معاملات بند گلی میں پھنس چُکے، چیئرمین تحریک انصاف کی سیاست کو ٹھکانہ مل پائیگا؟ یا ٹھکانے لگا دیا جائے گا؟حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے

معاملات بند گلی میں پھنس چُکے، چیئرمین تحریک انصاف کی سیاست کو ٹھکانہ مل ...
معاملات بند گلی میں پھنس چُکے، چیئرمین تحریک انصاف کی سیاست کو ٹھکانہ مل پائیگا؟ یا ٹھکانے لگا دیا جائے گا؟حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور ( خصوصی رپورٹ ) عدلیہ کی  ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے" وطنی سیاست کا محور ، اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان " ،آج دونوں فریقین بند گلی میں پھنس چُکے۔ وطنی طول عرض میں سوال ایک ہی ،" سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے کو ہے"۔ عمران خان سیاست کو کسی قسم کا ٹھکانہ مل پائیگا؟ یا ٹھکانے لگا دیا جائے گا؟سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے اپنے بلاگ بعنوان "عمران خان کی سیاست کا مستقبل" میں اہم انکشافات کر دیئے ۔" جیو نیوز  " میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ سانحہ ہےکہ قوم، سیاسی جماعتوں ، قومی اداروں میں منقسم، باہمی افراط و تفریط کا شکار ہے۔ عمران خان کو گمان کہ اُن کی مقبولیت اپنی دھاک بٹھا چُکی ہے۔ کاش! کوئی سمجھا پاتا " ایسی مقبولیت" ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ مقبولیت کو اپنی عافیت ، عاقبت اور سلامتی کا لائسنس سمجھ بیٹھنا اس سے بھی بڑا دھوکہ ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا غیر ضروری اعتماد کہ خان کا مکو ٹھپا جانا ، چند ہفتوں کی مار، خاتمہ بالخیر ہونے کو ہے۔ فریقین کے ایک دوسرے کے بارےمیں تصورات نامکمل ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور عمران دونوں کیلئے نقصان دہ رہنا ہے ۔عمران خان کی کنفیوژن، مکمل طور پر سر نگوں ہونے کیلئے تیار نہیں۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتاؤں سے رابطوں کی سر توڑ کوششیں منت ترلے ، دوسری طرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ماننے والوں کو سڑکوں پر نکلنے ،مرنے مارنے کیلئےاُکسا رہے ہیں۔ مقبولیت کا بخار اور جھوٹ کے استعمال نے خود فریبی کی سہولت دے رکھی ہے۔

حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ عمران خان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آپشنز کیا ہیں؟ گرفتاری ایسے مقدمات میں کہ ضمانت نہ ہو پائے یانااہلی ایسے کہ پکا کام ہو ،کرپشن کے ایسے کیسز کہ بچ نکلنا ناممکن ہو۔ اسی تناظر میں عدلیہ کا رول انتہائی اہم ، حال ہی میں اوپر کی سطح پر عدلیہ کی  ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح تو ملٹری کورٹس ہی، سزائے موت یا عمر قید دونوں ممکن اور قابل عمل۔ ملٹری کورٹس پرجسٹس جواد خواجہ کی درخواست نے نتیجہ خیز رہنا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کیلئے ملٹری کورٹس کی ساری افادیت موجود ، سو فیصد مطلوبہ نتائج کی گارنٹی کے باوجود ، سول سوسائٹی ، میڈیا اور وکلاء نے اس کے خلاف متحدہ محاذ بناناہے۔ ملٹری کورٹس ٹرائل بلاوجہ عمران کے حق میں جائیگا ۔خدشہ یہ بھی ملٹری کورٹس کے اوپر تنازعہ بڑھا تو عمران خان کے جرائم نے پس پردہ چلے جاناہے۔

 حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ مئی کے مہینے میں تو نادان اتحادی حکومت اپنی سیاسی لٹیا ڈبوکر اسمبلی توڑنے پر تیار تھی۔ عمران خان کا 25 مئی کا لانگ مارچ غیبی مدد ثابت ہوا۔یوں حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے بال بال بچ گئی ۔ اتحادی حکومت شد و مد سے عمران کا یوم حساب فوری اور کڑاچاہتی تھی، جنرل باجوہ اس میں رکاوٹ بنے رہے۔ذرا شبہ نہیں کہ 25 مئی سے پہلے لانگ مارچ ہو یا جلسے جلوس، سپریم کورٹ کا حمزہ شہباز کی حکومت ختم کر کے آئین میں ترمیم کرنایاجولائی اگست کے قومی و صوبائی ضمنی انتخابات کے نتائج ، ارشد شریف قتل کیس یا عمران خان پر قاتلانہ حملہ، جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کیلئےراولپنڈی لانگ مارچ یاعدالتی تعاون ، غیر مرئی قوتوں کے نقش پا قدم بقدم موجود تھے۔ 29نومبرکو جب تک جنرل باجوہ رُخصت ہوئے تو عمران خان ایک عفریت بن چُکا تھا۔

بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ جنرل عاصم منیر نے چارج لیا تو خرابیاں جڑ پکڑ چُکی تھیں۔آج عمران سے کیسے نبٹا جائے؟"ارادہ باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں" ۔ وطن عزیز دلدل میں پھنس چُکا۔ اگر پاکستان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو عمران کے وارے میں ہے ۔جنرل عاصم منیر عمران خان سے اُس کی شرائط پر نہیں اپنی شرائط پر نبٹیں مگر فہم و فراست کیساتھ ۔ اگر تدبر کی غیر موجودگی میں اندھا دھند آگے بڑھے تو پھرنتیجہ ٹن ٹن گوپال۔