کیا ہم اتنے ہی گئے گزرے ہیں
ایک ایسی عورت جو انتہائی کالی، موٹی، اور بدصورت تھی اور جسے مدینے کی گلیوں میں بچے پتھر مار کر اس پر ہنسا کرتے تھے، لیکن وہی عورت جب ایک بار حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے سے گزری تو حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت عبداللہؓ سے کہا ’’ میں تجھے ایسی عورت نہ دکھاؤں جو جنت میں جائے گی‘‘ اور پھر اس عورت کی جانب اشارہ کیا۔
اب عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں بات آئی کہ ایسا کیونکر ہو گا؟
حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا ’’ ایسا اس لیے کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا تھا جب یہ عورت وہاں آئی اور کہا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے مرگی کے دورے پڑتے ہیں، آپﷺ دعا کیجیے کہ میری مرگی ٹھیک ہو جائے۔‘‘
اب ہونا کیا چاہیے تھا کہ آج کل کے علما ء کرام کی طرح اللہ کے رسولﷺ بھی ہاتھ اُٹھاتے اور حاضرین کو بھی دعا میں شامل ہونے کی تلقین کرتے لیکن وہ تو اللہ کے رسول ﷺ تھے۔ اب اللہ کے رسولﷺ نے کیا جواب دیا؟
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’تُو کیا چاہتی ہے؟ تجھے آخرت میں جنت ملے یا اس دنیا میں صحت نصیب ہو جائے؟‘‘
عورت نے تھوڑی دیر سوچا پھر جواب دیا کہ میں اگلی دنیا میں اس کا اجر، یعنی جنت لوں گی۔
واپس ہوئی لیکن پھر پلٹی، اب یہ جو واپس ہو کر دوبارہ پلٹنا ہے ناں، یہ اس ادارے، اس بڑے فلسفے کو کھولتا ہے جس کو ہم دعا کہتے ہیں اور یہ ادارہ اگر اس کالی، بدصورت عورت کے طفیل ہم پر آشکار نہ کیا جاتا، تو ہم رہتی دنیا تک ہر چیز کا الزام اپنے مقدر اور نصیب پر ڈال کر روتے رہتے......
اس عورت نے پلٹ کے رسول اللہ ﷺ سے کہا ’’اجر تو میں اگلی دنیا کا ہی مانگوں گی مگر جب مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو میرا ستر ننگا ہو جاتا ہے، دعا کیجیے کہ اللہ اس دنیا میں میرا ستر ڈھانپ دے.......‘‘.
اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے لیے دعا کی اور اللہ نے اس دنیا میں بھی اس کا ستر ڈھانپ دیا اور اسے اگلی دنیا کے اجر سے بھی نواز دیا.......
کیا ہم اس ایک انصار، بدصورت، کالی عورت سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ہم اپنے رسول ﷺ پر اتنا بھی اعتماد نہیں رکھتے کہ ان کی دعا سے ہمیں دنیا و آخرت دونوں میں بھلائی نصیب ہو سکتی ہے؟
کیا ہماری خواہشات، تکبر کے اس پیمانہء عروج کو پہنچ گئی ہیں کہ جب تک ہماری خواہشات کی تکمیل نہ ہو، ہمارے لیے خدا ایک زندہ ہستی کی حیثیت نہیں رکھتا؟
اگر یہ معاملہ ایسا ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ ایسے نہ فرماتے۔
ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ! مجھے آپ سے محبت ہے۔‘‘
اب ہونا کیا چاہیے تھا؟ یہی ناں کہ رسول اللہ ﷺ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اور اس کو دعا دیتے کہ اللہ تجھے خوش رکھے، تو نے مجھ سے محبت کی، اللہ بھی تجھ سے لوگوں کی محبت قائم رکھے۔
منطق تو یہی کہتی ہے کہ رسول اللہﷺ کو یہی کہنا چاہیے تھا، لیکن آپﷺ نے کیا کہا؟ رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا ’’تجھے مجھ سے محبت ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’جی ہاں یا رسول اللہﷺ! مجھے آپ سے بڑی محبت ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے کہا ’’پھر دنیا کے عذاب اور مشکلات کے لیے تیار ہو جا۔‘‘
اب یہ جملہ یقیناً ایسا نہیں تھا جس کی اس شخص کو توقع تھی، اس نے کہا ’’لیکن یا رسول اللہﷺ! مجھے تو آپﷺ سے محبت ہے۔‘‘
فرمایا ’’اسی لیے دنیا کے عذاب کے لیے تیار ہو جا‘‘
کہا’’ یا رسول اللہﷺ! ’’مگر کیوں؟‘‘
(اب ذرا سوچئے ، ایسی ہی مجالس ہوتی ہوں گی اللہ کے رسول کے ساتھ بھی کہ ایک بات سمجھ نہیں آئی، سوال کیا، پھر دوسرا سوال کیا)
سو اس شخص نے ایک بار پھر کہا ’’یا رسول اللہﷺ !مجھے تو آپﷺ سے محبت ہے، پھر میں عذاب کے لیے کیوں تیار ہو جاؤں؟‘‘
فرمایا ’’کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ کبھی ایک حالت کسی پر دو دفعہ قائم نہیں کرتا.......‘‘
اگر تو نے دنیا میں عذاب کاٹا تو آئندہ کبھی عذاب نہیں کاٹے گا اور اگر دنیا میں آسانی کاٹی تو آئندہ کبھی آسانی نہ پائے گا.......
ہم مقدر کو شاید اس لیے سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں آسانی کے دن کون سے ہوں گے۔ لیکن پھر ایسا کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں رسول اللہ ﷺ کی یہ بات نہیں رہتی کہ اگر زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا دور آگیا تو ایسا لمحہ آخرت میں نہیں آئے گا۔
پس، یہ جان لیں کہ اگر آپ مقدر اور نصیب کے معاملات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حوالے سے دیکھیں گے تو تقویٰ آپ کو مقدر کی جانب آسانی سے لے جائے گا اور اگر آپ منطقی طور پر مقدر کو جانچنا چاہیں گے، تو یہ معاملہ آپ کو شاید بہت زیادہ دقت اور مسائل سے دوچار کرے گا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔