ہلکی خنک ہوا، جھیل کا جل ترنگ بجاتا پانی، چاندنی میں نہائی برف پوش چوٹیاں، جلتا الاؤ اور پہلو میں نین۔۔۔یا اللہ! جنت ایسی ہو گی کیا؟ 

 ہلکی خنک ہوا، جھیل کا جل ترنگ بجاتا پانی، چاندنی میں نہائی برف پوش چوٹیاں، ...
 ہلکی خنک ہوا، جھیل کا جل ترنگ بجاتا پانی، چاندنی میں نہائی برف پوش چوٹیاں، جلتا الاؤ اور پہلو میں نین۔۔۔یا اللہ! جنت ایسی ہو گی کیا؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:55
 کافی ختم ہو چکی ہے۔ سورج کب کا سامنے کی برف پوش چوٹی پر اتر چکا ہے۔نیلے آکاش پر میرے دوست ستاروں کا جہاں آباد ہونے کو تیار ہے۔ رات کی سیاہی اپنی چادر اتارنے کواور چاندا ماموں اپنی دنیا جگمگانے کو۔خنکی بڑھ گئی ہے۔ شنگریلا جھیل بھی رنگ بدلنے لگی ہے۔ طلوع ہوتا چاند ابھی ان برف پوش پہاڑوں کی اوٹ میں ہی ہے جبکہ نین میری اوٹ سے اس منظر کو دیکھ رہی ہے۔ چاند ستاروں کو دیکھ کر وہ کہنے لگی؛’وہ کیا منظر ہو گا جب چاند کی چاندنی برف پوش پہاڑوں کو اپنی اوڑھنی اوڑھا دے گی۔ میں بے ساختہ بول پڑا؛”وہ منظر تم سے خوبصورت نہیں ہو سکتا۔“ وہ مسکرا دی۔کہنے لگی؛”یار! اگر باہر بون فائر کا انتظام ہو تو مزا آ جائے کہ بون فائر جاڑے کی شام کو اور حسین بنا دیتی ہے۔‘‘
ہم اپنے کمرے میں چلے آئے ہیں۔ برآمدے سے ملحقہ چھوٹاسا ڈرائینگ روم جس کا آتش دان روشن ہے اور اس سے آگے خواب گاہ(آتش دان اس میں بھی روشن ہے)۔ خواب گاہ کی ایک کھڑکی برف پوش پہاڑوں کی جانب کھلتی ہے جبکہ ڈرائینگ روم کی کھڑکی باہر جھیل کی جانب۔ میں نے نین سے کہا؛”یار! رات کے کپڑے تو ہیں نہیں۔“ وہ بولی؛”ذرا جیپ کی چابی دینا۔“ وہ کمرے سے باہر گئی اور واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔کہنے لگی؛”میں رات کے کپڑے ساتھ لائی ہوں اپنے بھی اور آپ کے بھی۔“  
وہ فریش ہونے واش روم چلی گئی ہے اور میں آتش دان کے قریب چلا آیا ہوں۔ باہر رات کی سیاہی پھیل چکی ہے۔ او میرے خدا!یہ تو چودہویں کی رات ہے۔ میرے دوست ستاروں نے اپنا جہاں سجا لیاہے اور چندا ماموں سامنے برف پوش چوٹی کی اوٹ سے اس جہان سنگ و آہنگ کو چاندنی میں نہلانے کی تیاری میں ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو ایسی چاندنی رات شنگریلا گزارنے کا موقع ملتا ہے۔دروازے پر دستک ہوئی، باہر اصغر تھا۔ کہنے لگا؛”سر! باہر لکڑیوں کا الاؤ آپ کا منتظر ہے ا لبتہ کھانے میں کچھ دیر ہے۔آپ کو گرلڈ فش بھی ملے گی۔“وہ چلا گیا۔ نین کمرے میں آئی تو اس کے حسن کے لشکارے نے مجھے مبہوت کر دیا ہے۔ اس نے میری سفید شرٹ جس کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہیں اور نیچے سرخ پاجامہ پہن رکھا ہے۔ کندھوں تک لہراتے ملائم گیسو۔ موٹے نینوں میں خماری اور لبوں پر معنی خیز تبسم بکھرا ہے۔ ”کہاں کھو گئے ہو جی۔“ وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولی اور ہنس دی۔ فضا ء میں بکھرا اُس کا قہقہہ شام کا سناٹا توڑ گیا ہے۔ شہد سی سنہری رنگت، سفید قمیض سے جھانکتے جسم کے زاوئیے۔ ”نین کون ہو گا جو اس حسن کو دیکھ کر مبہوت نہ ہو جائے۔چاند کا حسن بھی کچھ شرمایا شرمایا سا لگ رہا ہے تیرے حسن کے سامنے۔“میں اتنا ہی کہہ پایا کہ وہ آگے بڑھی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ میں نے اسے گرم شال اوڑھائی اورہم باہر جلتے الاؤ کے پاس چلے آئے۔چاند کی چاندنی نے کمال نظارہ تراش رکھا ہے۔ ہلکی خنک ہوا، جھیل کا جل ترنگ بجاتا پانی، چاندنی میں نہائی برف پوش چوٹیاں، جلتا الاؤ اور پہلو میں نین۔ شنگریلا کے حسن میں کھوئی نین اور نین کے حسن میں کھویا میں۔ یا اللہ! جنت ایسی ہو گی کیا؟ کیا حور نین سے زیادہ خوبصورت ہو گی؟ شاید نہیں۔
اس نے میرے کندھے پر سر رکھا اور اپنے ماضی کی کہانی سنانے لگی۔بولی؛ ”پتہ نہیں جب سے تم سے ملے ہوں میرا دل چاہا تم سے اپنے دکھ بانٹوں، دل کی باتیں کروں۔ شاید کچھ بوجھ ہلکا ہو اور زندگی آسان ہو جائے۔“ میں نے جواب دیا؛”بو لو نین۔ میں ہمہ تن گوش ہوں۔“ وہ کہنے لگی؛”میں نے دل سے اسے چاہاتھا مگر اس نے مجھے دھوکا دیا۔ خود کو بہت سمجھایا۔ مار بھی کھائی۔ پڑھی لکھی ہوں ایک دن فیصلہ کیا، کیا زندگی ایسے ہی گزارنی ہے کڑ کڑ (لڑ جھگڑ)کر یا اس جھمیلے سے آزاد ہو جاؤں؟ دل و دماغ نے کہا آزاد ہو جاؤاور پھر آزاد ہو گئی۔ بہت مشکل وقت تھا۔ گزر گیا۔ پھر تم مل گئے اور آسانی ہو گئی۔ اب جینے کو دل چاہنے لگا ہے۔ زندگی سے پیار ہو گیا ہے۔“وہ بولے چلی جا رہی تھی۔ کبھی باتیں کرتی رک جاتی، سوچ میں ڈوبتی اور میری آواز پرچونکتی اور پھر سے بولنے لگتی۔ایک بار تو اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں ننھے ننھے آنسو بھی تیرنے لگے۔ میں نے اسے گلے لگایا اور ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیرتے تسلی دیتے اس کے آنسو پونچھے توکہنے لگی؛”میں نے کس ماحول میں آپ کو اداس کر دیا ہے۔“ میں نے جواب دیا، نین اچھا ہوا تمھارا برسوں کا غبار نکل گیا اور دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے۔دکھ بانٹے سے ہلکا ہو جاتا ہے۔ شاید تم بھی اس انتظار میں تھی کہ کوئی ملے جس سے تم دل کی بات کہہ سکو۔“ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہے اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور زور دار انداز میں مجھ سے بغل گیر ہو گئی۔ اس کے آنسوپھر بہہ نکلے لیکن اب کی بار خوشی کے آنسو ہیں۔ اصغر کی آواز سنائی دی؛”سر! کھانا تیار ہے۔ سر! میں نے ایک لوکل فنکار ”منظور بلتی کو بلایا ہے۔ وہ کمال لوک گیت گاتا ہے۔ابھی آدھ گھنٹے میں پہنچ جائے گا۔“ بون فائر کے قریب ہی کھانا چن دیا گیا ہے۔“واہ گرلڈ فش کی خوشبو سے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔ یہ ہم دونوں کی پسندیدہ ہے اور بنی بھی بہت لذیز ہے۔ کھانے کے بعد گرما گرم کافی نے تو کھانے کا مزا دوبالا کر دیا۔ کھانا ابھی ختم ہوا ہی ہے کہ منظور بلتی آ گیا۔ تیس پنتیس (30/35) برس کا نوجوان لمبے بال گورا رنگ درمیانہ قد۔ سلام دعا کے بعد اس نے بلتی زبان کے چند لو ک گیت سنائے۔ ہمیں سمجھ تو نہ آئی لیکن بہت اچھے لگے۔ صرف ایک گیت کے ایک فقرے کا ترجمہ یاد رہ گیا۔ وہ آپ اور سندھو کی نظر؛
”اے باد خلق چمکتے ستاروں کو سلام دے“
آدھ گھنٹے بعد یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ اسے کچھ انعام دیا اور وہ اپنی راہ ہولیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -