متحدہ عرب امارات کا ایک قابلِ تعریف خلائی مشن
تین چار روز پہلے فارن میڈیا کو کھنگالنے کے دوران ایک حیران کن لیکن دل خوش کُن خبر دیکھنے اور پڑھنے کو ملی۔ خبر یہ تھی کہ: ”متحدہ عرب امارات نے اپنا پہلا سیارہ مریخ کی جانب روانہ کر دیا ہے“…… یہ خبر دل خوش کن اس لئے تھی کہ ایک عرب ملک نے خلاؤں کی طرف بھی دیکھنا شروع کیا ہے اور حیران کن اس لئے کہ اس کی لانچنگ جاپان کے ایک خلائی اسٹیشن سے کی گئی تھی۔ اس مشن کا نام ”اَمل“رکھا گیا ہے جس کا معنی اردو میں امید اور انگریزی میں Hope ہے۔ اس لفظ ”اَمَل“ کو پڑھ کر کالج میں لیکچراری کے دور کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ چاہتا ہوں قارئین سے شیئر کروں۔
تھرڈائر کے اردو کے نصاب میں اقبال کی جو نظمیں شامل تھیں ان میں ایک ”شمع اور شاعر“ بھی تھی۔ یہ نظم 1912ء میں لکھی گئی اور بانگِ درا میں اسی عنوان (شمع اور شاعر) کے نیچے بریکٹ میں (فروری 1912ء)بھی لکھا ہوا ہے۔ یوں تو اقبال کی بہت سی اردو اور فارسی کی نظموں کو شاہکار نظمیں کہا جاتا ہے لیکن ان کی یہ نظم ان کی دوسری شاہکار نظم تھی۔ (پہلی نظم ’شکوہ‘ تھی جو اقبال نے یورپ کے سفر سے واپسی کے فوراً بعد 1909ء میں لکھی تھی)۔ ان کا خیال ’جواب شکوہ‘ لکھنے کا نہیں تھا لیکن جب ’شکوہ‘ کی اشاعت کے بعد بعض برخود غلط ’نقادانِ فن‘ نے اس کی تکذیب شروع کر دی تو اقبال کو ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی۔ چنانچہ یہ نظم چار سال بعد 1913ء میں لکھی گئی۔ شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کے درمیان 1912ء میں اقبال نے ’شمع و شاعر‘ نظم فرمائی اور سچی بات یہ ہے کہ فن اور موضوع کے اعتبار سے اسے دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کے ادبِ عالیہ کے برابر رکھا جا سکتا ہے۔
’شمع اور شاعر‘ کا آغاز اقبال کے ایک سوال سے شروع ہوتا ہے۔ شمع ان کی مخاطب ہے اور اقبال اس سے پانچ شعروں پر مشتمل یہ سوال اس طرح شروع کرتے ہیں: ”کل میں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں رکھی شمع (موم بتی) سے یہ سوال کیا: ”اے وہ کہ پروانے کے پَر تیرے گیسوؤں کو کنگھی کرتے ہیں، یہ بتا کہ میں ایک طویل مدت سے لالہ ء صحرا کی طرح جل رہا ہوں لیکن نہ تو مجھے کوئی ڈھنگ کی محفل نصیب ہوئی اور نہ کوئی کاشانہ (کہ جن میں بالعموم شمعیں جلائی جاتی ہیں)…… میں ایک طویل مدت سے تمہاری طرح اپنے آپ کو جلا رہا ہوں لیکن کسی پروانے نے بھی آج تک نہ میرا طواف کیا اور نہ کوئی پَر جلایا…… اگرچہ میری امیدوں اور آرزوؤں سے لبریز اس جان میں سینکڑوں ہزاروں جلوے تڑپ رہے ہیں لیکن میری اس محفل سے کوئی ایک دیوانہ بھی نہیں اٹھا (کہ جو میری خواہشات اور امیدوں کا جواب ہوتا)…… اس لئے اے شمع! سچ سچ بتا کہ تو نے یہ آگ کہاں سے حاصل کی جس سے ایک وسیع دنیا روشن ہو جاتی ہے؟ اور پروانے جیسے بے مایہ کیڑے کو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا سوز عطا کر دیتی ہے؟ و ہی سوز جو موسیٰ نے کوہ طور پر دیکھا تھا)“
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ پانچوں اشعار فارسی میں ہیں اور میں نے ان کا ترجمہ تو کر دیا ہے لیکن مطالب و معانی کا وہ حق ادا نہیں ہوا جو اقبال کے دل کا مدعا تھا…… میں نے بڑی تفصیل سے کلاس کو ان پانچوں فارسی شعروں کا ترجمہ اور تشریح بتائی اور جب اس شعر پر پہنچا:
می تپد صد جلوہ در جانِ اَمَل فرسودِ من
بر نمی خیز و ازیں محفل دلِ دیوانہ اے
تو طلبا (اور طالبات) کو یہ وضاحت کی کہ اَمَل، کا معنی آرزو، امید اور خواہش وغیرہ ہے۔ میں ابھی یہاں پہنچا ہی تھا کہ ایک طالبہ نے اٹھ کر پوچھا: ”سر ’امل‘کا معنیٰ آپ امید بتا رہے ہیں جبکہ ہمارے پہلے پروفیسر صاحب نے یہ بتایا تھا کہ ’امل‘ کا معنی نشہ یا کوئی نشہ آور چیز ہے اور اسی سے لفظ اَملی بنایا گیا ہے جس کا معنی ہے نشئی…… میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اپنے پیشرو کو جھٹلاؤں اور کلاس کو بتایا کہ ’امل‘ فارسی کا لفظ بھی ہے اور ہندی کا بھی۔ لیکن یہ بتائیں کہ پروفیسر صاحب نے اس شعر کا مفہوم کیا بتایا تھا؟ ایک طالب علم نے اٹھ کر بتایا کہ انہوں نے یہ تشریح کی تھی: ”میری نشئی اور مدہوش جان میں سینکڑوں جلوے بے تاب ہیں لیکن میری محفل سے ایک بھی ایسا شخص نہیں اٹھا کہ جسے دیوانہ (نشئی) کہا جا سکے“…… یہ تشریح سن کر میں مسکرانے لگا تو طلباء نے پوچھا کہ اس مصرع میں ہندی زبان کا ’اَمل‘ کیوں نہیں لگایا جا سکتا؟ میں نے کہا کہ ’جانِ امل فرسودِ من‘ فارسی زبان کا ایک مرکب اضافی ہے اور مرکب اضافی میں مضاف اور مضاف الیہ دونوں فارسی یا عربی کے الفاظ ہونے چاہئیں۔ اس لئے یہاں ہندی کا اَمَل (بمعنی املی / نشئی) نہیں لگایا جا سکتا اور فارسی میں اس مرکب کا معنی وہی ہے جو میں نے سطور بالا کے ترجمے میں استعمال کیا ہے۔ اَمل ہندی کا اسم مذکر بھی ہے اور عربی کا اسم مذکر بھی۔ اور جب اس لفظ کا ترجمہ اردو میں کریں گے مثلاً امید، آرزو، خواہش، آس وغیرہ تو یہ تمام اسماء مذکر نہیں، مونث ہوں گے۔
اب چلتے ہیں ’اصل خلائی مشن‘ کی طرف…… متحدہ عرب امارات نے جب اس مشن کو اَمل (Hope) کا نام دیا ہے تو یہ مشن واقعی عالمِ عرب کی امید اور آس معلوم ہوتا ہے…… اس مش کی مختصر تفصیل بھی سن لیجئے: مریخ نظامِ شمسی کا ایک سیارہ ہے جو ہماری زمین سے 50کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ امارات میں اس مشن کا ایک خلائی مرکز بنایا گیا ہے لیکن اس سیارے کی لانچنگ جاپان کے ایک جزیرے سے کی گئی ہے۔ اسے 19جولائی کو اس جزیرے کے لانچنگ سٹیشن سے چھوڑا گیا تھا اور یہ سات ماہ بعد فروری 2021ء میں مریخ کے مدار میں داخل ہو گا۔ یہ سیارہ کتنی دیر تک مریخ کے مدار میں چکر لگائے گا اس کے بارے میں کوئی قطعی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ نہ ہی سائنس دانوں کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ سیارہ کامیابی کے ساتھ 7ماہ بعد مریخ کے گرد جا پہنچے گا۔ اس سے قبل مختلف ممالک نے جو سیارے مریخ کی طرف روانہ کئے ہیں ان میں سے تقریباً نصف ناکام ہو چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سیارے (امل) کو بنانے میں 6برس کا عرصہ لگا ہے۔
قارئین کے ذہنوں میں اس لانچ کے بارے میں مختلف سوال پیدا ہوں گے مثلاً…… (1)متحدہ عرب امارات کو اس مشن کو لانچ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟……(2) امارات میں کون کون سے ایسے معروف خلائی سائنس دان ہیں جو اس مشن کے ساتھ منسلک کئے گئے؟……(3) کس ملک نے امارات کی تکنیکی مدد کی؟…… (4) امارات نے اس مشن کے بجٹ میں کتنا حصہ ڈالا؟…… (5) اس سے امارات کو کیا فائدہ ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔
بی بی سی نے ان سوالوں کا کوئی قابلِ اعتماد جواب اپنی خبروں میں فراہم نہیں کیا۔ پاکستانی قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پراجیکٹ کا اصل خالق کون ہو سکتا ہے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خلائی سائنس دانوں کے ایک گروپ نے اماراتی حکومت کی مدد کی ہے۔ سیارے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مریخ کے موسم، آب و ہوا اور ماحول وغیرہ کی معلومات اکٹھی کرکے دبئی کے سپیس مرکز کو ارسال کرے گا۔مدد دینے والے امریکی سائنس دانوں کا تعلق کولوریڈو ریاست میں قائم امریکی خلائی رصدگاہ سے بتایا جاتا ہے۔ اس ’امل‘ سیارے کو جاپان کے جس سپیس اسٹیشن سے 19جولائی کو چھوڑا گیا اس کا نام تانیگاشیما (Tanegashima)ہے۔ جب یہ سیارہ اس اسٹیشن سے ایک راکٹ پر رکھ کر لانچ کیا گیا تو دبئی میں واقع خلائی مرکز میں بیٹھے تین چار اماراتی سائنس دانوں نے تالیاں بجا کر اپنی خوشی اور جوش و خروش کا اظہار کیا۔ اس مشن کی اماراتی روح رواں عزت مآب سارہ الامیری ہیں جو امارات کے شاہی خاندان کی فرد ہیں۔ چونکہ ان کی ساری تعلیم اور پرورش امریکہ میں ہوئی اس لئے انہوں نے اس پراجیکٹ کے بارے میں میڈیا سے جو گفتگو کی وہ خالص امریکی زبان کے لب و لہجے میں تھی۔
اس مشن کے سلسلے میں دو مختلف رائیں ہیں …… ایک یہ کہ امریکیوں نے راکٹ اور سیارہ سازی کے بیش قیمت اور انتہائی مہنگے کاروبار میں ایک مالدار عرب ملک کو اس لئے شامل کیا ہے کہ وہ اس مشن کا مالی بوجھ برداشت کرے۔وگرنہ مریخ کی آب و ہوا اور ماحول کو جاننے کی ضرورت امارات کو کیا تھی۔ تانیگاشیما خلائی سنٹر جاپان کے ایک جنوبی جزیرے میں واقع ہے اور گزشتہ 55برس سے خلائی سائنس کے مختلف شعبوں میں تحقیق و جستجو کے مراحل طے کر رہا ہے۔ میں نے جب گوگل پر اس کی لوکیشن جاننے کی کوشش کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ 15منٹ کی ایک ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ اس خلائی سٹیشن میں خلائی راکٹ کیسے تیار کئے جاتے ہیں، راکٹ سازی کے اندرونی مناظر کیا ہیں، ساز و سامان کی کیا کیفیت ہے، جاپانی سائنس دانوں اور انجینئروں کا علم و ہنر کیا اور کتنا ہے، وہ قبل ازیں اس سٹیشن سے کتنے راکٹ چھوڑ چکے ہیں اور ان کا پروفیشنل ڈاٹا کس کینڈے کا ہے، راکٹ کے انجن کیسے بنائے جاتے ہیں اور ان انجنوں کی تکنیکی تفصیلات کیا ہیں …… میں 15 منٹ تک یہ دستاویزی فلم دیکھتا اور سنتا رہا اور جاپانیوں کی خلائی سائنس میں دلچسپی اور ان کے اس مقام تک پہنچنے کی تگ و دو پر عش عش کرتا رہا!…… اور سوچتا رہا کہ اماراتی سائنس دان کیا اس طرح کے اسٹیشن کا کوئی سادہ ترین اور صغیر ترین ماڈل بھی بنا سکتے ہیں؟ان سوالوں کا جواب میں قارئین کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔
اور دوسری رائے یہ ہے کہ بے شک اماراتی خلائی سائنس دانوں اور انجینئروں کا پیشہ ورانہ علم و ہنر بالکل ابتدائی مراحل میں ہو گا لیکن کیا یہ امر باعثِ مسرت و اطمینان نہیں کہ کسی عرب ریاست نے اس طرف توجہ تو کی!…… پاکستان کی مثال میرے سامنے ہے…… الخالد ٹینک، الضرار ٹینک، JF-17 طیارہ، خالد آبدوز، میزائلوں کی ایک طویل فہرست اور سپارکو کی ڈویلپمنٹ سب ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں ان بھاری ہتھیاروں اور آلات کی کچھ زیادہ شُدبُد کہاں تھی؟ اور نہ ہی جوہری ٹیکنالوجی کی ابجد سے کوئی شناسائی تھی……لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے ہم ان سارے شعبوں کے خود منصوبہ ساز ہیں۔ اسی طرح اگرچہ متحدہ عرب امارات آج خلائی سائنس سے زیادہ باخبر نہیں لیکن ہزار میل کا سفر بھی اگر درپیش ہو تو پہلا قدم اٹھانا بڑی ہمت کا کام ہوتا ہے۔ سوال پہلا قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر ہم یہی سوچتے رہے کہ ہزار میل کا فاصلہ کیسے طے ہو گا تو پھر ہماری ناکامی دیوار پر لکھی دیکھی جا سکتی ہے۔ میں امارات کی حکومت، اس کے خلائی سائنس دانوں اور اس مشن سے وابستہ افراد کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے عربوں کی عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نہائت نادر قدم اٹھایا ہے:
وادیء عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآ ہے گا ہے
(وادی ء عشق و محبت اگرچہ بہت دور و دراز ہے لیکن بعض اوقات سو سالوں کا راستہ صرف ایک آہ بھرنے میں طے ہو جاتا ہے)