سرکاری گندم کو کیڑوں کی خوراک نہ بنائیں

سرکاری گندم کو کیڑوں کی خوراک نہ بنائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آٹے کا بیس کلو کا تھیلہ 810روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ چینی کی قیمت 72روپے فی کلو ہوگئی ہے اور خوردنی تیل کا ایک کلو کا پاؤچ دوسو پندرہ روپے سے بھی زائد قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے آٹے کی قیمت میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے، اضافے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لاہور کی غلہ منڈیوں میں 40کلو گندم کی قیمت 1420روپے ہے، حکومت اگر آٹے کی قیمت مستحکم رکھنا چاہتی ہے تو فلور ملوں کو سرکاری نرخ پر گندم مہیا کی جائے، اگر مل مالکان کو بازار سے گندم خرید کر آٹا بنانا پڑا تو جوں جوں کھلی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھے گی اسی حساب سے آٹے کی قیمت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ گندم سے تیار ہونے والی دوسری مصنوعات یعنی میدہ اور سوجی وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، جس کی وجہ سے بیکری کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ نانبائیوں نے نان اور روٹی کی قیمت بھی بڑھا دی ہے ان کا موقف ہے کہ آٹے کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنوروں میں استعمال ہونے والی گیس کے نرخ بھی بڑھ چکے ہیں۔ اس لئے نان اور روٹی کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔ سونے کی قیمت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ایک تولہ سونے کی قیمت جمعہ کے روز 78100روپیہ تھی، ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.31فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سیزن کی گندم مارکیٹ میں آئے ابھی زیادہ مدت نہیں گزری، حال ہی میں گندم کی سرکاری خریداری مکمل ہوئی ہے اور پنجاب حکومت نے اپنے اعلان کے مطابق گندم کا ”دانہ دانہ“ خریدا ہے، ایک اندازہ یہ ہے کہ ملک بھر میں 78لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے باوجود آٹا نہ تو مناسب نرخوں پر شہریوں کو دستیاب ہے اور نہ ہی اس کے نرخ مستحکم ہیں اور فلور مل مالکان واضح کر چکے ہیں کہ اگر انہیں بازار سے گندم خرید کر آٹا بنانا پڑا تو یہ مزید مہنگا ہوگا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے گندم کے ذخائر آخر کس مقصد کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک پچھلے دو یا تین سیزنوں کی گندم بھی گوداموں میں موجود ہے اور نئی فصل کی گندم آنے کے بعد ذخیرہ کرنے کا بھی مناسب انتظام نہیں، گندم کے گودام ضرورت کے مقابلے میں تھوڑے ہیں اور باقی ماندہ گندم کھلے آسمان تلے محض ترپال ڈال کر ذخیرہ کی جاتی ہے جو بارشوں سے خراب بھی ہوتی رہتی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے ماہ کی 20 تاریخ کو مون سون شروع ہو رہا ہے، پورے ایک مہینے (20جولائی سے 20اگست) تک شدید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہے کہ کھلے آسمان تلے پڑی ہوئی سرکاری گندم کو جلد از جلد فلور ملوں کو فروخت کر دیا جائے تاکہ وہ اس گندم کو پیس کر آٹا مارکیٹ میں سپلائی کرسکیں۔ سرکاری محکموں کی بے تدبیری کے باعث گوداموں میں پڑی ہوئی گندم یا تو کیڑوں کی خوراک بن جاتی ہے یا پھر خراب موسم میں ناقابل استعمال ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بہتر تو یہی ہے کہ سرکاری نرخ پر گندم مل مالکان کو دے کر آٹے کی قیمتیں مستحکم کی جائیں، لیکن ناقابل فہم وجوہ کی بنا پر حکومت ایسا نہیں کر رہی، گویا اس کے نزدیک گندم خراب ہوتی ہے تو ہوتی رہے، اسے کیڑا لگتا ہے تو لگتا رہے، لیکن فلور مل مالکان کو گندم فروخت نہیں کرنی کہ کہیں آٹا سستا نہ ہو جائے، حکومت کو اس سلسلے میں ایسی قابل عمل پالیسی بنانی چاہئے جس سے غریب عوام کو ریلیف ملے اور اشیائے خوراک غریبوں کی پہنچ کے اندر رہیں۔
آٹا ہر غریب امیر کی بنیادی ضرورت ہے، امیروں کو اس سے زیادہ فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ وہ آٹے سے زیادہ مہنگی اشیا اپنی خوراک میں شامل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن جو غریب مزدور چند سو روپے روزانہ کماتا ہے اسے تو اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے روکھی سوکھی ہی کھانی پڑتی ہے۔ اگر وہ بھی بارہ روپے کا ایک نان خریدنے پر مجبور ہوگا تو اس کے مسائل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن حکومت کی مہنگائی پر سرے سے توجہ ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان تین ہفتوں میں تین مرتبہ اپنے نشری پیغامات کے ذریعے یہ اپیل کر چکے ہیں کہ لوگ اپنے اثاثے ڈکلیر کریں، ورنہ ہمارے پاس ڈیٹا آگیا ہے۔ 30جون کے بعد کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ تڑی لگانے کا یہ انداز وزیراعظم سے نیچے تک بھی منتقل ہو رہا ہے اور جو صاحب ”لاٹری“ کے ذریعے سرکاری ریونیو اکٹھا کرنے پر مامور ہوئے ہیں اور زندگی میں پہلی دفعہ جنہیں افسری کا دم چھلا لگا ہے وہ بھی ٹیکس گزاروں کو تقریروں کے ذریعے ڈرا، دھمکا رہے ہیں ان کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ خود انہوں نے تین سال سے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کی، یعنی خود نان فائلر ہیں اور باقی پورے ملک کو فائلر بنانے نکلے ہیں، تضاد ملاحظہ فرمائیں کہ لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ٹیکس چوری روکنے میں معاونت کریں، لوگ تو معاونت کرنے کے لئے تیار ہیں یہ تو ٹیکس حکام ہیں جو چوری میں ملوث ہوتے ہیں۔ آج ہی کے اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے کہ ایک مرلے کی دکان کے مالک کو آٹھ مرلے کے حساب سے ٹیکس نوٹس بھیج دیا گیا، ایسے نوٹس عموماً لوگوں کو خوفزدہ کرنے یا پھر سودے بازی کے لئے بھیجے جاتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کا ٹیکس تو زیادہ بنتا ہے تاہم اگر وہ متعلقہ افسر سے سودے بازی کر لیں تو یہ کم ہوسکتا ہے۔ عموماً ایسی سودے بازیاں ہو بھی جاتی ہیں۔ اور یہی وہ ٹیکس چوری ہے جو حکام کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتی، ایف بی آر کے نئے چیئرمین کو جو کام کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ ٹیکس حکام کو دیانتداری سے ٹیکس اکٹھا کرنے پر لگائیں اور ٹیکس چوری روکیں، لیکن یہ مشکل بلکہ بڑی حد تک ناممکن کام تو وہ کر نہیں رہے، البتہ شہریوں کا ڈیٹا ویب پر ڈال دیا ہے کہ وہ پانچ سو روپے خرچ کرکے معلوم کرلیں کہ ان کے ”اثاثے“ کہاں کہاں ہیں، رواں مالی سال میں ٹیکس کا نظرثانی شدہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوا، حکومت نے ٹیکس مشینری کی اصلاح کئے بغیر اگلے سال کے لئے ہدف 5555ارب رکھ دیا ہے اور اب وزیراعظم سے لے کر نیچے تک حکام لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ ایسے میں مہنگائی بے لگام ہو چکی اور آٹا مہنگا ہو رہاہے جو دوسری اشیا کو بھی لپیٹ میں لے گا، ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ سرکاری گوداموں سے گندم فلور مل مالکان کو جاری کی جائے، اس سے پہلے کہ یہ کیڑوں کی خوراک بنے کیونکہ گندم ذخیرہ کرنے کا طریقہ بڑی حد تک ناقص اور دقیانوسی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -