خانہ بدوش رائٹرز کلب،بے ٹھکانہ لوگوں کا ٹھکانہ
حیدرآباد میں طویل عرصہ قبل تک دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور سرگرم سیاسی کارکنوں کے بیٹھنے اور تبادلہ خیالات کے لئے کئی مقامات ہوا کرتے تھے۔ لائبریریاں ختم ہوئیں، ان کی جگہ چائے خانوں نیلے لی۔ شہر کے مختلف مقامات پر کئی چائے خانے ہوا کرتے تھے۔ سلطان ہوٹل گاڑی کھاتہ میں موجود تھا اور شہر کے تمام علاقوں سے لوگ یہاں آتے تھے، جہاں رات کے وقت دانشور، شاعر، ادیب وغیرہ چائے کی ایک پیالی پر دنیا جہاں کی سیاسی اور غیر سیاسی خبروں پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ سلطان ہوٹل اوسط آمدنی والے لوگوں کا ٹھکانہ تھا۔ ہوش محمد شیدی روڈ پر،جو پہلے رسالہ روڈ کہلاتا تھا،کراچی ہوٹل واقع تھا، یہاں مالی طور پر متوسط پوزیشن والے لوگ اور نامور لوگ بیٹھا کرتے تھے۔
یہاں بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جاتا تھا۔ کراچی ہوٹل اب مکمل بند ہو گیا ہے۔ اس سے ذرا فاصلے پر حیات ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ یہاں زیادہ تر ریڈیو فنکاروں اور اداکاروں کی بیٹھک ہوتی تھی۔ اپنے وقت کے نامور اداکار محمد علی، جن کا تعلق حیدرآباد سے تھا، اپنے ابتدائی دور میں یہیں بیٹھا کرتے تھے۔ گاڑی کھاتہ میں ہی ہوٹل اورینٹ قائم ہوا تو یہ بھی ایک ٹھکانہ بنا۔ شہر میں بڑی تعداد میں ایرانی مالکان کے کیفے بھی ہوا کرتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ سمٹ گیا۔ کراچی کی طرح لاہور میں بھی ”خانہ بدوشوں“ کے بیٹھنے اور اپنا غم ہلکا کرنے کے کئی ٹھکانے تھے۔
طویل عرصے بعد سندھ یونی ورسٹی کی اساتذہ امر سندھو اور عرفانہ ملاح اور دیگر کو شہر میں خانہ بدوش نام سے ایک بیٹھک قائم کرنے کی سوجھی۔ انہوں نے سندھ میوزیم میں موجود ایک جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کی اور کامیاب رہیں۔ محکمہ ثقافت نے انہیں یہ جگہ باقاعدہ ماہانہ کرایہ پر دی۔ ہونا تو یہ چا ہئے تھا کہ محکمہ یہ جگہ اس کے مقصد کے تحت معمولی کرایہ پر فراہم کرتا۔ سابق مقامات کی بجائے یہ غیر تجارتی منصوبہ تھا جسے صرف اس مقصد کے تحت قائم کیا گیا تھا کہ یہاں لوگ ملاقاتیں کر سکیں، بیٹھ سکیں اور تبادلہ خیالات کر سکیں۔ اس جگہ پر مختلف مواقع پر ایسے لوگ کبھی کبھی جمع ہوا کرتے تھے جو ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔
یہاں ادب کی تما م صنعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ملتے، تبادلہ خیالات کرتے اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر اپنے گھروں کو روانہ ہو جایا کرتے تھے۔ ویسے بھی اب تو ٹی وی، موبائل فون، انٹر نیٹ، سوشل میڈیا نے لوگوں کو گھروں تک ہی محدود کر دیا ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کی بجائے موبائل فون میں مصروف ہوتے ہیں، اسی طرح دوران سفر وہ اپنے پڑوسی سے بھی لاتعلق ہو کر موبائل میں مگن ہوتے ہیں، لیکن خانہ بدوش نے حیدرآباد میں لوگوں کے جمع ہونے کی بہتر جگہ کی کمی کو پورا کیا۔ جو کام مختلف شہروں میں کاروباری حضرات اپنے کاروبار کی خاطر کیا کرتے ہیں، وہ حکومت کے کرنے کے کام ہوا کرتے ہیں۔ خانہ بدوش نے کئی ایسے کام کئے جو در اصل محکمہ ثقافت کی ذمہ داری کا حصہ تھے۔ معروف ملکی اور غیر ملکی ادیبوں سے ملاقاتیں، ملک کے نامور شاعروں سے ملاقاتوں کا اہتمام خانہ بدوش کا خاصہ ہے۔
خانہ بدوش کو محکمہ ثقافت نے حال ہی میں جگہ خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے خانہ بدوش انتظامیہ کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا اور بالآ خر جگہ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا گیا۔ محکمہ ثقافت یہ جگہ نیلام کے ذریعے کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ محکمے کی سرکاری جگہ ہے اور اس کے مصرف کا اختیار محکمے کے پاس ہی ہے، لیکن محکمے کو یہ سوچنا چاہئے کہ خا نہ بدوش وہ کام کر رہا ہے جو حکومتوں کی ذمہ داری ہوا کرتا ہے۔ لوگوں کو سانس لینے کی جگہ فراہم کرنا، لوگوں کو تفریح کی بلا معاوضہ فراہمی حکومت نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔اگر وہ کام تعلیم یافتہ خواتین نے کردیا تو بہتر ہی کیا۔
لوگوں کے درمیان میل ملاقات ذہنی دباؤ سے نکلنے کا بہترین نسخہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ روحانی علاج بھی ہوتا ہے۔ ادیب ہوں، شاعر ہوں، دانشور ہوں، صحافی ہوں یا سیاسی کارکن ہوں، انہیں ایسے مقامات کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں، نئے خیالات پر بحث کر سکیں، اپنے مضامین کے لئے موضوع تلاش کرسکیں اور شاعری کے لئے نئے الفاظ ڈھونڈ سکیں۔ خانہ بدوش کا خاتمہ لوگوں کی اس ضرورت کو ختم تو نہیں کر سکے گا، لیکن آزادی کے ساتھ تبادلہ خیالات کی جگہ فی الحال ضرور ختم ہو جائے گی جو کسی طرح بھی محکمہ ثقافت کی خدمات میں شمار نہیں ہوگا۔ صوبائی وزیر ثقافت سید سردار شاہ تعلیم یافتہ ہیں، اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں، دانشوروں کے ایک حلقے میں تعلقات بھی رکھتے ہیں، انہیں تو اپنے ”کارناموں“ کی وجہ سے خانہ بدوش کی بندش قبول نہیں کرنی چاہئے۔ خانہ بدوش معنوی لحاظ سے بے ٹھکانہ لوگوں کو کہا جاتا ہے، یہ ادیب، شاعر، دانشور، سیاسی کارکن در حقیقت ہوتے ہی بے ٹھکانہ لوگ ہیں۔ اگر ان خانہ بدوشوں کو خانہ بدوش کی صورت میں کوئی ٹھکانہ ملا ہے تو صوبائی محکمہ ثقافت کو اس کی کھلے دل کے ساتھ سرپرستی کرنی چاہئے۔