عقیدت نامہ...!
اولیائے کرام کی صحبتیں قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہیں تو اللہ والوں کے مزاروں پر حاضری بھی عام بات نہیں....خانقاہوں اور درگاہوں پر پھیلے سکوت میں ڈوب کر ایسا سکون ملتا ہے کہ روح سرشار ہو جاتی ہے....لاہور کو شرف حاصل ہے کہ پیر کامل سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ،میاں میر رحمتہ اللہ،غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سمیت کتنے ہی اللہ والے اس شہر کو" بے مثال"بنا رہے ہیں...
عید سےپہلےقابل احترام صحافی دوست راناشہزادکےجواں سال بھائی کی ناگہانی موت نےسوگوار کردیا...
داتا دربار کی مسجد کےاحاطے میں نمازجنازہ کےبعدنیک نام اخبار نویس برادرم میم سین بٹ اور شہزاد فراموش کے ساتھ سید علی ہجویریؒ کے مزار پر حاضری دی...میری خوش بختی کہ ہجویرؒ کے عالی قدر سید سے بچپن سے عقیدت ہے...جب کبھی اس آستانے پر حاضر ہوا عزت ملی...پیر کامل کے قدموں کی جانب تھوڑا پیچھے کھڑا تھا کہ مزار کے نگران نے کہا آگے ہو جائیں اور ساتھ ہی گلے میں پھولوں کا ہار ڈال دیا... شادی سے عمرے تک،ہمیشہ ایسی"نمود و نمائش" سے بھاگا ہوں مگر یہاں اس "اکرام" پر گردن احترام میں جھک گئی....اس "ذرہ نوازی" پر "عزت افزائی "کا ایک اور واقعہ یاد آگیا...
کئی سال پہلے میں اپنے دوست "قبلہ "حافظ ابرار صدیقی کے ساتھ اللہ کے اس ولی کے در حاضر ہوا... . زائرین کا کافی رش تھا....ہم وضو کے لیے انتظار میں کھڑے تھے...وہاں کے عملے نے نا جانے ہمیں کیا سمجھا کہ اچانک ایک اہلکار نے بڑے احترام کے ساتھ جوتے لا کر ہمارے قدموں میں رکھ دیے اور کہا چلیں وضو کر لیں...ہم دیکھتے ہی رہ گئے کہ اتنے ہجوم میں ہمارے ساتھ یہ کیا معاملہ ہوا...؟؟؟یہ منہ اور مسور کی دال...!!!کہاں ہم ایسے گنہگار،کہاں وہ اللہ کے مقرب بندے...!!!جب بھی وہ منظر نگاہوں میں گھومتا ہے سر ادب سے جھک جاتا ہے...
جی ہاں یہ وہی عالی شان درگاہ ہے جہاں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ حاضر ہوئے اور ایک حجرہ میں چالیس دن عبادت و ریاضت کے دوران لطف و کرم کی ایسی بارش دیکھی کہ رخصت ہوتے وقت مرد خدا کی زبان سے نکلا درج ذیل شعر زبان زد خاص و عام ہو گیا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
اللہ والوں کی الگ ہی دنیا ہوتی ہے ...کہاں سے چلتے،کہاں پہنچ کر اپنے" فرائض منصبی" انجام دیتے اور پھر وہاں ہی مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو جاتے ہیں...سید علی ہجویریؒ بھی افغاستان کے شہر غزنی کے محلہ ہجویر میں اقامت پذیر تھے...جلاب میں آپ کے ننھیال رہتے تھے...اسی لیے آپ کے نام کیساتھ ہجویری اور جلابی لکھا جاتا ہے.... اپنے مرشد حضرت ابوالفضل ختلی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال پر وطن مالوف کو خیر باد کہا اور اپنے دو دوستوں شیخ احمد سرخسی اور شیخ ابو سعید کے ہمراہ بت کدہ ہند کا رخ کیا.. . جب میلوں سفر طے کر کے سر زمین لاہور پر قدم رنجہ فرمایا،اس وقت یہاں سلطان محمود غزنویؒ کا بیٹا سلطان مسعود غزنوی حکمران تھا...
بھیرہ شریف کی درگاہ کے قد آور مفسر اور محدث پیر کرم شاہؒ نے کشف المحجوب کے اردو ترجمہ کے دیباچے میں اللہ کے اس برگزیدہ بندے کو کیا ہی خوب صورت خراج عقیدت پیش کیا....لکھتے ہیں:غزنوی خاندان کے فاتحین نے ممالک فتح ،قلعے سر اور شاہی محلات پر پرچم لہرائے لیکن ہجویر سے آئے اس غریب الدیار درویش نے قلوب کی اقالیم مسخر اورتعصب و ہٹ دھرمی کے قلعوں کو پیوند خاک کیا...جہالت و گمراہی کے پردوں کو سرکا کرحقیقت کے "رخ زیبا" کو یوں بے نقاب کیا کہ ہر صاحب قلب سلیم دیوانہ وار اس پر سو جان سے نثار ہونے لگا...
عید سے پہلے ہی ایک اور پیارے صحافی دوست عزیزم راحیل سید کی والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں .. .میانی صاحب میں نماز جنازہ تھی...امتیاز راشد مرحوم کی اہلیہ محترمہ کی میت کو کندھا دینے کے بعد" سادھو "سے میڈیا پرسن وقاص ظہیر کے ساتھ غازی علم دین شہید اور مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مزار پر ایک بار پھر حاضری ہو گئی...
غازی علم دینؒ شہید کو اتنا بڑا اعزاز ملا کہ زمانے رشک کرتے رہیں گے...میانی صاحب میں آرام فرما یہی وہ 19 سالہ عاشق رسولﷺ ہیں،جنہوں نے بدبخت گستاخ راجپال کو جہنم واصل کیا تھا ...غازی صاحب شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی... علامہ اقبالؒ نے غازی علم دینؒ شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ لازوال جملہ کہا ”ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے.....
مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بھی کیا کہنے....زندگی قرآن کے نام کر دی اور اللہ کی کتاب پڑھتے پڑھاتے ہی اللہ کے حضور پیش ہوگئے...فرمایا کرتے کہ میرا ایک پاؤں ٹرین کے پائیدان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو اور مجھے کوئی کہے کہ قرآن کا خلاصہ بتاتے جائیے تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کو عبادت...نبی کریم ﷺ کو اطاعت...صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو محبت اور لوگوں کو خدمت سے راضی کرو...یہی قرآن کا خلاصہ ہے...قرآن کی خدمت کا ثمر دیکھئیے کہ دنیا سے گئے تو قبر جنت کی خوشبو سےمہک اٹھی... شاعرختم نبوت سید سلمان گیلانی لکھتے ہیں: امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے مرقد مبارک سے خوشبو کا واقعہ بہت مشہور ہے...پاکستان میں اللہ والوں کی قبور سے خوشبو اٹھنے کا سب سے مشہور معاملہ مولانا احمد علی لاہوریؒ کا ہوا، جس کا میں چشم دید گواہ ہوں...کہتے ہیں حضرت لاہوریؒ کے وصال پر میں گیارہ سال کا اچھابھلا ہوشمند بچہ تھا.....اسوقت ہماری گلی کے بابا حبیب اللہ مرحوم ،جو اس وقت اسی نوےسال کے سِن رسیدہ بزرگ تھے، وہ یہ شہرت سن کر کہ حضرت کی قبرسےخوشبو پُھوٹ پڑی ہے، حق الیقین حاصل کرنے کے لیے شیخوپورہ سے لاہور میانی صاحب پہنچے....مٹی سے خوشبو سونگھی اورتھوڑی سی خاک لحد ایک کاغذ میں لپیٹ کر جیب میں ڈال کرشیخوپورہ بس سے اتر کرسیدھا ہماری دکان مکتبہ احباب پر پہنچے... جب دکان سے ابھی دورہی تھے کہ ایک عجیب سی خوشبو ،جو قبل ازیں کبھی نہیں سونگھی تھی،محسوس ہوئی...بابا حبیب اللہ جوں جوں قریب آتے گئے خوشبو تیز ہوتی گئی... جب دکان میں ہانپتے کانپتے داخل ہوئے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے زبان نہیں تھکتی تھی.. . والد صاحب نے پانی کا گلاس پیش کیا ...بابا جی نے سنت کے مطابق بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پی کرالحمد للہ کہا اوربولے شاہ صاحب آپ کو علم ہے میں ذرا "وہابی" خیال کا ہوں... سنی سنائی کرامات کاقائل نہیں ہوں ،اس لیے آج میں خود میانی صاحب گیا اور وہاں سےحضرت لاہوریؒ کی قبر کی مٹی لایا ہوں ،جس سے واقعی جنت کی خوشبو آرہی ہے اورساتھ ہی یہ اخبار کا صفحہ ہے جس پر یہ خبر درج ہے کہ حضرت احمد علی لاہوریؒ کے مرقد کی خاک کا اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کی میڈیکل لیبارٹری میں کیمیکل ایگزامن کیاگیا مگر اس میں کسی دنیاوی خوشبوکی آمیزش نہیں پائی گئی... بابا جی نے اس خاک میں سے ابا جی کو بھی حصہ عطا کیا.....والد صاحب خود حضرت لاہوریؒ کے مرید تھے..... کافی دن تک میری امی جی کے صندوق میں وہ پُڑیا رکھی رہی اور اس جنت کی خوشبو سے سارا گھر مہکتا رہا..... پھر لوگوں نے خاکِ لحد اٹھا کے لے جانا مشغلہ بنا لیا..... آخر حضرت کے خلفاء نے مل کر دعا کی یا اللہ تیری شان کا،تیری قدرت کا مشاہدہ ہو چکا اب اس امر کا مظاہرہ ختم فرما دے. ..آہستہ آہستہ وہ خوشبوجاتی رہی...جب قبر سے چلی گئی توگھر ٹرنک میں رکھی پُڑیا سے بھی غائب ہو گئی.....
سید سلمان گیلانی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ الحدیث مولانا موسی خان روحانی بازیؒ جب حضرت لاہوریؒ والے احاطہ میں دفن ہوئے تو ان کی قبر سے بھی خوشبو کے جھونکے چل پڑے...لوگ جوق در جوق میانی صاحب جانے لگے اور خاکِ لحد لفافوں ، شاپروں، بوتلوں میں بھر بھرکے لے جانے لگے...ہمارے والد صاحب مرحوم نے مٹی سُونگھی تو فرمایا یہ تو ہُو بہُو وہی خوشبو ہے جو مولانا لاہوری کی قبر سے پُھوٹی تھی...
اللہ والوں کے مرتبے اللہ ہی جانیں...میرے ایسا عام سا عقیدت مند ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مشتمل سادہ سا"عقیدت نامہ"ہی لکھ سکتا ہے...دوستوں سے بھی گذارش ہے کہ زندگی کے بکھیڑوں سے جان چھوٹے تو اللہ کے کسی نہ کسی دوست کو چپکے سے سلام کہہ آیا کریں...ان کے ہاں رحمتوں اور برکتوں کی "شبنم افشانی" ہوتی رہتی ہے...پیاسے کو بوند ہی مل جائے تو زہے نصیب!!
نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں