عمران خان کتنے حلقوں سے جیت رہے ہیں؟ (حصہ دوم)
میانوالی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ہوم گراونڈ سمجھا جاتا ہے، وہ نسلاً نیازی ہیں اور اپنی جڑیں میانوالی میں پیوست سمجھتے ہیں تاہم یہ بات الگ ہے کہ وہ کبھی تعلیم ، کھیل یا روزگار کے کسی سلسلے میں وہاں قیام پذیر نہیں رہے مگر میانوالی کے ووٹر انہیں اپنا امیدوار سمجھتے ہیں۔ وہ 1997ء میں میانوالی سے بری طرح ہار گئے تھے مگر جنرل مشرف کی چھتری میں، 2002ء کے عام انتخابات میں، انہوں نے محض دو سو ووٹوں سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ خان صاحب کے حلقہ این اے 95میں پچانوے فیصد این اے71 ہی شامل ہے جہاں سے عمران خان صاحب نے 2013 ء میں اپنے معروف مخالف امیدوار عبید اللہ خان شادی خیل کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی اکثریت سے ہرایا تھا۔ خان صاحب نے کامیابی کے بعد مناسب سمجھا کہ اپنے لوگوں کی یعنی میانوالی کی سیٹ چھوڑ دی جائے اور راولپنڈی کی سیٹ شکست کے خوف سے رکھ لی جائے مگر پھر یوں ہوا کہ اپنے لوگوں نے اس بے وفائی کا بہت برا منایا، جب ضمنی انتخاب ہواتو پی ٹی آئی کے امیدوار ملک وحید خان، عبیداللہ شادی خیل سے کم و بیش انیس ہزار ووٹوں سے ہار گئے، ملک وحید خان نے76684 جبکہ عبید اللہ شادی خیل نے95210 ووٹ لے کر پانچ برس تک قومی اسمبلی کی رکنیت کا تاج سر پر پہنے رکھا۔
حالات بگڑے تو پھر اچھے نہیں ہوئے اور اس کی وجہ پی ٹی آئی کے اندر کی دھڑے بندی بھی تھی جو اب بھی موجود ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں خود پی ٹی آئی کے باغیوں کا بنایا ہوا ایک تیسرا دھڑا اہم ہو گیا جس نے نہ صرف ضلع کی حکمرانی نون لیگ تک پہنچا دی بلکہ پی ٹی آئی کسی ایک یونین کونسل کی چئیرمینی بھی نہ جیت سکی۔ تہتر ہزار ووٹ لے کر ہارنے والے ملک وحید خان کا تعلق نواب آف کالاباغ کے خاندان سے تھا ، یہاں کالاباغ خاندان اور عائلہ ملک نے بھی اپنی راہیں پی ٹی آئی سے جدا کر لیں۔ علاقائی خبروں اور سیاست پر اتھارٹی سمجھی جانے والی ویب سائیٹ ’ سجاگ‘ نے اکیس مئی کو میانوالی کی سیاست پر اپنی رپورٹ ان الفاظ پر ختم کی کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے لئے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ اگرچہ عمران خان صاحب کی امیدوار ی پر پوری پی ٹی آئی کا اتفاق ہے مگر اب تمام لوگوں کا پی ٹی آئی پر اتفاق نہیں ہے اور ان میں انعام اللہ نیازی بھی شامل ہیں جو خاندان کے دباو پر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور پھر واپس نون لیگ میں آ گئے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں چوبیس جون کو عمران خان صاحب نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو لوگوں کی مایوس کن شرکت نے بہت ساروں کو چونکا دیا، جہلم، سرگودھا، لاہور اورملتان وغیرہ کے مایوس کن جلسے تو بہت بعد کی بات ہیں۔ ایک رائے یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان گذشتہ عام انتخابات کی کامیابی کا سلسلہ برقرار رکھ سکتے ہیں اگر اس دوران میں علاقے کی سیاست میں مدوجزر اور پی ٹی آئی میں دھڑے بندیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔
عمران خان این اے 243 کراچی سے بھی امیدوار ہیں جسے پرانے حلقوں 252 اور 253 پر مشتمل سمجھا جاسکتا ہے ۔میں پیپلزپارٹی کی شہلا رضا کو ٹوئیٹر پر فالو کرنے کی وجہ سے بہت مضبوط امیدوار سمجھتا رہا جو عمران خان صاحب کے مقابلے میں ’کراچی کی بیٹی‘ کے نام سے دھڑا دھڑ ٹوئیٹ کررہی ہیں مگر این اے 253 کے 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج اتنے دلچسپ ہیں کہ مجھے اپنے خیال پر توبہ کرنی پڑی۔ وہاں ایم کیو ایم کے مزمل قریشی نے 101311 یعنی ایک لاکھ سے زائد، پی ٹی آئی کے محمد اشرف جبار نے 58989، جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو نے 12071 اور پیپلزپارٹی کے محمد مراد بلوچ نے صرف9351 ووٹ لئے جنہیں پڑھ کے میں نے ٹوئیٹر اور فیس بک پر ایمان نہ لانے کے ایمان کو ایک مرتبہ پھر تازہ کیا۔ کراچی کی سیاست میں جو بم پھٹا ہے جو ایم کیو ایم کی ایسی تیسی ہونا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد وہاں چانس پی ٹی آئی کا ہی ہے کہ مزمل قریشی ڈولفن کے انتخابی نشان پر پی ایس پی کے امیدوار بن چکے۔
ایم کیو ایم تباہ ہو جاتی اگر فاروق ستار واپس نہ آتے لہذا اب خان صاحب کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے متفقہ امیدوار سید علی رضا عابدی ہیں ۔ ایم کیو ایم کو یہاں دو نقصان ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ایک لاکھ سے زائد ووٹ لینے والے مزمل قریشی پی ایس پی کے امیدوار بن چکے مگر اس کا جواب یہ ہے کہ ایم کیو ایم میں امیدوار کا نہیں بلکہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد پارٹی کا ووٹ ہوتا ہے مگر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگرایم کیو ایم کایہی پکا ووٹر الطاف حسین کی کال پر انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے باہر نہ نکلا تو پھر کیا ہو گا، مختلف سرویز کے مطابق الطاف حسین کی فالوئنگ کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ سید علی رضاعابدی نے این اے 251 میں پی ٹی آئی کو دوگنے سے بھی کچھ زیادہ ووٹوں سے شکست دی تھی تاہم این 252 کے ایم کیو ایم کے جیتے ہوئے امیدوار عبدالرشید گوڈیل پی ٹی آئی کو پیارے ہو چکے ہیں مگر سوال میانوالی والا ہی ہے کہ کیا امیدوار اپنے ساتھ نظریاتی ووٹروں کو بھی لوٹا بنا پایا ہے۔
پی ٹی آئی کراچی کے انہی علاقوں میں ایم کیو ایم کے بعد سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے اور کراچی سے الیکشن لڑنے کے لئے عمران خا ن صاحب کے لئے یہی حلقہ مناسب ترین ہے مگر یہ بھی دوسرے چاروں حلقوں کی طرح بلینک ہے، یہاں بھی ان کے پاس کامیابی کا کوئی ریکارڈ نہیں، ساری امیدیں ایم کیو ایم کے تباہ ہونے سے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا انتخابی معرکہ عمران خان لاہور کے این اے 131 میں سابق وفاقی وزیر ریلویز اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق سے لڑ رہے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسلام آباد کی طرح لاہور میں بھی حلقے میں ووٹروں اور علاقوں کی سٹڈی نہیں کی گئی ۔ عمران خان ڈیفنس کے اس چند سو ممی ڈیڈی ووٹر پر تکیہ کر رہے ہیں جس نے لالک جان چوک پر رونق لگائے رکھی مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ حلقے کے تین لاکھ باسٹھ ہزار ووٹوں میں سے ڈیفنس کا ووٹ باون ہزار تین سو کے لگ بھگ ہے جو چودہ سے پندرہ فیصد کے درمیان بنتا ہے۔ اگر ہم اس حلقے کے کینٹ (سات ہزار) اور کیولری ( تین ہزار) سمیت پورے پوش ایریا کا ووٹ نکالیں تو مجموعی ووٹ کا بیس فیصد سے کم ہے جہاں عمران خان عمومی طورپر ہر دو کے مقابلے میں تین ووٹوں کے ساتھ آگے سمجھے جاتے ہیں جبکہ اسی فیصد ووٹ آبادیوں اور دیہات کا ہے جہاں مسلم لیگ نون کی حمایت دو گنی کے قریب ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خواب اس وقت بھی ٹوٹے جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 2013ء کے انتخابات میں این اے 125 میں دھاندلی نہیں ہوئی جو موجودہ حلقے کا ایک بڑا حصہ ہے یعنی خواجہ سعد رفیق کی پینتیس ہزار کی اکثریت کو تسلیم کر لیا گیا۔
یہ غلط حکمت عملی ہے کہ خان صاحب نے حلقے سے تعلق نہ ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی کا امیدوار بھی مقامی امیدوارنہیں لیا ۔خواجہ سعد رفیق اس وقت لاہور میں حمزہ شہباز شریف کے بعدمسلم لیگ ن کے دوسرے مضبوط ترین امیدوار قرار پا رہے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر عمران خان اس حلقے کا چناو کرتے جس سے شفقت محمود جیتے تھے تو اس وقت بھی اچھرہ اور رحمانپورہ جیسی آبادیاں شامل ہونے کے باوجود ، این اے 131 کی نسبت ،موجودہ این اے 130 ان کے لئے زیادہ محفوظ حلقہ ہوتا جو فیصل ٹاون ، گارڈن ٹاون، مسلم ٹاون اور اقبال ٹاون جیسے امیروں کے علاقوں کی اکثریت لئے ہوئے ہے، این اے 129 بھی اس سے قدرے بہتر رہتا۔این اے 131 میں جناب عمران خان کے ایک جلسے سے زیادہ حاضری خواجہ سعد رفیق کی کارنر میٹنگوں میں نظر آ رہی ہے جس کا بھرپوراظہار وہ اپنی ویڈیوز کے ذریعے سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں، یہاں مجموعی فرق چوبیس اور باون فیصد کارہا ہے۔
عمران خان صاحب کو لاہور میں طویل عرصے سے اپنے جلسوں اور ریلیوں کی ناکامی کا سامنا ہے اور موجودہ انتخابی مہم میں ان کے جلسوں کی ویڈیوز ان کے لئے خطرناک انتخابی نتائج کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ تمام تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ نواز شریف کا’ ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ مقبول ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف کنگز پارٹی کے امیدوار کو نواز شریف کے بیٹی سمیت جیل جانے کے بہادرانہ فیصلے اور اپنی سابقہ اہلیہ کی تحریر کردہ کتاب کی وجہ سے بھی شدید سیاسی نقصان کا سامنا ہے ، ان کے ووٹ بنک پر بلاول بھٹو زرداری کی حیران اور متاثر کردینے والی ملک گیر مہم کے اثرات بھی نظر آ سکتے ہیں۔ ( واللہ اعلم باالصواب)