دستور: یہ نغمۂ جبریل ہے یا بانگِ سرافیل
مرحوم جنرل حمید گل سے ان کے دمِ رحلت، گویا کوئی دو عشرے، تک میرے بڑے ہی قریبی تعلقات رہے جن کا اظہار میں نے کبھی ضروری نہیں سمجھا۔ مرحوم کی شہرت مختلف زاویوں سے ہے۔ ان کے تعلق دار اپنے اپنے حساب میں بابت حمید گل جمع تفریق کرتے رہتے ہیں۔
میرے حساب میں پاکستان آرمی کے ہر فوجی سے اگر یہ سوال کیا جائے: بتاؤ تم پہلے مسلمان ہو یا پاکستانی؟ اور یہ سوال سو دفعہ کیا جائے تو ایک ہی جواب آئے گا: ’’حضور میں نگاہِ عشق و مستی و سرمستی و یحییٰ خان والی خرمستی و خمرمستی ہر حال میں اوّل و آخر فوجی ہوں، باقی حیثیتوں کا تعین آپ خود کر لیں۔
‘‘ برصغیر کے شمال مغربی علاقوں کے باشندے اور کچھ ہوں یا نہ ہوں، پیشہ آبا صدیوں سے ان کا سپہ گری ہے۔مرد تو مرد عورتیں، مائیں بہنیں سب اوّل آخر فوجی ہیں۔ شاید اسی لیے حفیظ جالندھری نے اس خطے کی عورتوں بلکہ ماؤں کے اثاث التفاخر کو کثرتِ اولاد یا زیارت بیت اللہ میں نہیں سمویا ، نہ ان کو بیٹے کے سہرے کے پھول کھلنے پریہاں کی ماں دھمال ڈالتی نظر آئی، غور کیجئے جہاد کا عنصر بھی یہاں حفیظ کے اس ملفوظے تلاش کرنا بے سود ہے کہ بھرتی فرنگی کی فوج میں ہے۔
میں تو چھورے کو بھرتی کرائی آئی رے
میں تو ہٹلر کو آگ لگائی آئی رے
میرے ممدوح مرحوم جنرل بھی کچھ اسی قماش کے تھے۔ و فات سے کچھ عرصہ قبل آپ نے فرمایا ’’موجودہ حالات میں(اور اپنی تاریخ میں تو موجودہ حالات ہمیشہ موجودہ ہی اور نازک بھی رہے ہیں) دستور کو منسوخ کر دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بعد میں نیا دستور بنایا جا سکتا ہے۔
‘‘ یہ فرمان اس اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا تھا جو ہمارے تعلقات کو لاتعلقی کی طرف لے جا رہا تھا۔ عرض کیا، جنرل صاحب ذرا باہر جا کر اجتماعی کھانے کے لیے لوگوں سے ایک ایک ہزار روپے جمع کریں پھر اس کھانے کا متفقہ مینو ہی بنا کر لا دکھائیں۔ عامۃ الناس کی بھلائی کے لیے کوئی صاحب خیرپوری گلی پکی کرانے پر آ جائے تو دو تین معززین گلی جا کر حکم امتناعی لے آتے ہیں کہ پختہ گلی میں ان کے لیے اُپلے تھاپنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایسے عالم میں آپ نئے دستور کی بات کرتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ ‘‘یہ ہمارا آخری رابطہ تھا کیوں کہ لاتعلقی کا مسافر اونٹ بیٹھ گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے ذرائع ابلاغ میں اچھے طالبان کی خوب جے جے کار ہو رہی تھی جن کا نعرہ تھا: ہم کسی دستور کو نہیں مانتے ، ہمارا دستورقرآن و سنت ہے۔
صورت حال یہ تھی کہ میں جس کسی فورم پر جاؤں، ملا ہوں یا مسٹر سب (بس اسلام پسند ہونا ضروری تھا) اسی ایک عطار کے لونڈے کے اسیر تھے جس کا فرمان تھا کہ کوئی دستور، کوئی آئین نہیں بس قرآن۔ مجھے یاد ہے کہ مفتیو ں کی ایک کلاس میں تو وہ مجھے دائرۂ اسلام کے مرکزے سے دھکیل دھکیل کر اور نصف قطر عبور کروا کر بس باہر لے آہی آئے تھے۔
ذرا یاد کر لیں ایسے عالم میں فساد فی الارض بپا کرنے والے اُن فسادیوں کو سیاسی کمک بہم پہنچانے والا کیا تبدیلی کانقیب وہی کھلاڑی ثم سیاست دان نہیں تھا؟ اچھے طالبان کی اصطلاح متعارف کرانے والے اس داروغۂ فساد فی الارض کے لیے حروف کاف و نون کہنے والا یہی جنرل حمید گل ہی تھا۔ بُرے طالبان کے مقابلے میں جب اچھے طالبان آئے تو اس سے قبل جنرل صاحب کو ایک مرغ دست آموزدرکار تھا جسے ذرائع ابلاغ نے بڑی محنت سے تراش خراش کے ذریعے سطحی ذہن اور سوچ والے لاکھوں ’’پڑھے لکھے‘‘ اور اثر و نفوذ کے حامل معصوم وبدطینت (جی ہاں دونوں، بس ذہنی سطح پست ہونا شرط ہے) افراد کے ذہن میں اس طرح جا گزین کر دیا گویا وہ ابن صفی کا علی عمران ولد کرم رحمن ہے جو اکیلے دکیلے اورخالی ہاتھ لاطینی امریکہ میں جا کر زیرولینڈ کو تہس نہس کر کے رکھ دے گا۔
یہ کام عمران نامی شاید ہر شخص کر گزرے بشرطیکہ راستے میں دستور نہ ہو۔ پس اولاً اس بحرانی کیفیت میں افغان طالبان کے مقابلے میں اچھے طالبان کی اصطلاح وضع کر کے اسے داروغہ فساد فی الارض کے ذریعے عام کیا گیا۔ ادھر اچھے طالبان نے پاکستانی دستور کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ اب یہی وہ موقع تھا جب جنرل حمید گل کا قول وحشت ناک سامنے آیا جو اچھے طالبان کی تائید میں تھا۔’’بعد میں ہم نیا دستور بنا لیں گے‘‘Once a soldier always a soldier۔
کوئی دن نہیں جاتا کہ مجھے اور شاید آپ کو بھی ایک دو وڈیو موصول نہ ہو ں کہ صاحب سیاست دانوں نے اس ملک کا ستیاناس مار دیا ہے اور یہ کہ اس ملک کی وحدت، یک جہتی، سا لمیت، اتحاد، ترقی، خوشحالی اور جانے کیا کیا یہ سب پاکستان آرمی کی بدولت ہے۔ یہاں تک تو شاید میں سکوت کے حصار سے باہر نہ نکلوں کہ خاموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے لیکن اس کے ساتھ جب اچھے طالبان جمع کھلاڑی ثم سیاست دان(؟) پھر ان کے بانی و موجد اپنے فاتح جلال آباد اور بالآخر ان کی طرف سے دستور کی مجوزہ تنسیخ سامنے آئی ہے تو کلیجہ منہ کو آگیا۔25 مارچ1969ء کو دستور کی تنسیخ اس مملکت خداداد پر وہ پہلا وار تھا جو جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان نے بذریعہ قلم کیا تھا۔ 25 مارچ 1969ء تا 16 دسمبر71 ملک میں کوئی دستور نہیں تھا۔ بس مسلح افواج ہی اس ملک کی وحدت، یک جہتی، سا لمیت، اتحاد، ترقی،خوشحالی ان سب کی ذمہ دار تھیں ۔
کسی سیاست دان بشمول بھٹو و مجیب الرحمن کو الزام دینا کسی با اصول، اگر کوئی ہو، شخص یا ادارے کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ یحییٰ خان کسی سیاست دان کے بلانے پر نہیں آیا تھا۔ مظاہرین کابس ایک ہی مطالبہ تھا کہ ایوب خان استعفیٰ دے ، اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرے تاکہ ملک کا انتظام دستور کے مطابق چلتا رہے۔ یہ دستور جیسا بھی تھا، ایوب خان کا اپنا بنایا ہوا تھا۔دستور کیا منسوخ ہوا گویا دبستان کھل گیا۔
سیاست دانوں سے اگر کوئی یہ توقع کرے کہ وہ سرکاری ملازمین کی طرح وقت اور ضابطے کی پابندی کریں تویہ نا سمجھی ہے۔ یہ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں۔ یہ اَن پڑھ بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن گوادر سے چترال تک یہ ایک برادری کی طرح کام کرتے ہیں۔ دن بھر اسمبلی میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں۔
شام کو کھانے کی میز پر راضی برضا دل صاف کر کے اگلے دن اپنے اپنے حلقے کے اوسطاً پانچ سو افرادفی ممبراسمبلی رابطہ کرنے نکل جاتے ہیں۔ اپنی اپنی بات اپنے اپنے پیرائے میں اختلاف رائے کے ساتھ لیکن دستور کے اندر رہ کر کرتے ہیں۔ گالیاں سنتے ہیں، پھر بھی مسکرا کر ملتے ہیں۔ کچھ لوٹ مار بھی کرتے ہوں گے جن کے لیے ان سب نے خود ہی مل کر قانون بھی بنائے ہوئے ہیں۔
اس طرح بیس کروڑ عوام کے یہ 272 یا 342 نمائندے جس طرح کام کرتے ہیں ،وہ الگ سے ایک علم ہے، ایک سائنس ہے، ایک دنیا ہے۔ اس دنیا میں دائیں گھوم اور بائیں گھوم کا عمل دخل نہیں ہوا کرتا اور نہ اسے سمجھنا تاب مستعار سے اپناوجود گرم کرنے والوں کے بس کا روگ ہے۔
نظم و ضبط کی یہ وہ قسم ہے جسے بالعموم بدنظمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی یہ بدنظمی ہی پوری قوم، پورے ملک اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک نظم و ضبط پیدا کرتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے نمائندے کے ساتھ نتھی رہتے ہیں۔ وہ پانچ سال بعد ایک دفعہ پھر ان کا سامنا کرتا ہے۔ کھرے سے کھوٹا الگ ہو جاتا ہے۔ اپنے پڑوس میں یہ ساری ’’بدنظمی‘‘ ستر سال سے جاری ہے۔ وہاں کا چیف جسٹس تمام سیاستدانوں کو پھانسی دینے تک کا کہہ دیتا ہے۔ لیکن یہ وہی سوچ ہے جو شاہ دولے کے سُبک سر معتقدین رکھتے ہیں۔
وہ جسٹس بھی قانون کی اندھی کتاب پڑھ پڑھ کر بے بصیرت ہو چکا تھا۔ وہاں ان تمام بداعمال سیاست دانوں کے باوجود ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کوئی چار کھرب ڈالر سے ذرا کم ہیں۔ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے معاملے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ گزشتہ سال یورپی ترقی یافتہ ممالک کے سیٹلائٹ سمیت ہندوستان نے ایک دن میں ایک سو چار سیٹلائٹ خلا میں چھوڑے ہیں۔
یہ ان کے لیے ایک کماؤ انڈسٹری بن چکی ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہونے کے قریب ہیں۔ عمرانی علوم میں ان کی یہ حالت ہے کہ امریکی سیاست میں وہ یہودیوں کو پیچھے چھوڑنے کے قریب ہیں۔ اور قارئین کرام یہ سب کچھ ان کی اس ’’سیاسی بدنظمی‘‘ اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ہے جسے نہیں سمجھ سکتے تو شاہ دولے کے چوہے!
دستور کو دستور کا نام دیں یا اسے کسی قوم کا میگناکارٹا کہہ لیں، یہ چند خاموش اور بے جان صفحات ہی کسی ملک یا قوم کے لیے حیات تازہ کی نوید ہوا کرتے ہیں۔ کیا 25 مارچ 69 تا 16 دسمبر 71 کے بے دستور ملک کی مثال دہرانا ضروری ہے؟ دستور کا وجود ، جی ہاں وجود، نغمۂ جبریل ہوا کرتا ہے، یہ زندگی کی علامت ہوتا ہے اور اس کا عدم وجود؟ کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ متحدہ پاکستان کے لیے صور اسرافیل 16دسمبر 1971ء کو جنرل اروڑا نے نہیں پھونکا تھا، یہ کام تو جنرل رانی کی معیت میں جنرل یحییٰ 25 مارچ 1969ء کو کر چکا تھا۔ جنرل اروڑانے تو بس ایک بے جان لاشے کا کریا کرم کیا تھا۔ قارئین کرام ! پچھلے چندجملے جس کرب سے میں مکمل کر سکا ہوں ،وہ مجھے ہی پتہ ہے ۔ پر اسے کیا کہیے کہ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ ملکی اداروں سے مل کر ہمارے اس وطن عزیز کے اندر جو کھیل کھیل رہی ہے،امید واثق ہے کہ ہم نہیں تو نئی نسل کے جھلملاتے ستارے اس ملک کی حفاظت کریں گے۔ کسی شخص کے بالغ ہونے میں تو ایک ڈیڑھ عشرہ درکار ہوا کرتا ہے لیکن قوم کے بالغ النظر ہونے میں سات عشرے بھی ناکافی ہوا کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔