طاہرالقادری کی طاقت
طاہرالقادری کی طاقت ان کے زور خطابت میں ہے۔ خدانخواستہ اگر ان سے ان کی قوت گویائی چھن جائے تو ان کی ساری طاقت ختم ہو جائے گی۔ جیسے عمران خان سے ان کی پرکشش شخصیت چھن جائے تو ان کی پبلک فالوئنگ زمین سے آلگے گی، اسی لئے وہ حال ہی میں مبینہ طور پر اپنی فیس لفٹنگ کرواکر آئے ہیں تاکہ ان کی مارکیٹ ویلیو قائم رہے۔ طاہرالقادری اور عمران خان کے ذہنوں میں رہنا چاہئے کہ جو لوگ اپنی عوامی مقبولیت کو کسی ایک طاقت پر استوار کرتے ہیں ان کے لئے سیاست کے محاذ پر لمبی اننگ کھیلنا دشوار ہوتا ہے۔
طاہرالقادری کے لئے تو ایک مسئلہ اور ہے کہ ان کی یہ طاقت ان کے مذہبی زور خطابت سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ سیاست کے محاذ پر جتنا بھی زور دکھالیں ان کا وہ رنگ نہیں جمنے کا جو مذہبی مقرر کے طور پر جم سکتا ہے یا جما ہوا ہے۔ اس کی مثال اس گاڑی کی ہے جو اپنے مضبوط انجن کی بنیاد پر موٹر وے پر تو برق رفتاری سے دوڑ سکتی ہے لیکن پہاڑی مقامات پر واقع پُر پیچ راستوں پر اس تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ مذہب کی سیدھی اور ہموار موٹروے جس خطابت کے جوہر وہ دکھا سکتے ہیں وہ سیاست کے کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر جانے والے پُر پیچ راستے پر نہیں دکھا سکتے۔ وہاں ایسی تندی و تیزی دکھانے والے کو جان کے لالے پڑنے کا امکان رہتا ہے۔
طاہرالقادری کی دوسری بڑی طاقت ان کے وہ سفید جھوٹ ہیں جو وہ عوام کے منہ پر بولتے ہیں۔ زور خطابت میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان کو خیالات پر قابو ہونے کے باوجود قابو نہیں ہوتااوروہ جوش خطابت میں زمین و آسمان کے ایسے قلابے ملاتا ہے کہ خدا کی پناہ!
جھوٹ ایک عادت ہے جو کسی بھی نام والے کو اسی طرح ہو سکتی ہے جیسے کسی گمنام شخص کو سچ بولنے کی عادت ہو۔ گزشتہ دنوں اے این پی کے شاہی سید نے عمران خان کی الزام تراشی کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسان کو دو طرح کے آدمیوں سے ڈرنا چاہئے۔ ایک وہ جو دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑا ہو کر آپ کو گالیاں نکالے اور دوسرا وہ جو آپ کے منہ پر جھوٹ بولے۔ شاہی سید کا کہنا ہے کہ یہ دونوں قسم کے افراد اپنے مخاطب کو ایسے گھائل کردیتے ہیں جیسے کوئی مقتول شخص ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک عوامی رہنما اپنے اعلیٰ کردار کے سبب دلوں پر راج کرتا ہے۔ ایسا رہنما ایک مکمل پیکج کی طرح لوگوں کو دستیاب ہوتا ہے۔ علامہ صاحب کو اعلیٰ عدلیہ جھوٹا قرار دے چکی ہے ۔ لاہور شہر میں شریف فیملی ان کی سب سے بڑی محسن تھی اور آج وہ انہی کے وارنٹ نکالے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے دھاندلی کے خلاف دھرنے کا حصہ بن کر بھی انہوں نے اپنے قد میں کمی کی تھی۔ ایسے میں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے عظیم الشان جلسوں سے عوام کی بڑی تعداد ان کی طرف متوجہ ہو جائے گی تو مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، مستقبل بعید کا بھید خدا جانتا ہے!
طاہرالقادری کی تیسری طاقت سازشوں، خفیہ منصوبوں اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے والے منصوبوں کا حصہ بننا ہے۔ لندن پلان ہو یا پھر 17جون 2014کی رات ان کی جانب سے کی جانے والے اشتعال انگیز تقریر جس کے بعد ان کے فالوئرز پولیس کے دوبدو ہو گئے تھے، جناب طاہرالقادری بہرحال ایک بڑے نقصان کا سبب بنے ہیں۔
علامہ طاہرالقادری کی چوتھی بڑی طاقت ان کے عقیدت مندوں کا ان سے والہانہ اظہار محبت ہے۔ دھرنے کے دوران ان کی ارادت مند خواتین ان کے پسینے سے شرابور ٹشو پیپر انتہائی عقیدت سے زمین پر گرنے سے بچا رہی تھیں۔ بلاشبہ ایسا اظہار عقیدت آج تک مولانا مودودی، مولانا عبدالستار نیازی اور دیگر ایسے جید سیاسی علماء کے حصے میں نہیں آیا ہے جو علامہ طاہرالقادری کا خاصہ ہے۔
علامہ صاحب کی پانچویں طاقت ان کا مخصوص حلیہ ہے جو انہیں ان کے اردگرد موجود لوگوں سے ممتاز کردیتا ہے۔ ان کا لباس نہ صرف انہیں دوسروں سے الگ کردیتا ہے بلکہ انہیں مزید نمایاں بھی کردیتا ہے ۔ ان کے لباس کا وہ حال نہیں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے لباس کا تھا یاپھر نواز شریف کے لباس کا ہے کہ ان کی پارٹیوں کا ہر شخص ویسا ہی لباس زیب تن کئے نظر آتا ہے۔ علامہ صاحب جو لباس پہنتے ہیں وہ انہیں کا خاصہ ہے اور انہیں سینکڑوں ہزاروں کے مجمع میں بھی الگ تھلگ دکھاتا ہے اور یہ الگ تھلگ رکھنے کی خواہش بعض مرتبہ انسان کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔
علامہ طاہرالقادری کی ان چار پانچ طاقتوں کو جوڑ دیا جائے تو وہ بھونچال آجاتاہے جو ان دنوں پاکستانی سیاست میں آیاہوا ہے۔پاکستانیوں کو یہ بھونچال مبارک!