سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یا رانہ بھی!

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یا رانہ بھی!
 سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یا رانہ بھی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سعودی حکمران خاندان غیر معمولی رفتار سے کن مقاصد کا حصول چاہ رہا ہے؟ خلیجی بادشاہتوں کو اصل خطرہ کس سے ہے؟ قطر کا زمینی، سمندری اور فضائی بائیکاٹ جی سی سی کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے؟ سب سے بڑھ کر ’’شیخ ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کا اس خطے میں قائدانہ کردار مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کو عرب بادشاہتوں کی دہلیز تک لانے کا سبب بن سکتا ہے؟عالم اسلام میں شیعہ اور سنی اسلام کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں، ایران اور عرب شیعہ تاریخی طور پر اپنا کردار بطور حزب اختلاف ادا کرتے آ ئے ہیں۔ امام خمینی کے انقلاب کے اگلے مرحلے کے طور پر انتقال انقلاب کے ایرانی فلسفے کو سعودی عرب اور اس کی حلیف سنی ریاستوں نے کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، درحقیقت اسی کشمکش کا نتیجہ تھا، جب پاکستانی معاشرہ کو بھی مذہبی عدم برداشت اور مسلکی نفرت کے عوامل نے تقسیم کر دیا۔ سعودی بادشاہت اور خلیجی ممالک نے طاقت کی بنیاد پر اپنے معاشروں میں اس تقسیم کو ایک خاص وقت تک کنٹرول میں رکھا اور ایران کے خلاف نفرت کو عرب سنیوں کی طاقت بنائے رکھا، مگر نسل درنسل بادشاہتوں کے بوجھ، آ زادانہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پر پابندیوں کا دیمک اندر ہی اندر انہیں چاٹتا رہا اور نتیجہ عرب سپرنگ کی صورت میں نکلا، تیونس کے علاوہ یہ بہار جہاں گئی، وہاں خزاں کی صورت اپنے پنجے ایسے گاڑ دےئے کہ ریاستی اتھارٹی کے نام کی کوئی شے اب موجود نہیں اور کچھ ملکوں میں موجود خاندانی بادشاہتیں مزید مضبوط اور مستحکم ہوکر سامنے آئیں۔ سعودی حکمران طبقوں کو اصل خطرہ اور پریشا نی اس منظر نامے سے ہے کہ اس سیلابِ بلانے اگر ان کے ملکوں کا رخ کر لیا توشاید خطے میں ان کا سب سے بڑا حامی امریکہ بھی رخ بدلنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ اوبامہ دور میں سعودی حکومت اس صورت حال سے پہلے بھی دوچار ہوچکی تھی جب امریکہ نے ایران کا عرب دنیا میں کردار تسلیم کرتے ہوئے، اس سے جوہری معاہدہ اور عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا تو آلِ سعود کو اپنے اقتداراور بادشاہت کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا اور انہوں نے فوری طور پر ترکی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران مخالف اسرائیل سے بھی رابطے شروع کردیئے، کنگ سلمان تبدیلی اور جمہوریت کے اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لئے دوسرے مرحلہ میں شاہی خاندان کے اندر اپنے اقتدار کی گرفت کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے پہلے انہوں نے شہزادہ مقرن کو ولی عہد کے عہدے سے برطرف کیا اور محمد بن نائف کو اپنا جانشین مقرر کیااور اب اپنے بیٹے محمد بن سلمان (MBS) کو ان کی جگہ پر لا بٹھایا ہے۔ گلو بل لیکس نے کچھ ای میلز کا ڈیٹا جاری کیا ہے، جس میں MBS کے ولی عہد بننے کے پیچھے ساری کہانی کو آ شکار کیا گیا ہے، کہانی کا خلاصہ یہ ہے، امارات کے امریکہ میں سفیر نے اسرائیلی تھنک ٹینک کے ساتھ مل کر ٹرمپ کے داماد سے لابنگ کی اور صدر ٹرمپ نے شہزادہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ سعودی شاہی خاندان کے معاملات میں واشنگٹن کا اس سطح تک اثر ورسوخ اور دلچسپی عربوں میں جمہوریت اور بادشاہت پر امریکی دوہرے معیار کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ عرب امارات کو نوجوان ولی عہد کئی حوالوں سے پسند ہیں، مثلاً یہ سعودی عرب کو ویژن 2030ء کے تحت معاشی اصلاحات کے ذریعے بدلنا چاہتے ہیں، ترقی میں دبئی انکا رول ماڈل ہے، تبدیلی اور جمہوریت سے خطرے کا مرض امارات کو بھی لا حق ہے اوروہ قطر کے حماس اور اخوان المسلمون سے روابط کو گلف میں بادشاہتوں کے لئے مسئلہ سمجھتے ہیں،امارات اور نئے ولی عہد محمد بن سلمان اس مشترکہ مسئلہ سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ایک خاموش سمجھو تہ رکھتے ہیں۔ خلیجی ممالک نے اس گٹھ جوڑ کے ایما پر سفارت کاری کو مو قع دیے بغیر قطر سے ہر طرح کے تعلقات توڑے ہیں، ٹرمپ اس بحران پر اس لئے خوش ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے جنگی تھیٹر کا آغاز ہونے جارہا ہے اور انہیں اُمید ہے کہ وہ غریب امریکی ریاستوں کے لو ہے کو اسلحہ کی شکل میں بیچنے کے انتخابی نعرہ کی تکمیل میں کامیاب ہورہے ہیں۔ امارات اس بحران سے کئی شکار کھیل رہا ہے ایک طرف قطر کو گھائل کر نے میں کامیاب ہوا ہے اور دوسری جانب حماس اور اخوان المسلون کا نام لے کر صدر السیسی سے بھی داد وصول کررہا ہے اور سعودی عرب میں ایک ایسے شخص کو ولی عہد بنانے کے خواب کو پورا کرنے کا موقع ملا ہے، جس سے اچھے ورکنگ ریلیشن قائم ہیں۔ سعودی عرب کو چونکہ امہ کا درد بھی لاحق ہے تو وہ قطر پر پابندیوں کے ذریعے ایران کو پیغام دے رہا ہے، حماس کا نام بطور دہشت گرد لے کر اسرائیل کو خوش کر رہا ہے اوراخوان المسلمون کے نظریے کو سعودی پورے خطے میں امریکہ نواز بادشاہتوں کے خلاف ’’ام الفساد‘‘ سمجھتے ہیں۔

یہ ہے وہ نیا مشرقِ وسطیٰ روڈ میپ جس میں کنگ سلمان اور صدر ٹرمپ نے مل کر اوبامہ دور کی پالیسی کو ’’رول بیک‘‘ کر نے کا پلان بنایا ہے، جس میں مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل اور اسرائیل سے بڑھتے ہوئے فاصلے تھے، ایران سے تعلقات کو نارمل پوزیشن پر لانا اورالقاعدہ وداعش کے معاملات پر سعودی عرب سے بڑھتی ہوئی تلخی تھی۔ گویا اب اوبامہ کی پالیسی کا پہیہ الٹ گھمانے کا پلان تیار ہے، شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے امریکہ کا دورہ کیا پھر ریاض سربراہی کانفرنس کے معاملات طے ہوئے اور پھر رقص تلوار کرکے ایران سے دشمنی کا عہد دہرایا گیا اور اب محمد بن سلمان کی قیادت میں جنگ کے شعلے خلیجی خطے میں بھڑ کانے کے منصوبہ پر عمل شروع ہوچکا ہے، سعو دی عرب اور امریکہ اس جنگ کو قطر تک پھیلانے کی فاش غلطی کررہے ہیں، کیونکہ خانہ جنگی کے شکار مشرقِ وسطیٰ کاسبق یہ ہے کہ یہاں ریاستی اتھارٹی اب اس طرح تبدیل نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ریاست ہی ختم ہوگئی تو خانہ جنگی کے شکار ملک میں بات چیت اور سفارتکاری کی میز پر کسے بٹھایا جائے گا؟ کیونکہ صدام تھا تو ریاستی اتھارٹی بھی تھی، قذافی کو ہٹایا گیا تو ریاستی اتھارٹی ماضی کا قصہ بن گئی، بشار الاسد موجود ہے، مگر ریاست کی اتھارٹی نام کی کوئی چیز نہیں، کیا یہ کھیل اب قطر اور ایران کے ساتھ کھیلنے کا پلان بھی ہے؟ اگر ایسی صورت حال بن گئی تو ترکی اور پاکستان کے لئے غیر جانبدار رہنا بہت مشکل ہوجائے گا، ترکی چونکہ ایک بہتر معیشت ہے اور اپنی اس پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر شاید اپنا وزن سعودی عرب مخالف پلڑے میں ڈال دے، مگر شاید پاکستان کے لئے اس صورت حال میں الگ تھلگ رہنے کا آپشن نہ بچے۔

مزید :

کالم -