قلندر کی ہار میں کس کا کردار؟
پاکستان سپر لیگ ان دنوں ابو ظہبی میں زور شور سے جاری ہے پلے آف کے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے ملتان سلطان نے فائنل کے لئے کوالیفائی کر لیا ہے جبکہ اسلام آباد اور پشاور میں سے کسی ایک ٹیم کا فائنل کھیلنے کا فیصلہ گزشتہ رات ہو گیا ہے۔پی ایس ایل کے آغاز سے جس ٹیم نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ ٹیم لاہور قلندر کی تھی مگر حیران کن طور پر سب سے پہلے قیمتی دس پوائنٹ حاصل کرنے کے بعد اس طرح اس کی ابو ظہبی سے وطن واپسی ہو گی اس کا اندازہ نہیں تھا۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ایک میچ پر پلے آف جیسے مرحلے میں رسائی کی امیدیں لاگنے والے اس بات کا اندازہ نا لاگا سکے کہ سرفراز الیون کی ٹیم اپنے اہم کھلاڑیوں کے بغیر باقی کے میچز کھیل رہی تھی جس کی وجہ سے پورے ملک کو اس ٹیم سے کوئی امیدیں بھی وابستہ نہیں تھیں البتہ لاہور قلندر نے ایک بار پھر سے مایوس کیااہم میچز میں لاہور قلندرز اپنی غیر ذمہ دارانہ پرفارمنس کے سبب باہر ہو گئے اس کے لئے کسی ایک ٹیم کے میچ پر انحصار کرنا ٹیم مینجمنٹ یا کپتان کو زیب نہیں دیتا۔لاہور قلندر ز کی ہار میں بہت سی وجوہات ہیں پہلے نمبر پر کپتان کے لئے سہیل اختر بالکل بھی موزوں ثابت نہیں ہو رہے اگر محمد حفیظ ٹیم میں موجود ہیں تو پھر سہیل اختر بطور کپتان ٹیم میں نہیں ہونے چاہئے۔
سہیل اختر کو کپتان بنانے کے چکر نے بھی ٹیم کو نقصان پہنچایا ہے،دوسرا ٹیم میں مستقل مزاجی نہیں دیکھنے میں آرہی ٹیم اپنی جیت کے تسلسل کو بر قرار نہیں رکھ پا رہی۔جیتے جتائے میچز ہارنے کے بعد آپ پھر گھر کی پروز کی پکڑ سکتے ہیں۔تیسرا سب سے اہم اور وہ یہ کہ عاقب جاوید لاہور قلندر کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں انہیں اسی عہدے پر قائم رکھیں یا نا رکھیں البتہ ٹیم کے لئے کوچز کا انتظام کیا جائے۔کیونکہ عاقب جاوید لاہور قلندر کے جن پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں کوچ کا اضافی چارج دینے سے ٹیم کی کار کردگی کا گراف انتہائی نیچے جا رہا ہے۔حالانکہ عاقب جاوید کی محنت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن انہیں صرف وہ پراجیکٹ دیئے جائیں جو پاکستان کے لئے مستقبل میں کام آسکیں یا ایسے پلیئرز مہیا کئے جائیں جن پر ان کی انتھک محنت رائیگاں نا جائے۔اس کے ساتھلاہور قلندر ز کے اونرز کو اس بات کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ لاہور قلندرز کا نام تبدیل کر کے لاہور لائنز،لاہور شاہین،لاہور شوٹرز یا پھر کچھ اور رکھ دینے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ پچھلے چھ سالوں سے آپ ایک ہی طرز کی کرکٹ پر فوکس کئے ہوئے ہیں اگر آپ ٹیم میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں یا جیتنے کی لالچ ہے تو پھر اس طرف توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب پی ایس ایل میں لاہور اور کوئٹہ کے علاوہ تمام ٹیموں نے حیران کن طور پر اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے اسلام آباد یونائٹڈ نے جس قسم کی پرفارمنس دی وہ قابل ستائش ہے۔کولن منرو،عثمان خواجہ جیسے بلے بازوں کی موجودگی میں ان کی بیٹنگ سائیڈ خاصی مظبوط ہو گئی ہے ملتان سلطان کی جیت میں ٹاپ سکوررمیں دوسرے نمبر پر براجمان محمدرضوان، شان مسعود،صہیب مقصود،ریلی روسو اور ٹاپ باؤلرز میں پہلے نمبر پر موجود شاہ نواز دھانی جیسے اہم کھلاڑی موجود ہیں کراچی کنگ اس وقت اپنی اس پرفارمنس کا مظاہر ہ نہیں کر سکی جس کی شائقین کو اس سے توقع تھی بابر اعظم،گپٹل،شرجیل خان،محمد عامر جیسے بڑے نام بھی بڑی مشکل سے پلے آف میں اپنی ٹیم کوشامل کر سکے ہیں۔جبکہ پشاور زلمی بھی بڑے نام رکھنے کے باوجودابھی تک ٹورنامنٹ کی ٹاپ 2 میں شامل نا ہو سکی۔لیکن ایک بات یہ ہے کہ ساری ٹیموں میں ملتان سلطان اور اسلام آباد یونائٹڈ جیت کا عزم لے کر اس ٹورنامنٹ میں ایسے کھیلیں ہیں کہ انہیں پاور پلے میں رسائی کے لئے کسی ٹیم پر بھروسہ نہیں کرنا پڑا۔اس ٹورنامنٹ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے دورے کے لئے روانہ ہونا ہے جہاں انہیں ٹیسٹ،ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچز کھیلنا ہیں لیکن میرا اایک اہم سوال سلیکشن کمیٹی سے ہے کہ اگر آپ سجھتے ہیں کہ ٹیم میں نئے کھالڑی شامل کر کے ٹیم کو نیا خون میسر آجائیگا تو یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب آپ اس نئے اور جوشیلے خون کو استعمال نہیں کریں گے انگلینڈ کے لئے جانے والے کھلاڑیوں میں اگر آپ ایک مکمل سیریز نئے کھلاڑیوں کو بھی کھلا دیں تو اس سے ان کے تجربے میں اضافہ ہو گا اور یہ تجربہ انہیں آنے والے کل کے لئے مزید تیار ہونے میں مدد فراہم کرے گا۔