نئے قاضی القُضاۃ، قاضی فائزعیسیٰ
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کر دی ہے جس کا اطلاق 17 ستمبر 2023ء کو جناب عمر عطاء بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہو گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت 16 ستمبر 2023ء کو ریٹائرہو جائیں گے۔ صدرِ مملکت نے چیف جسٹس کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے تین کے تحت کی ہے، وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے عہدے کا حلف لیں گے۔ وزارت قانون نے تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ نئے قاضی الُقضاۃ کا تعلق بلوچستان کے معروف اور ممتاز خاندان سے ہے،وہ قلات کے وزیراعظم قاضی جلال الدین کے پوتے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قریبی اور قابل بھروسہ ساتھی جنہیں قائد اپنا بیٹا قرار دیتے تھے، قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران 1940ء سے 1947ء تک قاضی عیسیٰ نے ہزاروں میل کا سفر کیا اور پاکستان کا نام اور پیغام گھر گھر پہنچایا۔اْنہوں نے مسلم لیگ کے سرحد (خیبرپختونخوا) اور بلوچستان چیپٹرز کی ذمہ داری سنبھالے رکھی۔وہ 1951ء سے 1953ء تک برازیل میں پاکستان کے سفیر رہے جبکہ 1950ء، 1954ء اور 1974ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن رہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی جس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور یہاں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا،قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آ کر وکالت شروع کر دی۔ وہ بطور وکیل لگ بھگ 27 سال تک ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی کوئٹہ ہی سے عدالتی کریئر کا آغاز کیا تھا، سپریم کورٹ کے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں قاضی فائز عیسیٰ سابق چیف جسٹس کی عدالت میں معاونت کے لیے پیش ہوتے رہے۔انہوں نے نومبر2007ء کی پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے بعد حلف کی پاسداری نہ کرنے والے ججوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے31جولائی2009ء کے فیصلے میں ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا گیا تو پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھانے والے بلوچستان ہائیکورٹ کے جج صاحبان مستعفی ہو گئے۔اِن حالات کے پیش ِ نظر قاضی فائز عیسیٰ کو اگست 2009ء میں بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا،وہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے تو ایک سیاسی جماعت نے اْن کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تاہم اِسے مسترد کر دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ستمبر 2014ء سے عدالت عظمیٰ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، اْنہیں کئی اہم فیصلے صادر کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔اْنہوں نے 2012ء میں میمو گیٹ کمیشن اور 2016ء میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی کی۔ وہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017ء میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔ 2018ء میں اْن کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ اختلافات دیکھنے میں آئے، ثاقب نثار نے اختلافات کے باعث اپنی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ سے جسٹس عیسیٰ کو الگ کر دیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس قاضی فائز نے چیف جسٹس کے اِس اقدام پر اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کے فیصلے کو عجلت اور عدالتی نظام کے لیے بُرا شگون قرار دیا تھا۔ اْنہوں نے 6 فروری 2019ء کے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے 43 صفحات پر تاریخی فیصلہ بھی تحریر کیا تھا۔ اْن پر پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے صدرِ مملکت کے ذریعے ریفرنس دائر کیا جسے جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے مسترد کر دیا تھا، اِس کا تفصیلی فیصلہ اکتوبر 2020ء میں جاری کیا گیا جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل قانون و آئین کے خلاف تھا۔ عدالت نے یہ بھی لکھا تھا کہ محض سنی سنائی باتوں پر ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اِس کے لیے ٹھوس شواہد چاہئیں جو ریفرنس میں موجود نہیں تھے،اِس کے خلاف عمران خان حکومت نے نظرثانی کی درخواست دائر کی جسے مسترد کر دیا گیا،اِس کے بعد ”کیوریٹو ریویو“ کے نام پرایک اور درخواست دائر کر دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز کی زوجہ محترمہ سیرینا عیسیٰ نے بھی ہمت اور خندہ پیشانی سے اپنے شوہر کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کا مقابلہ کیا۔ چند ہفتے پہلے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریفرنس واپس لینے کی ہدایت کی تھی جسے چیف جسٹس بندیال نے ابھی تک زیر سماعت رکھا ہوا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے انصاف لائرز فورم کے ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانا اْن کی غلطی تھی۔
گزشتہ کئی ماہ سے عدلیہ میں تقسیم کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس کے درمیان اختلافات کی باتیں بھی زبانِ زد عام رہیں، کہا جا رہا تھا کہ چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج ہونے کے باوجود اْنہیں اہم نوعیت کے کیسوں کی سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ نہیں بنایا جاتا تاہم اْن کی اور چیف جسٹس کی سپریم کورٹ کے احاطے میں اکٹھے شجر کاری کرتے کی فوٹیج سامنے آئی۔ چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے اپنی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت نو رکنی بینچ بنایا تو جسٹس عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ جسٹس عیسیٰ کا موقف تھا کہ وہ کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہے بلکہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ کیا جائے، اْن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک وہ کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔ چیف جسٹس نے سات رکنی بینچ تشکیل دے کر کیس کی سماعت جاری رکھی ہے۔ عدلیہ میں جاری کشمکش محسوس کی جا سکتی ہے، پاکستان پہلے ہی بہت سے بحرانوں میں گھر ہوا ہے، معاشی اور سیاسی عدم استحکام سرِفہرست ہیں ایسے میں ملک عدلیہ کے اندر کسی قسم کی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا، حکومت نے شاید اِسی لیے اْن کی تقرری وقت سے پہلے کر دی ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نام کے بھی قاضی ہیں اور کام کے بھی، عنقریب وہ قاضی القُضاۃ کا عہدہ بھی سنبھال لیں گے، اْمید کی جانی چاہئے کہ نہ صرف وہ عدالتی نظام میں استحکام اور بہتری بلکہ عدلیہ میں مطلوبہ اصلاحات کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔