میاں صاحب کمزور لوگ نیلسن منڈیلا نہیں بن سکتے
نیلسن منڈیلا جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کے کٹر مخالف اور افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی ٹکڑی کے سربراہ بھی رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف انھوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے ان کو مختلف جرائم جیسے توڑ پھوڑ، سول نافرمانی، نقض امن اور دوسرے جرائم کی پاداش میں قید با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔ 11 فروری 1990ء کو جب وہ رہا ہوئے تو انھوں نے پر تشدد تحریک کو خیر باد کہہ کہ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔
نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کی تمام دنیا میں پذیرائی ہوئی جس میں ان کے مخالفین بھی شامل تھے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو ‘‘ماڈیبا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو منڈیلا خاندان کے لیے اعزازی خطاب ہے۔
دوسری طرف میاں نواز شریف ہیں جو کہ تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے اور تینوں بار ہی مدت مکمّل کرنے سے قبل اقتدار سے محروم کر دئیے گئے۔12 اکتوبر 1999 کو مشرف کو برطرف کرتے ہوئے خو د ہائی جیکنگ کے الزام میں سزا پا کر لانڈھی جیل چلے گئے اور جلد ہی جیل کی مشکلات سے تنگ آ کر مشرف سے معاہدہ کر کے اہلِ خانہ سمیت پہلے جدہ پھر لندن چلے گئے۔
پاناما کیس میں نیب عدالت سے سزا پانے کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کئیے چند ہی دن ہوئے ہیں ۔ نوازشریف کا بیانیہ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ کبھی واش روم کی صفائی کا مسئلہ کبھی گدا پتلا ہے۔ کبھی AC کی ڈیمانڈ اور اب طبی بنیادوں پر ہسپتال منتقل ہونے کے بہانے جاری ہیں۔میاں نوازشریف اگر مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے تو ان تمام مشکلات کا جیل میں مقابلہ کرتے اور ووٹ کو عزت دو کہ بیانیہ پر ڈٹے رہتے۔مگر انکا سارا زور " مجھے سہولت دو " کے بیانیہ پر مشتمل ہے۔سہولیات تو وہ یقیناً حاصل کر لینگے بالآخر سابق وزیراعظم ہیں۔مگر میاں صاحب یہ یاد رہے کہ نیلسن منڈیلا ستائیس سال پابندِ سلاسل رہا مگر کبھی ایک لمحے کے رعایت نہیں مانگی۔
آپ نے پرچیوں پر تقریر کرکے بڑے بڑے دعوے کئیے تھے شاید آپکو یہ گمان تھا کہ شہبازشریف کی قیادت میں لاکھوں افراد ائرپورٹ یہنچ جائیں گے اور آپ کو گرفتار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کو وہ لندن سے لاھور پہنچ گئے مگر چھوٹے میاں صاحب کی ریلی انارکلی سے لاہور نہ پہنچ سکی۔ویسے بھی شہبازشریف صاحب خلائی مخلوق کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہتے۔ اس لئیے وہ خاصا محتاط طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔کیونکہ انہیں پتہ ہے سانپ سیڑھی کے کھیل میں وہ بہت نیچے چلے جائیں گے۔کمزور لیڈر شپ کے ساتھ نہ ہی انقلاب آتے ہیں نہ ہی تبدیلیاں نیلسن منڈیلا بننا ہو تو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
اپنی اولاد یعنی بیٹے لندن میں رکھ کر قوم کے جوانوں سے توقع کرنا کہ وہ آپکی جنگ لڑیں گے خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔عدالتوں نے نااہل کیا تھا قوم آپ کو آپکے بیانیے سمیت مسترد کر دے گی۔کمزور لوگوں کو حوالات سے محلات جانے کی جلدی ہوتی ہے جسکی وہ ہر قیمت ادا کرنے کے لئیے تیار ہوتے ہیں۔نیلسن منڈیلا کی شناخت جرآت و بہادری ہے میاں صاحب اپنی شناخت بزدل اور کمزور شخص کی دکھا رہے ہیں۔ووٹ کی عزت کے نام پر AC مانگنے والے فتح کے خواب ضرور دیکھ سکتے ھیں۔مگر تعبیریں حاصل کرنے والے نیلسن منڈیلا بنتے ہیں جبکہ سزاپانے والے نیسکول شریف۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔