قانون کی حکمرانی،سی سی پی اوکی ٹیم نے رت ہی بدل ڈالی
پولیس کا بنیادی مقصد عوام کو امن و امان کی ایسی فضا فراہم کرنا ہے جس میں وہ کسی بھی خوف اور مشکل کے بغیر اپنے روزمرہ کے فرائض انجام دے سکیں۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں پولیس کے بارے میں روایتی تصور ابھی تک تبدیل نہیں ہوسکا۔ حالانکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پنجاب پولیس ایشیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں جدید ٹیکنالوجی کو کئی شعبوں میں اپنایا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کسی جگہ پر اتنے کم وسائل کے باوجود انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاسکا۔ شروع شروع میں اسے وقت یا وسائل کا ضیاع قرار دیا گیا لیکن اب اس دانشمندانہ اقدام کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹیکنالوجی بیسڈ پولیسنگ کو دنیا بھر میں مسلسل پذیرائی مل رہی ہے۔ سی سی پی او لاہور بی اے ناصر کا شمار ایسے پولیس افسروں میں ہوتا ہے جنہیں بجا طور پر ’روایت شکن‘ کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں پولیسنگ کا تجربہ رکھنے والے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل بی اے ناصر شاید پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلے پولیس آفیسر ہیں جن کی تعیناتی کے دوران لاہور میں شرح جرائم میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ صوبائی دارالخلافہ میں شرح جرائم میں مسلسل کمی انتہائی مثبت اورخوش آئندہے۔ یہ سب کچھ نیک نیتی،ایمانداری،دلجمعی،ٹیم ورک اور پیشہ ورانہ عزم کا نتیجہ ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لاہور میں کرائم ریٹ میں کمی لا نا کوئی آسان بات نہیں۔ ورلڈ کرائم انڈیکس تیار کرنے والے ادارے ’نمبیو‘ کے 2018 میں انڈیکس میں لاہور کرائم کے حوالے سے 138 نمبرسے (کرنٹ لسٹ میں) لاہور 214 ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ اس طرح چھ ماہ کے دوران کرائم انڈیکس میں لاہور پولیس نے مزید 40 درجے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 76درجے کی بہتری حاصل کر کے لا ہور پولیس نے پہلا نمبر حاصل کر لیا ہے ، وسائل میں کمی کے باوجود ایک سال میں کئی گنا بہتری اور کامیابی کے روح رواں پیشہ وارانہ مہارت کے حامل آفیسرلاہور پولیس کے سر براہ بی اے ناصرکاکہنا ہے کہ انھوں نے ایف آئی آرز کے اندراج میں رکاوٹیں دور کی ہیں اور اب پہلے سے زیادہ رفتار میں مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر کرائم ریٹ میں کمی آنے کا اعتراف لاہور پولیس کی مجموعی کارکردگی،دن رات محنت اور محب الوطنی کا واضح ثبوت ہے۔مجھے اپنے دونوں دلیر،نڈر،دیانت دار اورمخلص صفات کے مالک ڈی آئی جی صاحبان اشفاق احمد خان اورڈاکٹر انعام وحید سمیت تمام ڈویژنل ایس پی پر فخر حاصل ہے کہ میری یا ادارے کی طرف سے ملنے والی زمہ داریوں کو وہ پوری ایمانداری کے ساتھ بجا آور لاتے ہیں ان کی محنت کی وجہ سے اللہ رب کریم نے ہمیں ہر ٹارگٹ میں آسانیاں اور کامیابیاں عطا فر مائی ہیں اور الحمد للہ آج شہر میں کوئی سنگل کیس بھی ایسا نہیں ہے جس میں معزز عدالتوں نے ہمیں بلوا رکھا ہو،شہر میں ہاؤس رابری میں ملوث ڈاکوؤں کا کوئی ایساگینگ،امن و امان کو تباہ کر نے والا گروہ یا قبضہ مافیا مو جود نہیں ہے جو ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہو۔بے روز گاری کی وجہ سے شہر میں چھوٹی موٹی وارداتیں،اکا دکا ڈاکوؤں کے ساتھی،بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ٹر یفک کے مسائل اور عدم برداشت کی وجہ سے قتل جیسے واقعات دنیاکا کو ئی ایسا ملک نہیں جہاں پیش نہ آتے ہوں۔پہلی دفعہ لاہور میں انسپکٹر زرینک کے ایس ایچ او تعینات کرنے کا تجربہ دورس نتائج کا حامل اور بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔ شفٹ سسٹم کے اجرا اور ہفتہ وار چھٹی سے تھانہ کلچراور پولیس کے مورال میں کافی بہتری آئی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسائل پوری طرح حل ہوگئے ہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اب بھی تھانہ کلچر سے متعلق شکایات دور نہیں کی جا سکیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ لاہور میں پنجاب پولیس کی استعداد کار بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے سی سی پی او لاہور سمیت تمام آر پی اوز، سی پی اوز اور ڈی پی اوز کو ایک مراسلے کے ذریعے ہدایت کی کہ وہ اپنے دفاتر کے دروازے شہریوں بالخصوص سائلین کیلئے کھلے رکھیں تاکہ ملاقات کیلئے آنے والے کسی بھی شہری کو انتظار کی زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور انکے مسائل کا ازالہ ترجیحی بنیادوں پر ممکن ہوسکے۔آئی جی پنجاب نے افسروں کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں عوامی شکایات سننے اور شہریوں سے ملاقات کے لئے مناسب اوقات مقرر کریں اور ان اوقات کار کی بھرپورتشہیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کی پولیس افسران تک براہ راست رسائی کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ مراسلے میں مزید ہدایت کی گئی ہے کہ پولیس افسران واہلکار اپنے دفتری امورسمیت تمام میٹنگز کو عوامی مسائل سننے کے لئے طے کے گئے اوقات کا ر سے پہلے یا بعد میں نمٹائیں اور بغیر کسی معقول وجہ کسی بھی شہری کو انتظار کروانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ سربراہ پنجاب پولیس کی ہدایت ظاہر کرتی ہے کہ وہ کئی مقامات پر پولیس اور عوام کے رابطوں کی سطح سے مطمئن نہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی افسر کی دفتر میں موجودگی کے دوران شہریوں کا ملاقات کیلئے انتظار میں بیٹھے رہنا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ شہریوں کی جان، مال اور عزت کا تحفظ پولیس کی اولین ذمہ داری ہے چنانچہ تمام افسران اوپن ڈور پالیسی کے تحت اپنے دروازے شہریوں کیلئے کھلے رکھیں اور انہیں درپیش مسائل کے حل کیلئے صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنائیں۔ آپریشنز کے ساتھ انویسٹی گیشن کا عمل بھی بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ محض ایف آئی آر درج ہونا کافی نہیں بلکہ مقدمے کی تفتیش تیزی سے مکمل کر کے کیس منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ لاہور میں بھی یہ شعبہ مضبوط بنانا ہوگا۔ باٹا پور میں بچے کا بد اخلاقی کے بعد قتل ہونا ایک المناک واقعہ ہے تاہم مشکوک افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ بھجوانے کے باوجود تادم تحریر ملزم نہیں پکڑا جا سکا۔ اسی طرح شفیق آباد میں نامعلوم افراد کے ہا تھوں وکیل،ہنجروال گھر کے باہر سوئے شخص اور نیو انار کلی میں سکیورٹی گارڈ کے قتل، ہربنس پورہ سے نوجوان کی لاش،ڈولفن ہیڈ کوارٹرکے قریب میڈیکل سٹوراکبری گیٹ حوالات میں ملزم کی خودکشی،رائیونڈ،چوہنگ،اورفیصل ٹاؤن میں وردات کے دوران شہریوں کا زخمی ہو نا سمیت دیگر کئی ایک واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں یقینا پولیس ان سب واقعات میں کام کر رہی ہے اور ملزمان کے بھی قر یب ہو گی تاہم ا مید کی جانی چاہیئے کہ لاہور پولیس میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔ روایتی اقدامات کی جگہ یہاں بین الاقوامی سطح پر مستعمل طریقے رائج کئے جائیں تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بڑھ سکے۔ آئی جی پولیس پنجاب اور سی سی پی او لا ہور کی مشترکہ کا وش سے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مینار پاکستان پر خدمت مراکز کا افتتاح کرتے ہوئے پولیس کے منجمد الائنس بحال کرنے کا جو اعلان کیاہے لاہور پولیس کو وسائل کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ لاہور پولیس کی طرف سے جو پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ پنجاب حکومت کو بھجوایا گیا ہے وہ منظور کیا جانا چاہیئے۔ اگر پولیس کو مطلوبہ وسائل فراہم نہ کئے گئے تو اندیشہ ہے کہ بہتری کا عمل متاثر ہوگا۔ لاہور پولیس کی گاڑیوں کی حالت مسلسل ناگفتہ بہ ہو رہی ہے۔ نئی گاڑیاں اور اسلحہ فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ لاہور پولیس کا اپنا ہیڈکوارٹر بھی بننا چاہیئے۔ نفری کی کمی کو دور کیا جانا چاہیئے۔ گڑ جتنا ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔ باغبانپورہ سر کل سے ماتحتوں نے خبردی ہے کہ ڈی ایس پی با غبانپورہ ابراہیم وڑائیچ نے اپنا ایک کار خاص رکھا ہوا ہے جس کے زریعے وہ اپنے انچارج انوسٹی گیشن صاحبان سے ماہانہ پچاس ہزار جبکہ ہر تھانیدار سے مثل پر سائن کر نے کے پا نچ پانچ ہزارروپے بٹور رہا ہے نہ دینے والوں کیخلاف افسران بالا کومس گا ئیڈ کیا جاتا ہے اسی طرح انچارج انوسٹی گیشن سب انسپکٹر نشتر کا لونی خضر واہلہ نے بھی تھانے میں رشوت کا بازار سر گرم کیا ہوا ہے او راس کا سابقہ ریکارڈ بھی انتہائی خراب ہے۔ایک روز قبل شہر میں تعینات ہونیوالے ایس ایچ او سبزہ زار انسپکٹرشاہ زیب بھی اچھی شہرت کا حامل افسر نہیں ہے۔ دس سال قبل مبینہ کرپشن کی وجہ سے یہ اسی تھانے میں اپنی ایس ایچ او شپ چھوڑ کر سفارش کے بل بوتے پر ضلع بہاول نگر بھاگ گیا تھا زرائع بتاتے ہیں کہ اس نے پولیس میں آکر مبینہ طور پر اپنے بہت سارے اثاثہ جا ت بنائے ہیں اور ایک عرصے کے بعد دوبارہ لا ہور میں آمد کی ہے۔ یہ تینوں پولیس افسران لا ہور پو لیس کے لیے بڑی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں ارباب اختیار کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔