”یگانگت“ کا لفظ مکار آزاد خیالوں نے سیاہ فاموں کو گمراہ کرنے کیلئے بنایا ہے، لاکھوں افراد اس لفظ کی وجہ سے مخمصے میں ہیں اور سخت ناراض ہیں 

 ”یگانگت“ کا لفظ مکار آزاد خیالوں نے سیاہ فاموں کو گمراہ کرنے کیلئے بنایا ...
 ”یگانگت“ کا لفظ مکار آزاد خیالوں نے سیاہ فاموں کو گمراہ کرنے کیلئے بنایا ہے، لاکھوں افراد اس لفظ کی وجہ سے مخمصے میں ہیں اور سخت ناراض ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:123
 اسی طرح جب کوئی میئر یا کوئی سٹی کونسل یہ دعویٰ کرتی کہ اس کے علاقے میں کوئی نیگرو مسئلہ نہیں ہے تو اس کا بیان میرے آگے رکھ دیا جاتا۔ میں جواب دیتا کہ اس کی و جہ صرف یہ ہے کہ اس علاقے میں نسبتاً بہت کم نیگروز رہتے ہیں اور یہ ایک عالمی سچائی ہے مثلاً جمہوری انگلینڈ ہی کو لیں۔ جب ایک لاکھ ویسٹ انڈین وہاں پہنچے تو انگلینڈ نے سیاہ فام مہاجرین پر پابندی لگا دی۔ فن لینڈ نیگرو امریکی سفیر کا استقبال تو کرتا ہے مگر دیگر سیاہ فاموں کو اپنے ملک میں نہیں آنے دیتا یا روس میں جب خروشیف اقتدار میں تھا اس نے ان سیاہ فام افریقی طلباء کے ویزے کینسل کرنے کی دھمکی دی تھی جنہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرے کر کے دنیا کو بتایا تھا کہ روس بھی……“ 
اندرون جنوب کی سفید فام پریس عام طور پر میرا بلیک آؤٹ رکھتی تھی۔ لیکن جب میں نے شمالی سفید فاموں اور سیاہ فام فریڈم رائیڈرز کے جنوبی علاقے میں جانے اور مظاہرے کرنے کے متعلق رائے دی تو مجھے صفحہ اول پر چھایا گیا۔ میں نے اس صورت حال کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ کیونکہ شمالی علاقوں میں، ان کے اپنے گھر میں ایسی کچی بستیاں موجود تھیں جو ان کی توجہ چاہتی تھیں۔ میرا کہنا تھا کہ غیر معمولی آزاد خیال نیویارک میں ایسے مسائل مسی سپی سے بھی زیادہ تھے۔ اگر یہ شمالی فریڈم رائیڈرز چاہتے تو ان کچی بستیوں کی بنیادی مشکلات پر کام کر سکتے تھے جہاں آدھی رات کو چھوٹے بچے اپنے گھر کی چابیاں گلے میں پہنے سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں کیونکہ ان کے ماں باپ شرابی نشے کے عادی چور اور عصمت فروش ہیں یا یہ شمالی فریڈم رائیڈرز ناردرن سٹی ہالز یونینز اور بڑی صنعتوں کی طرف توجہ دے سکتے تھے۔ کم از کم وہ نیگروز کو نوکریاں فراہم کر کے اس بیروزگاری وظیفے سے نجات دلائیں جو محض کاہلی پیدا کرتا ہے اور جس نے ان کچی بستیوں کو اتنا تباہ کر دیا ہے کہ وہ انسانوں کے رہنے کے لائق نہیں رہیں۔ یہی سچ تھا اور ہے۔ لیکن ایسی بات کہنے پر آزاد خیال، سانپوں سے بھی زیادہ سرعت سے مجھ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان آزاد خیالوں کے اردگرد سے وہ مقدس ہالہ نوچ پھینکتا جو انہوں نے بڑی محنت سے بنایا تھا۔ شمال کے یہ آ زاد خیال ایک مدت سے جنوب والوں پر انگلیاں اٹھا رہے تھے لیکن جب میں نے ان کا پردہ چاک کر کے بتایا کہ وہ دنیا کے بدترین منافق ہیں تو وہ مٹھیاں بھینچ کر مجھ پر چڑھ دوڑے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی اس منافقت کا ایک آئینہ ہے۔ میں شمالی سفید فام کی تخلیق ہوں مجھے جنوبی علاقے کے متعلق کچھ علم نہیں۔ جناب ایلیا محمد نے سفید فام جنوبیوں کو ان کا حق ضرور ادا کیا ہے۔ 
جنوبی سفید فام کے متعلق آپ ایک بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایمان دار ہے۔ وہ سیاہ فام پر دانت نکوستا ہے اور ان کے منہ پر کہتا ہے کہ جنوبی سفید فام اس جعلی یگانگت کو کبھی قبول نہیں کرے گا بلکہ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ اسے اگر لڑنا بھی پڑا تو دریغ نہیں کرے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جنوبی سیاہ فام اپنے مخالف کے متعلق کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے۔ آپ بہت سے ایسے جنوبی سفید فاموں سے واقف ہونگے جو انفرادی طور پر بہت سے نیگروز کی پدرانہ انداز میں مدد کرتے ہیں لیکن شمالی سفید فام بظاہر مسکراتا ہے لیکن اس کے منہ میں جھوٹ اور مکاری سے بھرے ہوئے ”برابری اور ”یگانگت“ کے الفاظ ہیں۔ دراصل امریکہ کا سب سے خطرناک سیاہ فام وہ ہے جسے شمالی سفید فام کے نظام اختیار نے جمہوریت کے دعوے کر کر کے کچی بستیوں میں مقید کر رکھا ہے۔ 
یک جہتی یایگانگت کا لفظ شمالی آزاد خیال کی ایجاد ہے جس کے کوئی حقیقی معنیٰ نہیں ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ موجودہ نسلی مفہوم میں اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ”یگانگت“ کا لفظ مکار شمالی آزاد خیالوں نے امریکی سیاہ فاموں کو ان کی اصل ضروریات سے گمراہ کرنے کے لیے بنایا ہے۔ امریکہ بھر کی پچاس نسل پرست اور غیر نسل پرست ریاستوں کے لاکھوں افراد اس لفظ کی وجہ سے مخمصے میں ہیں اور سخت ناراض ہیں۔ انہیں غلط فہمی ہے کہ سیاہ فام عوام سفید فاموں کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہتی ہے حالانکہ یہ آرزو ان مٹھی بھر ”یگانگت کے دیوانے نیگروز“ کے علاوہ اور کسی کی نہیں جو سفید فاموں کی محبت میں ان سے بھی زیادہ سیاہ مخالف اور سفید پرست واقع ہوئے ہیں۔ امریکی عوام کی آرزو صرف انسانی حقوق کا حصول اور بطور انسان عزت ہے اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ انہیں کوڑھی سمجھ کر ان سے اجتناب کریں۔ وہ جانوروں کی طرح کچی بستیوں اور جھونپڑ پٹیوں میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ ایسے آزاد اور کھلے معاشرے کے خواہش مند ہیں جہاں وہ مردوں عورتوں کی طرح سر اٹھا کر جی سکیں۔ بہت کم سفید فاموں کو اس بات کا احساس ہے کہ سیاہ فام ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتے اس یک جہتی یا یگانگت کے تاثر نے سفید فام کو وہم میں ڈال دیا ہے کہ سیاہ فام اس کے گھر میں شراکت چاہتا ہے۔جو کہ غلط ہے اوسط سفید فام یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ سیاہ فام کی سب سے بڑی خواہش سفید عورت کا حصول نہیں ہے۔ زیادہ تر سیاہ فام اپنے جیسے لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور یہ بورژوا نیگروز جب نام نہاد یگانگت سے بھرپور کاک ٹیل پارٹیوں سے گھر واپس آتے ہیں تو اپنے جوتے ادھر ادھر اچھالتے ہوئے آزاد خیال سفید فاموں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے کتوں کا ذکر کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ سفید فام آزاد خیال بھی ان کا ذکر اسی طرح کرتے ہوں لیکن یہ بات میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے تنہائی میں انہیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا البتہ بورژو/ نیگروز جانتے ہیں کہ میں جھوٹ نہیں کہہ رہا جب کوئی سچائی میرے علم میں آتی ہے تو میں اسے زبان پر لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس وقت ضرورت ہے اس بات کی کہ سیاہ فام اور سفید فام تلخ اور برہنہ سچائیوں کا تبادلہ کریں تاکہ پچھلے 400سال سے چھائی ہوئی دھوکے جھوٹ اور کلیشے کی فضاء صاف ہو سکے۔ بہت سی چھوٹی کمیونیٹیز میں سفید فاموں نے ہم سیاہ فاموں کی بھلائی کے حوالے سے اپنا تاثر بڑا اچھا بنا رکھا ہے۔ لیکن جب کبھی کوئی مقامی نیگرو کسی مقامی سفید فام کو یہ بتاتا ہے کہ وہ دوسرے درجے کی زندگی اور ووٹ کے حق سے محرومی سے تنگ آ چکا ہے تو اسے جواب ملتا ہے ”بدقسمتی سے تمہاری انہی باتوں پر تمہارے ہمدرد سفید فام تمہارے خلاف ہو رہے ہیں ……کتنے افسوس کی بات ہے اچھی بھلی بہتری ہو رہی تھی لیکن تمہارے روئیے سے باہمی ابلاغ منقطع ہو گیا ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -