قانون یہ نہیں کہہ  رہا ملٹری کے اندر کام کرنیوالے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری کی حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ 

قانون یہ نہیں کہہ  رہا ملٹری کے اندر کام کرنیوالے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ...
قانون یہ نہیں کہہ  رہا ملٹری کے اندر کام کرنیوالے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری کی حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ قانون یہ نہیں کہہ  رہا ملٹری کے اندر کام کرنیوالے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری کی حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل  ہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے کہا ہو سکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیاگیا ان پر الزامات نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ آپ عمومی بحث پر جارہے ہیں یہ بھی علم نہیں، ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھیجا گیا، وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ فرض کریں ان کیخلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھائوں گا انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جاسکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اپنے دلائل کو متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3بجے تک دلائل دیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ قانون یہ نہیں کہہ  رہا ملٹری کے اندر کام کرنیوالے بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری کی حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، آپ بتائیں ملٹری کورٹس میں کیس میں ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق  ممنوعہ علاقے، عمارات ، کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بنا سکے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں، مقدمے میں دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر حوالگی مانگ سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ سے 2سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے، کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ ہم تو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق سامنے نہ بھی ہوں تو بھی یہ کیس بادی النظر کا بنتا ہے۔