سپانسرشپ سکیم ناکام کیوں ہوئی؟ سنجیدگی سے جائزے کی ضرورت!

2019ء کے بعد2022ء میں صرف10لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا تھا،2023ء کے لئے سعودی حکومت نے 25سے30لاکھ عازمین حج کو دنیا بھر سے بلانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی وزارت الحج نے بھی2019ء کے حج کوٹہ کی بحالی کا مطالبہ کیا۔سعودی وزارت الحج نے بغیر کسی رکاوٹ کے پاکستان کی درخواست منظور کرتے ہوئے حج2019ء کے مطابق کوٹہ الاٹ کر دیا۔ہوپ اور وزارت الحج نے اتفاق رائے سے حج 2023ء کے کوٹہ کی تقسیم ففٹی ففٹی کرنے کا فیصلہ کیا یہ وہ وقت تھا جب ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی تھی اور آئی ایم ایف آنکھیں دکھا رہا تھا، ریال اور ڈالر کی اڑان جاری تھی اور پاکستان کا روپیہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ٹکے ٹوکری ہو چکا تھا اِن حالات میں ملک کو ڈالر کی اشد ضرورت تھی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور مفتی عبدالشکور صاحب نے اتفاق رائے سے بیرون ممالک سے ڈالر لانے کے لئے سرکاری سکیم میں 50فیصد ریگولر اور50فیصد سپانسر شپ کے تحت ملک بھر سے حج درخواستیں وصول کرنے کا اعلان کر دیا۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانی پاکستان سے شدید محبت کرنے کے باوجود اُس وقت سے شدید ناراض ہیں جب سے اُنہیں ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔
اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے سپانسر شپ سکیم کی اگر موثر منصوبہ بندی اور تیاری کی جاتی اور بیرون ممالک میں رہنے والوں کے پاسپورٹ بنانے اور رقوم پاکستان منتقل کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا ہے۔وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، سٹیٹ بنک ان کی مشکلات حل کرنے کے لئے موثر حکمت عملی اپناتے تو مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا جلد بازی میں سرکاری حج سکیم کی پاکستان اور دنیا بھر سے سپانسر شپ سکیم کے تحت ڈالر لانے اور درخواستیں جمع کرانے کا فیصلہ ہو گیا۔وزارت مذہبی امور کے ڈالر اکاؤنٹ کا لنک درخواستیں وصول کرنے والے بنکوں کو دے دیا گیا، ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے سپانسر شپ سکیم(ڈالر) کے حوالے سے وزارت مذہبی امور بھی کلیئر نہیں تھی، کابینہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کیا اور درخواستوں کی وصولی شروع ہو گئی اگر وزیر خزانہ اس کے لئے قرعہ اندازی کے بغیر کامیاب قرار دینے کی خوشخبری کے ساتھ بیرون ملک سے ڈالر لانے کا موثر طریقہ بناتے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر سے صرف ڈالر نہیں آئے کسی ملک میں یورو ہے اورکسی میں پاؤنڈ ہے اس کے لئے ملٹی کرنسی اکاؤنٹ ہونا چاہئے تھا تاکہ جس ملک کی بھی کرنسی ہو اس میں آ جاتی اس کے لئے سٹیٹ بنک کا کردار بڑا اہم تھا، روپے کی بے قدری کی وجہ سے حج2022ء کے مقابلے میں حج 2023ء تقریباً ڈبل مہنگا ہو چکا تھا، بغیر منصوبہ بندی کے سپانسر شپ سکیم کی درخواستوں کی وصولی شروع ہوئی تو وفاقی وزیر مذہبی امور اللہ کو پیارے ہو گئے، باہر بسنے والے پاسپورٹ نہ بننے اور ڈالر کی منتقلی میں رکاوٹوں کا رونا روتے رہے ان کی داد رسی نہ ہو سکی، نتیجہ سات ہزار درخواستیں بھی نہ آ سکی اور سپانسر شپ سکیم تمام حکومتی وسائل کے باوجود ناکام ہو گئی، وزارت نے ریگولر سکیم کے عازمین میں سپانسر شپ سکیم کے سات ہزار کو اکاموڈیٹ کر کے قرعہ اندازی نہ کرانے کا اعلان کر دیا۔حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود سرکاری سکیم کا حج کوٹہ مکمل نہ ہو سکا پہلی دفعہ پاکستان کو سرکاری کوٹہ واپس کرنا پڑا،ناکامی کیوں ہوئی، غلطیاں کہاں کہاں ہوئیں اگر ایک ایک کر کے جائزہ لیا جائے تو آئندہ مالی سال مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کی وفات کے بعد طلحہ محمود صاحب کو ذمہ داری مل گئی، تجربہ کار ہونے کے باوجود حج کے معاملات سے ناآشناء تھے
دلچسپ امر یہ ہے وزارت نے سرکاری سکیم کی سپانسر شپ کی ناکامی خاموشی سے ریگولر سکیم میں شامل کر کے چھپا لی کسی کا احتساب نہیں ہوا، کسی کو سزا نہیں ہوئی، کوئی سبق نہیں سیکھا، گنگا اُلٹی بہنے لگی، سرکاری سکیم کی سپانسر شپ کی ناکامی سے سبق سیکھنے اور پرائیویٹ حج سکیم کے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنے کی بجائے پرائیویٹ سکیم کے لئے بھی سپانسر شپ اور ریگولر سکیم کی تقسیم50+50 کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ سرکاری سکیم کی سپانسر شپ سکیم کی بُری طرح ناکامی کا ذکر تک نہیں کیا،غلطیوں اور رکاوٹوں کا جائزہ تک نہیں لیا گیا۔اگر حکومت پورے وسائل کے ساتھ سپانسر شپ سکیم کے ذریعے7000 سے زائد درخواستیں نہیں لا سکی تو پرائیویٹ سکیم کیسے لائے گی ان کی رکاوٹیں کیسے دور ہوں گی اس کے لئے چاہئے تو یہ تھا کہ پرائیویٹ سکیم کے سٹیک ہولڈر کو بٹھایا جاتا اور لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ ہوپ بھی وزارت کے لالی پاپ میں آ گئی اور حج آرگنائزر کو آخر تک کہتی رہی بکنگ کریں معاملات طے پا گئے ہیں۔ معاملات کیا طے پائے اِس کا پتہ چلا اُس وقت جب وقت ختم ہو گیا اور وزارت نے کابینہ اور ایس پی اے کا ڈنڈا اٹھا لیا اور فوری ریکارڈ دینے کا حکم دے دیا اس کا نتیجہ بھی وہی ہوا جو سرکاری سکیم کی سپانسر شپ سکیم کا ہوا تھا۔ پرائیویٹ سکیم کے حج آرگنائزر نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور کوٹہ واپس کرنا شروع کر دیا۔باعث تشویش جو بات سامنے آئی ان سب حالات کے باوجود وزارت کی ضد، ہٹ دھرمی قائم رہی، پرائیویٹ سکیم کے حج آرگنائزر پر بکنگ پر کیا کیا قیامت آتی رہی،سعودیہ رقوم کی منتقلی کیسے کیسے ہوئی،کوشش کرنے کے باوجود سینکڑوں افراد کے پاسپورٹ نہ مل سکے،اندھیر نگری 90فیصد حج آرگنائزر اپنے حاجی لے کر سعودیہ پہنچ گئے تو وزارت نے پھر سرکلر جاری کرتے ہوئے فرمایا ایس پی اے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ڈالر اور حاجیوں کی تقسیم کی تفصیل جمع کرائیں، ساتھ ایس پی اے کی شرائط، سزائیں اور جرمانے کے نکات بھی سامنے لائے گئے۔دلچسپ امر یہ ہے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کے عازمین پاکستانی ہیں،یکساں سلوک اور لائحہ عمل کیوں نہیں،میں سعودیہ میں موجود ہوں سرکاری سکیم کی مشکلات، عازمین حج کے حالات بیان کروں تو آگ لگ جائے،مگر ضمیر اجازت نہیں دیتا مجھے اندازہ ہے وفاقی وزیر، سیکرٹری ان کی ٹیمیں عازمین حج کے لئے مخلص ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکیم کے درمیان خلا کو پُر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہوپ اور وزارت کے درمیان مثالی انڈر سٹینڈنگ کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ان حالات میں جب سعودیہ میں معلمین کے نظام کے خاتمے کے بعد کمپنیوں کا نظام نافذ ہو گیا ہے حج آرگنائزر کے ساتھ سرکاری سکیم کے عازمین کے لئے بھی مسائل کا پہاڑ نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں سارا مُدا کمپنیوں پر ڈال رہے ہیں ان حالات میں جب ہر طرف اندھیرا ہے ایک دوسرے کو دھمکانے،ڈرانے کی بجائے حج آپریشن کو مثالی بنانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے اور سپانسر شپ سکیم کے لئے مضبوط لائحہ عمل اپناتے ہوئے رکاوٹوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے مثبت نتائج آ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭