بلاول کا تازہ بیانیہ
سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے حوالے سے نواب شاہ میں ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسہ ئ عام میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر نے بہت کچھ واضح کر دیا، بہت لوگوں کو خوشی اور اکثر کو مایوسی ہوئی۔ محترم آصف علی زرداری اور بلاول کو شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ کتنے دِل ٹوٹے، کتنی آنکھوں سے آنسو بہے اور کتنے لوگوں نے دم سادھ کر کہا ”الوداع اے دخترمشرق الوداع“ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک دوست نے فون کیا،رندھی ہوئی آواز میں بولے! کیا محترمہ کو اسی لئے شہید کیا گیا،اور کیا شہید نے خبردار اور منع کرنے کے باوجود لیاقت باغ جا کر جان دی تھی کہ پیپلزپارٹی بالآخر عوام کو چھوڑ کر والد اور پھوپھو کے لئے جدوجہد کرے، میرے پاس اِس سوال کا جواب نہیں تھا،مَیں خود حیران تھا، کہ بلاول نے اس جلسہ ئ عام میں سب پردے ہٹا دیئے اور بہت ہی کھل کر اپنے والد کی حمایت اور پیروی کی، کھلے الفاظ میں ان کی رہائی کی بات کی اور واضح کر دیا کہ اس صورت میں وہ جدوجہد کی جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔جیالوں کو پریشانی ہوئی تو اس تحریر سے دوستوں کو تکلیف بھی ہو گی، ان کے پاس دلائل بھی ہیں،لیکن حقیقت کو تو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد اور والدین کا رشتہ سب سے بڑا ہے اور اگر دونوں بقید حیات ہوں تو پھر کبھی ممکن ہے کہ اولاد کا رجحان کسی ایک طرف زیادہ ہو،لیکن اگر ہر دو میں سے ایک اللہ کو پیارا ہو جائے اور ایک ہی دُنیا میں ہو تو پھر اولاد کے لئے کوئی دوسری ترجیح نہیں رہتی، چنانچہ بلاول، بختاور اور آصفہ کے لئے بھی سب کچھ ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری ہی ہیں اور نواب شاہ کے جلسہ میں بلاول ایک فرمانبردار بیٹے ہی نظر آئے ہیں،اب اگر جدوجہد وہ بھی عوامی جدوجہد کے منتظر بی بی کے ماننے اور ان کی پیروی کرنے والوں کو مایوسی ہوئی تو صبر کریں، ایسے حضرات سے زرداری سب پہ بھاری کے نعرہ والوں کا سوال ہے کیا بلاول اور پارٹی بھائی بہن کو چھوڑ دے اور سب الزام قبول کر لے؟
اس حوالے سے میرے اپنے خیالات بہت سی معلومات اور بھٹو سے بے نظیر تک رپورٹنگ کے حوالے سے بھی ہیں،لیکن مَیں ذکر سے گریز کروں گا کہ پریشانی میں سچی بات بھی زہر اور برائی لگتی ہے۔وقت آہی جائے گا جب ایسی معلومات اپنے قارئین کے ساتھ ”شیئر“ کر ہی لوں گا۔ فی الحال تو مَیں حاکمانِ وقت سے گذارش کروں گا کہ ذاتیات کو ترک کریں،گالی سے گریز کریں،سب کچھ قانون اور آئین کے حوالے کریں،ملک میں سیاسی ماحول کو صاف ستھرا بنائیں،جلد ہی دودھ اور پانی الگ ہو جائیں گے،احتساب لازم ہے،لیکن یہ بلاامتیاز ہونا چاہئے، آخر یہ روایت کیوں نہیں بدلتی کہ جو آپ کے ساتھ ہو وہ صاف و شفاف اور جو مخالف اور تائب نہ ہو وہ قابل گردن زدنی، محترم کپتان صاحب! معروضی حالات میں آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں کہ ”طاقت کوریڈور“ آپ کے ساتھ اور آپ کے حمایتی ہیں،پھر آپ کو خدشہ کیوں؟
آپ بہادری کے دعویدار ہیں تو ڈٹ بھی جایئے اور ان سب کو بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے دیں جو آپ کے سایہ عاطفت میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں،آپ خود بھی اپنی اداؤں پر غور کریں اور ماضی میں جن کے بارے میں جو کچھ کہتے اور ثبوت پیش کرتے رہے ہیں، یا تو وہ سب قانون کی عملداری میں دے کر عدالتوں کے حوالے کر دیں یا پھر معذرت کریں کہ آپ پہلے غلط تھے!عوام تو ایک ریوڑ کی حیثیت اختیار کر گئے جو آتا ان کو ہانکتا رہتا اور ایک چھڑی سے ان کے رُخ تبدیل کرتا رہتا،ان کی نہ آپ کو نہ آپ کے مخالفوں کو کوئی فکر ہے، سب”توں اپنی نبیر تینوں کسے نال کیہہ“ کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں،تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں، ایک بار پھر معذرت کہ ناراض کر لینے والی باتیں لکھ دیں،یہ میری پرانی عادت ہے، دوستوں سے شکوہ سننے کو بھی تیار ہوں۔
لکھنا تو ایک بہت اہم عوامی تکلیف اور پریشانی کے حوالے سے تھا کہ ٹیلی فون کال نے سب منتشر کر دیا اور رو اس طرف بہک گئی، کسلمندی ہے، نیند پوری نہیں ہوئی کہ بجلی فجر کے وقت سے غائب ہوئی جو(اطلاع کے مطابق) تاحال واپس تشریف نہیں لائی۔ مَیں تو دفتر آ گیا کہ یہاں اس کا بھی علاج ہے اور جب بجلی دھوکا دیتی تو جنریٹر سہولت بہم پہنچا دیتا ہے، اچھا بھلا سوئے تھے، صبح چار بجے الارم بجا،نیند کھلی الارم بند کیا،سوچا دو چار منٹ میں اُٹھ کر معمول شروع کرتا ہوں کہ پھر آنکھ لگ گئی،جب دوبارہ آنکھ کھلی تو بُڑ بُڑا گیا کہ پانچ بج چکے اور فجر قضا ہو گئی تھی، سر پکڑ کر بیٹھ گیا، اللہ سے معافی طلب کی اور سوچا چلیں، سیر صبح کا وظیفہ تو پورا کر لیں،ابھی جوتی پہنی تھی کہ بجلی چلی گی۔
اندھیرا ہو گیا،خیال کیا کہ یو پی ایس تو چلے گا، لیکن اندازہ نہیں تھا کہ بجلی تو پہلے سے بند اور پنکھا یو پی ایس کے سہارے ہی چل رہا تھا، بس پھر کیا، ہم اور ہمارا موبائل تھے، مصطفےٰ ٹاؤن سب ڈویژن کے پی ٹی سی ایل نمبر سے موبائل فونوں، ایس ڈی او اور ایگزیکٹو انجینئر صاحب کے نمبر تک فون کر کے یہ اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کی کہ ماجرا کیا اور بجلی کب تک لوٹ آئے گی،لیکن مایوسی ہوئی اور پھر جھنجھلاہٹ کہ پی ٹی سی ایل نمبر پر گھنٹی بجتی جواب نہیں ملتا تھا، موبائل نمبر دونوں بند تھے، ایس ڈی او اور ایگزیکٹو انجینئر صاحب کے نمبروں پر گھنٹی بجتی وہ ڈس کنیکٹ کر دیئے جاتے۔
یوں فشار خون اوپر نیچے ہونا شروع ہوا، بڑی مشکل سے ایک کارکن کا نمبر یاد کر کے ڈائل کیا اس نے مہربانی کی فون وصول کر لیا، جب استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا، نقص نہیں مل رہا، کارکن کام کر رہے ہیں،دُعا کریں جلد پتہ چل جائے تو بجلی بحال ہو، تو قارئین یہ پہلا رابطہ تھا اس کے بعد اسی طرح ایک بار ایس ڈی او صاحب کے نمبر سے رابطہ ہو گیا تو انہوں نے بڑی مہربانی سے یہ بتایا کہ آدھ پون گھنٹے تک بجلی بحال ہو جائے گی،لیکن ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہی ہوا بجلی کے ساتھ پانی بھی غائب تھا اِس لئے ٹینکی کے دھوپ سے گرم پانی ہی سے نہانا پڑا،دس بجے تک بھی بات نہ بنی تو ناشتہ کیا اور دفتر آ گئے کہ یہاں متبادل تو ہے۔
یہ صورتِ حال عجیب ہے۔ دُنیا چاند پر ہم بجلی کی لائن پر نقص نہیں تلاش کر پاتے، ترقی یافتہ ممالک میں گرڈ سٹیشن آٹو میٹک، کمپیوٹرائزاڈ ہیں، ایسا نقص ہو تو کمپیوٹر اس مقام کی نشاندہی کر دیتا ہے اور نقص جلد دور ہو جاتا ہے،یہاں بھی خود کار نظام ہے،لیکن یہ صرف بجلی بند کرنے اور پھر سے اسے چالو کرنے تک محدود ہے، نقص کے لئے سب ڈویژن کے لائن مین پورے علاقے کا سروے کرتے ہیں،اور یوں تاخیر بھی ہوتی۔یوں بھی یہ سب نقائص معمول کی بات اور پرانے ترسیلی نظام کی وجہ سے ہیں،اس نظام کی تبدیلی کے لئے مختص فنڈ کہاں اور کیسے خرچ ہوتے ہیں،کچھ علم نہیں،یہ مسائل چلتے چلے جا رہے ہیں،بڑھتی بجلی کی قیمت اور ہزاروں کے بل بھی مداوا نہیں کرتے،اس وقت دوپہر کے بارہ بج کر45منٹ ہوئے، مجھے نہیں معلوم کہ گھر والے فیڈر کی بجلی بحال ہوئی کہ نہیں، پوچھ کر آخری سطر قلمبند کرتا ہوں اب تو ایک بج گیا، بچوں سے پوچھا بجلی بحال نہیں ہوئی،فون سب بند،مصروف ہیں، کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔