شیخ علاﺅ الدین کے ہاتھ میں ماچس....!
جی ہاں، جمہوریت کی جھونپڑی کوآگ لگانے کے لئے ایک شیخ علاوالدین کے ہاتھ میں موجود ماچس کافی ہے، وہ جھونپڑی جس کی ہلتی دیواروں اورکمزور بنیادوں میں پہلے ہی جمہوریت کے نام نہاد علم بردارو ں نے مہنگائی ،بے روزگاری اور اپنی نااہلی جیسے ڈائنامیٹ فکس کر رکھے ہیں جوکسی بھی وقت پھٹ کے سب کچھ تباہ کر سکتے ہیں، ایسے میں شیخ علاوالدین پنجاب اسمبلی میں محض اپنی لغو گفتگو سے ماچس جلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک شخص جس کی عمروطن عزیز پاکستان کی عمر سے بھی چودہ دن زیادہ ہو۔ آج سے چالیس بیالیس سال قبل جس نے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے تین بچوں ، موٹر کاروں کے معروف برانڈ کی فروخت کے وسیع کاروبار سے نواز رکھا ہو، جو دوسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے معزز ایوان کا رکن بنا ہو ، وہ خواتین بارے ایسے واہیات فقرے تواتر سے کیسے ادا کر سکتا ہے جو ہم گلی محلوں میں بھی نہیں سن سکتے۔ کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر حضرت شیخ ہی خواتین سے ہونے والی لڑائیوں کی وجہ بنتے ہیں، کبھی ان کو اعتراض ہوتا ہے کہ خواتین ” کیپریز“ پہن کے ایم ایم عالم روڈ پر گھومتی ہیں اورساتھ میں اپنی ہی پارٹی کی ایک نوجوان خاتون رکن کی تصویر ایوان میں لہرا دیتے ہیں اور کبھی ان کو آمنہ الفت خیراتی سیٹوں پر آئی ہوئی لگتی ہیں۔ کبھی موصوف ثمینہ خاور حیات کے ساتھ مردوں کی دوسری شادی کی بحث میں الجھ جاتے ہیں اور کبھی فرماتے ہیں کہ یہ عورتیں توان کے لئے ٹشو پیپر کی طرح ہیں۔تازہ ترین فضول گوئی کے مطابق یہ خواتین ارکان اسمبلیتو موت کے کنویں میں ناچنے والی عورتیں ہیں۔ مجھے یہاں پر حکمران جماعت کے ہی عبدالرزاق ڈھلوں کے حوالے سے بھی بات کرنی ہے ، یہ بھی شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ ہیں، ان کی عمر بھی پچاس سال سے اوپر ہو رہی ہے ،کوئی ٹین ایجر نہیں مگر ایوان میں مخالف سیاسی رہنماو¿ں کا نام لیتے ہیں اور اپوزیشن کی خواتین ارکان کو ان کی گرل فرینڈ قرار دیتے ہیں۔ مجھے ماضی کی لڑائیوں کی طرف نہیں جانا مگر موجودہ لڑائی کی وجہ بننے والے دونوں صاحبان سے یہ تصدیق ضرور کرنی ہے کہ کیا واقعی پنجاب اسمبلی کی آفیشئل ویب سائٹ پر درج شیخ علاوالدین کی تاریخ پیدائش یکم اگست 1947 اورچودھری عبدالرزاق ڈھلوں کی گیارہ جون 1961 درست ہے اور اگر وہ تصدیق کرتے ہیں تو اپنی عمر دیکھیں اور اپنی حرکتیں دیکھیں، ان سے تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا بیٹا آپ کے والدین نے آپ کو تمیز نہیں سکھائی۔ کیا یہ باتیںمہذب لوگ اپنی نجی محفلوں میںبھی کرتے ہیں جو انہوں نے ارکان کی تعداد کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے ایوان میں کردی ہیں۔
یہ امر عجیب ہے کہ جوں جوں ان مردوں کی عمریں بڑھتی چلی جاتی ہیں، ان کی فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ انکے ذہنوں پر عورتیں سوار رہتی ہیں مگر دوسری طرف وہ ان کو ترقیاتی فنڈز بھی نہیں دینا چاہتے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ احسان اللہ وقاص ، جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر پچھلی اسمبلی میں رکن تھے مگرانہوں نے بھی خواتین کو ” سویٹ ڈش“ قرار دے دیا تھا جس پر خوب ہنگامہ ہوا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) تو اسمبلی میںچل ہی عورتوں پر رہی ہے،ان کے مرد تو بے وفا ہو چکے، فارورڈ بلاک بناچکے مگر خواتین میں ثمینہ خاور حیات، سیمل کامران، ماجدہ زیدی، آمنہ الفت ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ وزیراعلیٰ کی تقریر کے دوران بھی ہنگامہ کرتی اور کارروائی کے دوران بھی
شور مچاتی رہتی ہیں، لیکن اس قسم کی اپوزیشن کرنے کی مخالفت اس لئے بھی نہیں کی جا سکتی کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں اسی قسم کا ” پارلیمانی کردار“ ادا کر رہی ہے۔بجٹ کے دوران اس کے ارکان بھی تھپڑ ، گھونسے وغیرہ چلاتے رہے ہیں۔ یہاں حکومت اور بجٹ کی مخالفت اعداد و شمار سے کم اور ماردھاڑ سے زیادہ ہوتی ہے مگر ایسے میں بھی اس اخلاقیات کا بہرحال خیال رکھاجانا چاہئے جو ہماری مشرقی روایات کا خاصہ ہے۔ خدیجہ عمر ، اگرچہ حزب اختلاف سے بھی ہیں اور نوجوان بھی مگر ان کو ہلڑ بازی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا،اس مار کٹائی میں تو ان کے منہ پر بھی تھپڑ لگا دیا گیا۔ رانا ارشد ، اپوزیشن کی خواتین کو مارنے کے لئے کرسی اٹھاتے رہے۔ سیمل کامران کی طرف سے جوتا پھینکنے کی دل کھول کر مذمت کی جاتی مگر دوسری طرف کیاہوا کہ نسیم خواجہ نے بھی نگہت ناصر شیخ کی جوتی اٹھا کر دے ماری، ایک عوامی سروے میں لوگوں سے اس جوتا بازی کے بارے پوچھا گیا تو ایک بزرگ فرمانے لگے ابھی تو یہ ایک دوسرے کو جوتے مار رہے ہیں لیکن اگر یہ مسائل زدہ عوام کے ہتھے چڑ ھ گئے تو ان کو جو جوتے پڑیں گے وہ اس جوتے بازی کا عشر عشیر بھی نہیں ہوں گے۔ گویاجمہوریت پر اعتبار گنوانے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی مقام پر کھڑی ہو گئیں۔
حالیہ بحران میں عبدالرزاق ڈھلوں اور شیخ علاوالدین کے الفاظ وہ بنیاد ہیںجن پر ہنگامے کی عمارت کھڑی ہوئی۔ شیخ صاحب کو اس وقت بہت غصہ آتا ہے جب ان کو لوٹا کہا جاتا ہے مگر کیا وہ اس حمام میں اکیلے ہیں، ان کے ساتھ بہت سارے اور بھی لوٹے ہیں مگر وہتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیںکیونکہ رانا ثناءاللہ خان لوٹے کو پارلیمانی لفظ قراردلوا چکے ہیں۔ شیخ صاحب بارے یادآیا کہ گورنر راج لگنے سے قبل یہ شہباز شریف کی صلاحیتوں کے دیوانے ہو گئے تھے مگر جب گورنر راج لگا توایک مرتبہ پھرچودھری پرویز الٰہی کے چرنوں میں نظرآئے ۔جب گورنر راج کی ٹانگیں کپکپانے لگیں تودوبارہ نواز لیگ میں لوٹ آئے۔ پنجاب اسمبلی کی بدقسمتی ہے کہ یہاں لوٹوں کی پیداوار، برسات میں مینڈکوں کی پیداوار سے بھی زیادہ رہی ہے، جب چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے صبا صادق کے (ق) لیگ میں شامل ہونے پرمیرے ہی سوال پر کہا تھا کہ مسلم لیگی (یعنی مسلم لیگ (ن) کے ارکان) اگر مسلم لیگ ( یعنی (ق) لیگ) میں شامل ہو رہے ہیں تو فلور کراسنگ کیسی۔ میں نے چودھری صاحب کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا جتنا صبا صادق اور حاجی حنیف کی (ق) لیگ میں شمولیت کے موقع پر تھے اور پھر انہیں پنجاب اسمبلی کے حوالے سے مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا، ان کے ارکان شوق در شوق اورجوق در جوق لوٹے ہو رہے ہیں مگرکوئی روکنے والا نہیں۔ ان کی پارٹی ، ایوان میںبیان کردہ انہی پانچ سات خواتین کی مرہون منت رہ گئی ہے۔ بد ھ کے بعد جمعرات کو ہونے والا ہنگامہ بھی عجیب تھا، سیمل کامران کو پنجاب اسمبلی کی حدود میں داخل ہونے سے روکا جا رہا تھاکیونکہ سپیکر رانا محمد اقبال نے شیخ علاوالدین کےساتھ ان کا بھی ایوان میں داخلہ روک دیا تھا مگر سوال تو سپیکر صاحب سے یہ ہے کہ داخلہ ایوان میں روکا گیا تھا یا اسمبلی حدود میں۔ مجھے یہاں گذشتہ دور میں افضل ساہی کے بطور سپیکر چھبیس ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی کا حکم یاد آ گیا، ان میں قاسم ضیاءکے ساتھ ساتھ رانا ثناءاللہ اور رانا مشہود بھی شامل تھے۔ تب ان کا موقف تھا کہ وہ ایوان میں نہیں جا سکتے مگر اسمبلی حدود اور اپوزیشن چیمبر میں تو جا سکتے ہیں، اس پرخوب ہنگامہ ہوا تھا مگر اب مسلم لیگ (ن) نے افضل ساہی کے ساتھ ساتھ ان کی بطور سپیکر افسوس ناک روایات کو بھی گود لے لیا ہے۔یہ بار بار ثابت ہو رہا ہے کہ ہم صرف نام کی سیاسی، جمہوری ، پارلیمانی اور اخلاقی روایات کے حامل ہیں ۔ اگر
ہم اپوزیشن میں ہیں تو ہنگامہ اور اگر ہم حکومت میں ہیں تو اختیارات کا اندھا دھند استعمال ہی ہماری روایات ہیں۔کہنے والے کہنے لگے ہیںکہ مشرف اور زرداری میں کوئی فرق نہیں۔ پرویز الٰہی اور شہباز شریف بہت سارے معاملات میں ایک جیسے ہیں ، اسی طرح افضل ساہی اور رانا اقبال کی رولنگز بھی ایک طرح ہی کی ہیں، یہ جمہوریت اور یہ ایوان، وہ منزل نہیں ہیں جس کا خواب دکھایا گیا تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف سمیت کوئی ہے جو پینسٹھ سالہ شیخ علاوالدین کے ہاتھ سے یہ ماچس واپس لے لے، وہ بار بار تیلی رگڑتا ہے، چنگاریاں اڑتی ہیں مگر آگ نہیںلگتی ۔ کمزور بنیادوں کی حامل یہ جھونپڑی جمہوریت کے جس جنگل میں کھڑی ہے وہاں پہلے ہی پیپلزپارٹی کی نااہلی ، بدانتظامی اور کرپشن کا پٹرول بکھرا ہوا ہے ایسے شیخ علاوالدین کے پاس موجودغیر اخلاقی باتوں کی ماچس جمہوریت کی رہی سہی آئینی اور اخلاقی حیثیت بھسم کرنے کے لئے کافی ہو گی۔