یو او ایم میں تعیناتیاں اور تنازعات
ڈاکٹر توقیر احمد وڑائچ یونیورسٹی آف پنجاب سے 2018 میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے اور 2018 میں ہی انہیں یونیورسٹی آف سرگودھا سب کیمپس میانوالی کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا جو کہ اس درس گاہ کے حلقہ احباب میں حقیقتاً ایک غیر قانونی تقرری سمجھی جاتی تھی ۔ موصوف نے 2016 میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 19 گریڈ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی سیاسی اثر رسوخ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ان کو یونیورسٹی آف سرگودھاکے سب کیمپس کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا ۔ نااہلی،کرپشن اور میرٹ کی دھجیاں اس وقت بکھیر کے رکھ دی گیئں جب 2019 میں یونیورسٹی آف میانوالی کا قیام عمل میں آیا اور تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر شبر عتیق نے ڈاکٹر توقیر احمد وڑائچ کو کسی بھی تعیناتی کا حق نہ ہونے کے باوجود یونیورسٹی آف میانوالی کا کوآرڈینیٹر تعینات کر دیا جو کہ غیر قانونی عہدہ تھا۔ جس کے بارے میں تمام اعلی حکام کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ آٹھ ماہ تک کوآرڈینیٹر کے غیرقانونی عہدے پر تعینات رہنے کے بعد اور لاکھوں روپےتنخواہ وصول کرنے کے بعد جب کوآرڈینیٹر صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ اب ان کے خلاف کاروائی ہونے جا رہی ہے تو انہوں نےدوبارہ سے اپنا سیاسی اثر رسوخ استعمال کرکے خود کو یونیورسٹی آف میانوالی کے رجسٹرار کے طور پر تعینات کروا لیا ۔ چار ماہ سے موصوف یونیورسٹی آف میانوالی کے رجسٹرار کے طور پر تعینات ہیں لیکن رجسٹرار آفس میں حاضری کے صرف 3 دن ہیں ۔جبکہ مضبوط لابی کے بل بوتے پر نہ ہی یونیورسٹی کا کوئی کام کرتے ہے اور نہ ہی دیگر کو کوئی کام کرنے دیتے ہیں۔
موصوف کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 2 سالوں میں انہوں نے ایک فعال تعلیمی درس گاہ کو مفلوج کر دیا ہے، جس کا باقائدہ ثبوت طلباء کے غم و غصہ کا اظہار سوشل میڈیا اور ٹویٹر ٹرینڈ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف میانوالی کےقیام کے بعد سے موصوف اپنی ہٹ دھرمی سے بعض نہ آئے اور گزشتہ ایک سال میں محض لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرنے اوریونیورسٹی کو لاکھوں کا نقصان پہنچانے کے سوا کوئی قابل تعریف کام سرانجام نہیں دیا ۔ یہ گزشتہ ایک سال سے یونیورسٹی کے سیاہو سفید کے مالک ہیں ، یونیورسٹی کا بنگلہ ، گاڑی، ڈرائیور ، مالی، سویپر حتی کہ ہوسٹل کی کام کرنے والی ماسیوں کو بھی اپنے ذاتی کاموں اور گھر کے کاموں میں لگا کر موجودہ حکومتِ پاکستان کی سادگی کی پالیسیوں کے برعکس وزیر اعظم عمران خان سے بھی زیادہ ملازمین رکھنے کا ریکارڈ بنانے میں محو ہیں۔ اور انتہائی چالاکی کے ساتھ یونیورسٹی کے اندر ہر طرع کے سیاہ سفید سے بھرپور ایک مضبوط لابی بنا چکے ہیں جو ہر نئے آنے والے شخص کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتی ہے، حالانکہ حالات اس کے برعکس ہیں۔
رجسٹرار صاحب یونیورسٹی کے اساتذہ سے ایک انتہا کی حد تک بغض رکھتے ہیں اور ہر وقت ان کو آپس میں لڑائے رکھنے کی پالیسیوں پر ایچ او ڈیز کاربند نظر آتے ہیں۔ جب بھی کسی نے اپنے طور، یونیورسٹی کے مسائل پر بات کرنے یا حل کرانے کی کوشش کی تو یہ موصوف آڑے آجاتے ہیں ۔ اساتذہ سے ان کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ صرف اساتذہ ہی انکی نااہلی کا شکار نہیں ہیں بلکہ 2400 طلبہ کا مستقبل بھی خطرے سے دوچار ہے گزشتہ ایک سال طلباء کے در پیش مسائل پر توجہ تک نہیں دی۔ مسائل اپنی جگہ، یونیورسٹی کے طلبہ نے جب نئے تعینات ہونے والے وائس چانسلر جناب شاہد منیر کو خوش آمدید کہنے کی تیاری اپنے پیسوں اور محنت سے استقبالیہ راہداری بنائی تو رجسٹرار صاحب نے اعتراض اٹھا دیا اس سوچ کیساتھ کہ کہیں چند نہتے طلبہ وائس چانسلرصاحب کے ذیادہ قریب ہو کر مسائل کا ذکر نہ کر دیں۔یونیورسٹی آف میانوالی 2400 طلبہ نے واضح کر دیا ہے کہ ذاتیات کی جنگلڑنے والے کسی بھی آفیسر کو اب مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اور جلد ہی یونیورسٹی آف میانوالی میں نہایت محنتی ، فرض شناس اور تعلیم کی اقدار کو جاننے والے آفیسرز کی تعیناتی کا مطالبہ کریں گے ۔گزشتہ روز جب نئے وائس چانسلر کی آمد پر طلباء نےاپنی مدد آپ کے تحت استقبالیہ تیاریوں میں مگن تھے تو رجسٹرار صاحب نے کسی انہونے خوف کے وجہ سے طلباء کی طرف سےتمام انتظامات کو نیست و نابود کر دیا اس کے بعد طلبہ کا غم و غصہ نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور طلباء تعلیمی درس گاہ میں سیاست سے پاک انتظامیہ اور سابقہ تمام مفاداتی لابی جو یونیورسٹی پر قابض ہے ان سے بری الزمہ ہونے کے لئے عنقریب یونیورسٹی کے باہر دھرنا دیں گے ۔ یونیورسٹی آف میانوالی جو اپنے قیام سے لیکر ابھی تک مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑتی آ رہی ہے طلباء کے اس عمل سے یونیورسٹی کا ماحول خراب ہو گا اور دیگر تعلیمی اداروں میں وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر قائم ہونے والی یونیورسٹی کا معیار زوال پذیر ہونے کا خدشہ ہے ۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب، وزیر اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار، گورنر پنجاب چودھری سرور صاحب سےگزارش ہے کہ وہ میانوالی شہر کی اس تعلیمی درس گاہ میں مزید کسی انتشار اور بدامنی کو روکنے کے لئے فورًا نوٹس لیں اور تعینات افسران کا گزشتہ دو سال کا آڈٹ کروائیں تاکہ حقائق واضح ہو سکیں ۔ جب فضا پر سکون ہو گی تو یونیورسٹی آف میانوالی بھی ایکماڈل یونیورسٹی کے طور پر میانوالی کی عوام کے لئے علم و دانش کا سر چشمہ ثابت ہو گی۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.