ٹیکس ایمنسٹی سکیم پنجاب سے کمزور پذئرائی تشویشناک ہے: چیئرپرسن ایف بی آر
حامد ولید
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی آخری تاریخ میں توسیع کے بعد سے افسران بالا کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں کیونکہ پنجاب کے بڑے شہروں سے اس سکیم کا کاروباری برادری نے بہت کمزورریسپانس دیا ہے۔ اس سکیم کا آغاز اپریل2018 میں ہوا اور ایف بی آر نے ایک جامع آؤٹ ریچ پروگرام ترتیب دیا جس کے تحت ایف بی آر کے اعلیٰ افسران نے ملک بھر کے چیمبروں میں دورے کئے اور کاروباری برادری سے ملاقاتیں کرکے انہیں سکیم سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
تاہم سکیم کی آخری تاریخ تک جب خاطر خواہ ردعمل سامنے نہ آیا تو ایف بی آر نے اس میں 31جولائی تک اضافہ کردیا۔ تاہم حقیقت میں یہ اضافہ عملی طور پر 24جولائی تک ہی کارآمد ہوگی کیونکہ 25جولائی سے انتخابات کا عمل شروع ہو جائے گا اور 31جولائی تک کچھ خاص پیش رفت کی توقع نہ ہوگی۔ اس لئے چیئرپرسن ایف بی آر رخسانہ یاسمین خاص طورپ ریجنل آفس لاہور تشریف لائیں اور انہوں نے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹوں ا ور ٹیکس وکلاء سے ملاقات کی۔ اس موقع پر روزنامہ پنجاب سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے لئے تشویش کی بات ہے کہ صوبہ پنجاب میں کاروباری برادری کی جانب سے اس سکیم کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی ہے ، خاص طور پر آخری تاریخ میں توسیع کے بعد سے تو بالکل ہی کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔
چیئرپرسن ایف بی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دس بڑے شہروں میں سے سات شہر پنجاب میں واقع ہیں لیکن ان شہروں سے خاطر خواہ ریسپانس نہیں مل رہا ہے اور لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف کراچی، حیدرآباد اور لاہور سے اچھا ریسپانس آیا ہے جبکہ سیالکوٹ سے صرف 1300، ملتان سے 1500اور گوجرانوالہ سے 2000 ڈکلریشن موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے پروگرام بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے انڈسٹری کے مختلف شعبوں سے رابطے کئے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 30جون تک پورے پاکستان سے کل ملا کر 53000ڈکلیریشن ایف بی آر کو موصول ہوئے تھے لیکن اس کے بعد سے اب تک محض 2000مزید کاروباری افراد نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپلائی کیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ پنجاب کے بڑے شہروں بشمول فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور ملتان سے خاص ریسپانس نہیں آیا ہے ۔ وہ اس لئے ریجنل آفس میں چارٹرڈ اکاؤٹنٹوں اور ٹیکس وکلاء سے ملنے آئی ہیں کہ جان سکیں کہ اس سکیم کے حوالے سے بنائی گئی حکمت عملی میں کیا خرابی ہے کہ کاروباری برادری اپنی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لئے اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو اگرچہ لاہور شہر کی کاروباری برادری سے بہتر ریسپانس ملا ہے لیکن باقی شہروں سے نہ ملنے والے ریسپانس نے انہیں پریشان کردیا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے فیلڈ فارمیشن افسران کو بھی مختلف شہروں میں بھیجا ہے تاکہ اس حوالے سے وجوہات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
چیئرپرسن ایف بی آر نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے تو پیش رفت بالکل ہی زیرو ہو گئی ہے کیونکہ کسی بھی جانب سے کوئی نیا ڈیکلریشن فائل نہیں کیا گیا ہے جس کے تحت کاروباری برادری ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلیک منی کو وائٹ کرسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی کرنسی میں ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایک سرکلر بھی جاری ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس سکیم سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ چیئرپرسن ایف بی آر نے بتایا کہ 31جولائی کے بعد ایف بی آر سٹاک چیکنگ کا عمل شروع کردے گی اس لئے کاروباری برادری کے لئے بہتر ہے کہ آخری تاریخ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے ۔
انہوں نے بتایا کہ آخری تاریخ میں توسیع سے قبل ایف بی آر کو روزانہ کی بنیاد پر گیارہ بارہ ہزار ٹیلی فون کالیں موصول ہو رہی تھیں جن میں اس سکیم سے متعلق سوالات پوچھے جاتے تھے لیکن جب سے آخری تاریخ میں توسیع ہوئی ہے تب سے روزانہ پچاس ساٹھ سے زیادہ کالیں روزانہ کی بنیاد پر موصول نہیں ہوتی ہیں۔
چیئرپرسن ایف بی آر کا کہنا تھا کہ کاروباری برادری کو واضح رہنا چاہئے کہ 31جولائی کے بعد اس سکیم میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے اپنی تشویش کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پورے پنجاب سے کل ملا کر جتنے ڈکلریشن وصول ہوئے ہیں وہ اکیلے کراچی سے موصول ہونے والے ڈکلریشنوں کا پچاس فیصد ہیں۔ جب کہ ایف بی آر کی توقع تھی کہ پنجاب سے کہیں زیادہ کاروباری افراد اس سکیم کے لئے اپلائی کریں گے۔ اسی لئے ایف بی آر نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور زیادہ بہتر انداز سے کاروباری لوگوں سے رابطے بڑھانے کی سعی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چارٹرڈ اکاؤٹنٹوں اور وکلاء نے تجویز کیا ہے کہ ایف بی آر کو چینی کے بزنس سے تعلق رکھنے والے ڈیلروں اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں سے بھی رابطہ کرنا چاہئے اور انہیں بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی طرف راغب کرنا چاہئے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف بی آر کو سوتر منڈی کے تاجروں کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے اور انہیں بھی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے فوائد سے آگاہ کرکے ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں آنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ تاکہ وہ پچھلا حساب کتاب سیدھا کرلیں اور آئندہ سے پابندی کے ساتھ ریٹرن فائیل کریں۔
چیئرپرسن نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں پیسے کی بلا روک ٹوک آمدورفت پر قوانین کو سخت کرنا شروع کردیا ہے اور دنیا بھر سے متعلقہ تنظیمیں ایف بی آر کو معلومات بہم پہنچارہی ہیں جن کی بنیاد پر ایسے پاکستانیوں کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے جن کا سرمایہ بیرون ملک پڑا ہے اور اس پر یہاں کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ OECDجیسا ادارہ بھی پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے سرمائے سے متعلق معلومات دے رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ سے ان پاکستانیوں کی معلومات مل رہی ہیں جنھوں نے خطیر سرمایہ پاکستان میں ٹیکس اداکئے بغیر وہاں رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دبئی سے بھی ایسے پاکستانیوں کا ڈیٹا ملا ہے جن کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جونہی ایمنسٹی سکیم کے لئے دی گئی آخری تاریخ کا خاتمہ ہوگا ، ایسے افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی جنھوں نے ٹیکس ادا کئے بغیر سرمایہ بیرون ملک رکھا ہوا ہے کیونکہ دنیا کے کسی کونے میں بھی اب ان ڈکلیئرڈ پیسہ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ٹیکس گزاروں پر زور دیا کہ انہیں فوری طور پر اس سکیم سے فائدہ اٹھانا چاہئے وگرنہ بعد میں ایف بی آر ان کیخلاف بھرپور کاروائی کرے گا۔
چیئرپرسن ایف بی آر نے بتایا کہ دبئی میں مقیم پاکستانیوں کے جانب سے بھی خاطر خواہ ریسپانس ملا ہے اور اچھے خاصے پاکستانیوں نے اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے ڈکلریشن فائیل کئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف بی آر نے پروگرام بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے لئے بھرپور میڈیا میں اشتہاری مہم کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ ان کے مطابق خود سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ہزاروں ایسے پاکستانیوں کی فہرست ہے جن کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ سکیم کے تحت مقامی کرنسی میں اس لئے ٹیکس کی وصولی نہیں کی جارہی ہے کیونکہ ملک کو ڈالروں کی ضرورت ہے ۔چیئرپرس ایف بی آر نے ملک بھر کی 36ٹیکس باروں سے بھی رابطے بڑھادیئے ہیں تاکہ اس سکیم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ اٹھانے کے لئے راغب کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ چارٹرڈ اکاؤٹنٹوں کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں ان میں بینک اکاؤنٹ سے متعلق کفیوژن کا تذکرہ زوروں پر ہے کیونکہ ایف بی آر مقامی کرنسی میں ٹیکس کی وصولی نہیں کر رہا ہے ۔ اس ضمن میں ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ چونکہ نیشنل بینک آف پاکستان کی بیرون ملک شاخیں بھی ہیں جو بیرون ملک ڈالر میں ٹیکس کی وصولی کرکے پاکستان میں ٹرانسفر کرسکتی ہیں ۔ اس لئے یہ شرط کہ صرف پاکستان میں ہی ٹیکس کی ادائیگی قابل قبول ہوگی کو نرم کیا جائے ۔ اسی طرح صرف خون کا رشتہ رکھنے والے افراد ہی سے ٹیکس گزار کی ایما پر ٹیکس کی وصولی پر بھی کاروباری برادری کو مسائل کاسامنا ہے کیونکہ پیسے کی تفصیل تو کوئی شخص بھی دے سکتا ہے ، اس کے لئے قریبی عزیز کا ہونا ضروری نہیں ہونا چاہئے۔
چیئرپرسن ایف بی آر نے کہا کہ ان تمام تجاویز کا ایف بی آر کی سطح پر تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اورجو کچھ قابل عمل ہوا، ضرور نافذ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایف بی آر کی جانب سے ساڑے سولہ لاکھ لوگوں کو ٹیلی فون کے ذریعے پیغامات بھیجے گئے ہیں اور ہر طبقے سے افراد کو چن کر انہیں میسج فارورڈ کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر ٹی وی پر بھی اشتہاری مہم کا آغاز کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کے فروغ کے لئے اس سکیم نے بلاشبہ اہم کردار ادا کیا ہے تاہم ابھی بھی ایف بی آر کو جس مثبت ردعمل کی توقع تھی ، وہ نہیں مل سکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب ملک میں عمومی طور پر رائج ٹیکس نہ دینے کا کلچر ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ایف بی آر میں خاطر خواہ اصلاحات کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں ملک بھر سے چار ہزار ارب روپیہ ٹیکس جمع ہوتا ہے جو کبھی کروڑوں میں جمع ہوتا تھا۔ تاہم انہوں نے ٹیکس گزاروں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کے لئے ایف بی آر کی کوششوں کا بھرپور ساتھ دیں اور ملک کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس گزاروں سے رابطوں کی کوششیں رنگ لائیں گی اور زیادہ سے زیادہ کاروباری افراد اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے آگے بڑھیں گے اور ملک کو درکار ریونیو کی ضرورت کو پورا کریں گے تاکہ ملک میں صحت، تعلیم اور دیگر سوشل سیکٹر کے شعبوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری ہوسکے۔
سرخیاں
سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایف بی آر نے ساڑے سولہ لاکھ لوگوں کو ٹیلی فون پیغامات بھیجے
چینی کے ڈیلروں ،رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں اور سوتر منڈی کے تاجروں سے رابطے کی تجویز زیر غورہے
دبئی میں مقیم پاکستانیوں کے جانب سے بھی خاطر خواہ ریسپانس ملا ہے
تصاویر
چیئرپرسن ایف بی آر رخسانہ یاسمین
ایف بی آر کی تصویر
ٹیکس ادا کرنے کی لائنیں
ٹیکس ریٹرن فارم کی تصویر
تاجر، کاروباری برادری وغیرہ