شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 78

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 78
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 78

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معروف شاعر و صحافی منصور آفاق سے راقم کی دسمبر ۱۵ ء میں الحمرالاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی پیر صاحب کے علمی جہاد اور برطانوی مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے تحفظ کے لئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ 1974کے لگ بھگ جب برطانیہ کے محکمہ تعلیم نے لڑکیوں کے علیحدہ سکولوں کا سسٹم ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور مخلوط طریقہ تعلیم تو رائج کی مسلمان بچیوں کے جداگانہ تشخص کا سوال پیدا ہوگیا تھا۔ حضرت پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کی نگاہ دور رس کو فوراً اندازہ ہوگیا کہ صورت احوال مسلمان بچیوں کی تعلیم کے لیے قطعاً درست نہیں۔ انہیں سخت تشویش لاحق ہوئی۔ انہوں نے جمعیت تبلیغ الاسلام کے پلیٹ فارم پر اس سلسلہ میں جدوجہد کا آغاز کیا۔ برطانیہ کے مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ حکومت برطانیہ کا یہ فیصلہ درست نہیں ۔ کئی میٹنگز ہوئیں۔ عقل اور حقیقت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا گیا اور پھر حکومت برطانیہ کو مسلمانوں کی بے چینی کی معقول وجہ بتانے کے لیے چند تجاویز دی گئیں۔ اس سلسلہ میں مرکزی جمعیت تبلیغ الاسلام نے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں لکھا گیا۔

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اپنی جگہ پر یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر قوم اپنی جداگانہ تہذیب اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ چنانچہ مسلمان قوم بھی کسی خاص گھرانے یا قبیلے میں پیدا ہونے والے افرادکا نام نہیں ہے بلکہ اس قوم کا نام ہے جو دائرہ اسلا م میں داخل ہو کر ایک جداگانہ تہذیب ایک مخصوص ضابطہ اخلاق اور ایک منفرد طریقہ زندگی اپنا لینے کے بعد تشکیل پاتی ہے۔
اسلام نے جہاں ایک جداگانہ طریقہ عبادت کی تعلیم دی ہے وہاں اس نے ہمیں مخصوص نظام معاشرت بھی عطاکیا ہے جس کے ذریعہ ہم زندگی گزارنے کے طریقے، انفرادی سیرت و کردار کے آداب، سوسائٹی کے حقوق، خاندانی زندگی کے ضابطے، مرد و زن کے تعلقات اور اہل و عیال کی پرورش و پرواخت کی ذمہ داریوں سے واقف ہوتے ہیں۔
نا محرم مردوں سے نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کا پردہ بھی اسی نظام معاشرت کا ایک قانون ہے جو اسلام نے ہم پر نافذ کیا ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اس کی پابندی ناگزیر ہے اور مذہبی کمزوریوں کے باوجود آج بھی دوسری قوموں کے درمیان پردے کا یہ سسٹم مسلم معاشرے کی ایک واضح علامت سمجھا جاتا ہے۔ یگانہ مرد و زن کی مخلوط سوسائٹی کو وہ اسلام کیونکر برداشت کرے گا جو خاندان کے ان ممبروں سے بھی اپنی عورتوں کو پردہ کراتا ہے جو رشتہ کے اعتبار سے محرم نہیں ہیں۔ جذباتی کمزوریوں کی آرائش سے معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کا یہ قانون فطرت انسانی کے گہرے مطالعہ کا آئینہ دار ہے۔ اس سے برطانیہ کے مسلمانوں میں مخلوط تعلیم کے خلاف اگر بے چینی ہے تو بجا طورپر انہیں اپنی بے چینی کا حق پہنچتا ہے کہ بیگانہ لڑکوں کے ساتھ وہ اپنی لڑکیوں کے اختلاط اپنی قومی تہذیب اور اپنے مذہب کی ہدایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اخلاقی نقطۂ نظر سے بھی اگر ہم مخلوط تعلیم کے نتائج کا جائزہ لیں تو واقعات کی روشنی میں یہ مخلوط تعلیم گاہوں کی جنسی بے راہ روی، شہوانی تحریکات اور آزادانہ معاشقے کے لیے ایک سازگار ماحول کتنا زیادہ پسند کریں گے۔ اس لیے کہ مخلوط تعلیم کے ذریعے انسانی ذات کو حیوانوں کی سرشت اختیار کرنے پر مجبور کرنا انسانیت کی کھلی توہین ہے۔ اس مسئلہ میں دوسری قوموں کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک غیرت مند مسلمان کبھی ایسے گوارا نہیں کر سکتا کہ اس کی بچی کو ایک حیا سوز ماحول میں چند لمحوں کے لیے بھی داخل کیاجائے۔ غالباً اسی غیرت قومی کا ثبوت دیا ہے اس مرد مومن نے جس نے صرف اس لیے برطانیہ کو خیر آباد کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی بچی کو شرم و حیا کے مقتل میں بھیج کر زندہ درگو نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے مثالی کردار کے ذریعہ یہاں کے مسلمانوں کے لیے جو نقش چھوڑ گیا ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری قومی غیرت کو ضرور بیدار کرے گا۔ آخر میں حکومت برطانیہ کے دانشوروں کی توجہ ہم اس نکتہ کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ پاک و ہند کے مسلمانوں کا قومی اور مذہبی مزاج ان سے مخفی نہیں ہے۔ ایک طویل عرصہ تک انہیں ہمارے قریب رہ کر ہمیں سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ اپنے دیرینہ تجربات کی روشنی میں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں لڑکیوں کی تربیت اور ان کے رہن سہن کا مسئلہ کیا ہے۔اس لیے اپنے ملک میں ایک معزز شہری کی حیثیت سے انہوں نے جن مسلمانوں کو رہنے کی اجازت دی ہے ہمیں امید ہے کہ وہ ان پر کوئی ایسی شرط مسلط نہیں کریں گے جس سے ان کے قومی اور مذہبی جذبہ کو ٹھیس پہنچے اور وہ مجبور ہو کر یہاں سے فرار کر راستہ اختیار کریں ، پاک و ہند میں آج بھی انگلستان کے جو شہر آباد ہیں۔ انہیں جبری قانون کے ذریعہ اس کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنی قومی تہذیب اور اپنی مذہبی روایات سے دستبردارہو جائیں۔ اس پہ ہم امید کرتے ہیں کہ برطانیہ کے وسیع فرماں روا مخلوط تعلیم کے مسئلہ کو اس رخ سے اگر جائزہ لیں کہ اسے نفاذ کرنے سے ایک قوم کی تہذیبی رورایت مجروح ہوتی ہے توہمیں یقین ہے کہ ہماری دشواریوں کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ آخر آج سے چند سال قبل سکھوں کی پگڑی کے خلاف حکومت برطانیہ نے جو سرکلر جاری کیا تھا، وہ صرف اس بنیاد پر واپس لیا گیا کہ اس سے ایک قوم کے مذہبی جذبہ کو ٹھیس لگتی تھی۔ مخلوط تعلیم کے سوال پر برطانیہ کے مسلمانوں کے بے چینیوں کے ازالے کے لیے چند تجاویز مرکزی جمعیت تبلیغ الاسلام بریڈ فورڈ کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں اگر ان میں سے کوئی قابل قبول ہو تو ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ اس پر غور کیا جائے۔
۱۔ مخلوط تعلیم کے بجائے لڑکیوں کی جداگانہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے جیسا کہ عہد قدیم سے آج تک کا سسٹم چلا آرہا ہے۔
۲۔ اگر یہ تجویز قابل قبول نہ ہو تو مسلمانوں کو اپنی لڑکیوں کا علیحدہ سکول کھولنے کے لیے معقول گرانٹ دی جائے۔
پیر سید معروف حسین شاہ عارف نوشاہی کے زیر سرپرستی پیش کی جانے والی دوسری تجویز کو حکومت برطانیہ نے اخلاقی طور پر تسلیم کر لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں مسلمان لڑکیوں کے علیحدہ سکول کے بننے کا عمل اس تجویز کے بہت دیر بعد سامنے آیا لیکن الحمد اللہ اس وقت برطانیہ میں مسلمان لڑکیوں کے لیے علیحدہ سکول موجود ہے۔
پیر سید معروف حسین شاہ عار ف نوشاہی نے برطانیہ کے قیام کے دوران ایک بات کو خاص طور پر محسوس کیا کہ ہمارے پاس تبلیغ اسلام کا وہ نظام موجود نہیں ہے جو غیر مسلموں میں اسلام پھیلانے کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔ کیونکہ عربی درسگاہوں سے عام طورپرجو علمائے کرام فارغ ہوتے ہیں انہیں دنیا کی دوسری زبانیں نہیں آتیں کہ وہ دوسری قوم کے ساتھ افہام و تفہیم کا رابطہ قائم کر سکیں اور انگریزی کالجوں اوریونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ افراد، اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری زبانوں پر بھرپور قدرت رکھتے ہیں مگر ان کے پاس دین کا اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ اسکی صحیح اندز میں وکالت کر سکیں۔ سو پیر صاحب نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں علمائے اسلام کو بین الاقوامی زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں لسانی تربیت دی جائے اور اس قابل بنایا کہ وہ غیر مسلم اقوام میں دین اسلام کے فروغ کیلئے کام کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتمام اسلامک مشنری کالج کا قیام پیر صاحب کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ 14اگست1974ء اس کالج کا افتتاح ہوا۔ کویت کے الشیخ محمد سلیمان نے اس کا افتتاح کیا اس سے پہلے کہیں بھی اس طرح کا کوئی ادارہ اور پھر خاص طور پر یورپ میں ایسے کسی ادارے کے قیام کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن پیر صاحب کی کوشش اور بے پناہ جدوجہدنے اس مشکل ترین کام کو ممکن بنا دیا۔ اس مقصد کے لیے بریڈفورڈ میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے بالکل سامنے پتھر کی ایک عمارت چالیس ہزار پونڈ میں خرید لی گئی۔ جس میں اٹھارہ چھوٹے بڑے کمروں کے علاوہ دو وسیع ترین ہال بھی موجود ہیں اور اس میں داخل ہونے والے طالب علموں کے متعلق یہ طے کیا گیا کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے صرف وہی مسلم طلبہ کالج میں داخل کئے جائیں گے جو صحت، ذہانت، دیانتداری، طبعی اوصاف، اخلاقی محاسن اورعمل و تقوی کے اعتبار سے کالج کے مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں۔ کالج کی طرف سے طلبہ کو رہائش ، علاج اور درسی کتب کی سہولتوں کے علاوہ حسب استطاعت وظائف دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
اسلامک مشنری کالج کے اغراض و مقاصد میں دو بنیادی باتیں رکھی گئیں۔ ایک یہ کہ جدید عربی، انگریزی، فرنچ ، ڈچ اور دنیا کی دوسری لٹریری زبانوں میں علمائے اسلام کو تحریر و تقریر کی تربیت دینااور انہیں دعوت و تبلیغ کے فکری اور عملی وسائل سے مسلح کرکے اس قابل بنانا کہ وہ غیر مسلم اقوام میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دے سکیں اور دوسری بات یہ رکھی گئی کہ افریقہ، یورپ اور امریکہ کی مسلم آبادیوں میں دینی تعلیم کے مراکز قائم کرنا اور ماحول کی ضرورت کے مطابق ہر ملک کے لیے دینی تعلیم کا ایسا نصاب تیارکرنا جو وہاں کے مسلمان بچوں اورنوجوانوں کو اسلام سے مربوط رکھ سکیں۔
تعلیمی نظام میں دو طرح کے نصاب پڑھائے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلانصاب تعلیم ان ملکوں میں رہنے والے مسلمان بچوں کے لیے تھا۔ جہاں پانچ سال سے لے کر سولہ سال کی عمر تک جبری تعلیم کا قانون نافذہے۔ یہ یومیہ دو گھنٹے کا پارٹ ٹائم کورس ہوگا۔ جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دس سال میں مکمل ہوگا۔ دوسرا نصاب تعلیم جسے کالج لیول کا نصاب کہا جائے گا ان علماء کے لیے ہوگا جو کسی بھی مستند عربی دارالعلوم سے درجہ فضیلت پاس کر چکے ہوں گے۔اس کورس کو مرحلہ تحقیق (ڈاکٹریٹ آف فلاسفی) کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کا کورس عربی، انگریزی، فرنچ اور ڈچ زبان سے کسی ایک زبان میں تین سال کے اندر مکمل کیا جاسکے گا۔ یہ کورس پانچ فیکلٹیز پر مشتمل ہوگا۔ فیکلٹی آف اسلامک مشنری لٹریچر، فکلیٹی آف اسلامک مشنری آرٹ، فیکلٹی آف اسلامک مشنری سائنس، فیکلٹی آف اسلامک مشنری فلاسفی، فیکلٹی آف اسلامک مشنری ایڈمنسٹریشن۔ ہر فیکلٹی کے طالب علم کے لیے اختیاری مضامین کے علاوہ نو عدد لازمی مضامین بھی ہونگے۔
۱۔ لندن یونیورسٹی کا او لیول اور اے لیول کورس
۲۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں کتابوں اور مضامین کے ترجمے۔
۳۔ مختلف مضوعات پر انشا برداری و مضمون نگاری
۴۔ مختلف عنوانات پر برجستہ تقریروں کی مشق
۵۔ زندگی میں پیش آنے والے مسئلے پر بحث و مذاکرہ
۶۔ دنیا کے مختلف ادیان و تحریکات کا تقابلی مطالعہ
۷۔ تبلیغی ، تنظیمی اور انتظامی امور کی عملی مشق
۸۔ تربیتی سفر اور نئے ماحول کو متاثر کرنے کا تجربہ
۹۔ معلومات عامہ اور مشاہدہ
اسلامک مشنری کالج کے زیر اہتمام دینی تربیتی کیمپ بھی لگاتے جاتے تھے۔ اس سلسلہ میں پیر صاحب نے بریڈ فورڈمیں چالیس روزہ دینی تربیتی کیمپ کا اہتمام کرایا۔ ان تربیتی کیمپوں کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ یورپ کے جن ممالک میں مسلمان رہتے ہیں وہاں کی سوسائٹی مسلمان بچوں اور نوجوانوں کے لیے بہت تباہ کن ہے سو اس بات کی ضرورت تھی کہ نئی نسل کو فکری اور اخلاقی طور پر اسلا م کے ساتھ مربوط رکھا جائے۔ اس لیے انہوں نے چالیس روزہ دینی تربیتی کیمپ کا اہتمام کیا کہ نوجوان چالیس دن ایسی روحانی اور فکری تربیت گاہ میں گزاریں جہاں باہر کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ وہ خالص دینی ماحول کا اثر آسانی سے قبول کر لیں۔ ان چالیس دنوں میں علمی اور عملی طریقوں سے انہیں دینی زندگی سے اس قدر مانوس کردیا جائے کہ وہ ناساز گار ماحول میں بھی اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھ سکیں اس سلسلے میں جو کورس ترتیب دیا گیا ۔ وہ اسلامی انداز کی شخصیت کی تعمیر کے لئے بہت جامع اور بنیادی تھا۔(جاری ہے)

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں