میں روز بروز وسعت اور اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری پاک فوج کو بھی چاہئے کہ اپنے آئی ایس پی آر کے تحت مُلک کے بڑے شہروں میں اپنے ایف ایم چینلز کا آغاز کرے۔اس طرح عوام اور ان کے درمیان جہاں فاصلے کم ہوں گے وہاں خدانخواستہ کسی ناگہانی آفت میں بہتر اور موثر ابلاغ کے ذریعے بہت سے جانی اور مالی نقصان سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں اور باغیوں نے ایف ایم ریڈیو چینلز کو اتنا آسانی سے وسیع پیمانے پر استعمال کیا کہ مُلا فضل اللہ کا دوسرا نام ہی ’’مُلا ریڈیو‘‘ مشہور ہو گیا تھا۔اب تو آپریشن ضربِ عضب کے بعد ان کے بہت سے نیٹ ورک ٹوٹ گئے ہیں ورنہ انہوں نے ان چینلز پر بہت خطرناک اور خوفناک پیغامات نشر کر کے علاقے کے عوام میں بہت دہشت پھیلا رکھی تھی۔ لامحالہ ان ریڈیو کے سگنلز فوج کے خفیہ پیغام رساں نظام کے اندر بھی رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ الارمنگ پہلو بیرونی ممالک کا ہماری ہوا کی لہروں پر قبضہ کا اقدام ہے۔ایک طرف وائس آف امریکہ نے اسلام آباد میں اپنا واشنگٹن سٹوڈیو کھول رکھا ہے۔اپنی سیون ٹو سیون نشریات میں وہ خبریں، حالات حاضرہ، ادبی و ثقافتی پروگرام،غرض انسانی دلچسپی کے تمام تر معیاری مصالحے جمع کر دیتا ہے۔ لائیو کالز کی وجہ سے اس کے سامعین کی بڑی تعداد ہے۔ ان سب نشریات کے دوران کمال حکمتِ عملی سے وہ امریکہ کی پالیسیاں، وہاں کے اخبارات کے اداریے اور تجزیے بھی پیش کرتا چلا جاتا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈورا بھی پیٹتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیمرا کا یہ قانون کہ کسی غیر ملکی کو یہاں ایف ایم ریڈیو چینل کا لائسنس نہیں دیا جائے گا، اس کی خلاف ورزی تو خود حکومت نے کر رکھی ہے۔
ہماری ہوا کی لہروں(Air Waves) پر قبضے کی دوسری کوشش امریکی اور دیگر بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے ہمارے ایف ایم ریڈیو چینلز اور بالخصوص تعلیمی اداروں کے چینلز کو اپنے تیار کردہ پروگرام نشر کرنے کے لئے راغب کرنا ہے۔ ان کے اربابِ اختیار کو پُرکشش امداد اور اپنے ممالک کے تفریحی دوروں کی پیشکش وغیرہ کرتا ہے۔ یہ این جی اوز ہمارے بڑے شہروں میں ایف ایم ریڈیو چینلز کی کانفرنسیں، سیمینارز اور ورکشاپس کر کے ان میں مستقل رابطے میں رہتی ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت کامیاب ہیں۔کیا کِیا جائے، کرکٹ کنٹرول بورڈ کی طرح ہمارے ہاں ہر ادارے کے سربراہ کی تقرری کا ایسا ’’پھڈا‘‘ پڑ جاتا ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔پیمرا کا حال بھی بہت دِگر گوں ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی لڑائی نے اسے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ اوپر سے جو سربراہ آتا ہے وہ اپنی مرضی کرتا ہے اور بیرونی ممالک کے اداروں سے مالی مفادات سمیٹنے کے لئے نئے معاہدے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں کرپشن کے الزام تو لگتے ہیں، لیکن کسی کو پکڑنا بہت مشکل ہے۔ والد مرحوم مجذوب چشتی کا ایک شعر ہے کہ:
ہر مسافر یہ کہہ کے چُھوٹا ہے
مجھ کو مرے رہنما نے لوٹا ہے
اب تو صرف یہی امید کی جا سکتی ہے کہ کراچی آپریشن کے بعد ان قومی اداوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔امید پر دُنیا قائم ہے۔