تقسیم ہندسے پہلے کراچی میں کافی تعداد میں سکھ بھی آبادتھے، ان کی  زیادہ تر رہائش کھارادر، بولٹن مارکیٹ میں ہندو آبادیوں کے آس پاس ہی تھی

 تقسیم ہندسے پہلے کراچی میں کافی تعداد میں سکھ بھی آبادتھے، ان کی  زیادہ تر ...
 تقسیم ہندسے پہلے کراچی میں کافی تعداد میں سکھ بھی آبادتھے، ان کی  زیادہ تر رہائش کھارادر، بولٹن مارکیٹ میں ہندو آبادیوں کے آس پاس ہی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:146
سکھ 
تقسیم ہندسے پہلے کراچی میں یقیناکافی تعداد میں سکھ بھی آبادتھے۔ ایک اندازے کے مطابق کوئی ایک سو سکھ خاندان کراچی میں باہمی رواداری کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی رہائش زیادہ تر کراچی کے پرانے علاقوں کھارادر، بولٹن مارکیٹ میں ہندو آبادیوں کے آس پاس ہی ہوتی تھی۔کچھ کا تو اپنا کاروبار تھا اور کچھ روزمرہ کے کام کرتے تھے۔ تب تک سکھ آزادی سے کراچی میں رہتے تھے اور بلا کسی روک ٹوک اور تفریق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ ان کا روایتی لباس وہی تھا جو سکھ عموماً پہنتے ہیں، یعنی کرتہ پاجامہ، پگڑی، ہاتھ میں کڑا جبکہ چھوٹی سی کرپان ساتھ رکھتے تھے۔ ان کی مادری زبان پنجابی  تھی لیکن اردو بھی فراٹے سے بولتے تھے۔
 کراچی میں ان کے کچھ گردوارے بھی موجود تھے جن میں سے ایک بہت مشہور گردوارا پہلی پٹ شاہی تھا جو کلفٹن میں واقع تھا۔ کچھ لوگ تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی کا مشہور بس اسٹاپ گرو مندر بھی سکھ گرودوارے کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔ 
جب بٹوارا ہوا اور تو راستے میں مسلمان مہاجروں پر سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے حملے اور قتل عام کے قصے ہر طرف پھیلے تو کراچی کے سکھ اور ہندو جوابی کارروائی کا سوچ کر بے حد خوف زدہ ہو گئے تھے۔ان میں سے بہت بڑی تعدادمیں ہندو اور سکھ بے حد عجلت میں اپنا کاروبار اونے پونے داموں بیچ کر ہندوستان نقل مکانی کر گئے۔کچھ سکھ خاندانوں نے، جن کے لیے فوری طور پر کراچی چھوڑنا ممکن نہ تھا، عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور پھر ان ہی میں ضم ہو گئے۔
جب کراچی سے سکھوں کے انخلا کا عمل مکمل ہوا تو اس وقت یہاں سکھوں کا شاید ایک ہی خاندان صدر کے علاقے میں رہتا تھا۔ وہ دو بھائی رور سنگھ اور پال سنگھ تھے،جن کی مینسفیلڈ اسٹریٹ صدر میں فرنیچر کی ایک بڑی دکان ہوا کرتی تھی۔ ہمارے گھر کے قریب ہی ان کا گھر بھی تھا۔ ان کے بچے ہمارے ساتھ ہی کھیلتے تھے۔انہوں نے محلے میں اپنی خوب عزت بنا کر رکھی ہوئی تھی اور ہر ایک کے ساتھ ملنساری اور محبت سے ملتے تھے۔سخت خوف و ہراس کے ماحول میں بھی انہوں نے کراچی نہیں چھوڑا تھا، تاہم پھر ایک روز پتہ چلا کہ وہ دونوں بھائی اپنا کاروبار ختم کرکے ہندوستان منتقل ہو رہے ہیں۔ صاف نظر آتا تھا کہ وہ بری طرح تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں۔ مگر انہوں نے سب کو یہی بتایا تھاکہ سکھ برادری کے لوگ کراچی میں نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کے رشتوں کے سلسلے میں کچھ مشکلات پیش آ رہی تھیں اس لیے ان کو جانا ہی تھا۔ بچھڑتے وقت ان کی خواتین اور بچے خوب روئے کیونکہ سب کو احساس تھا کہ اب شاید وہ دوبارہ اس دھرتی کو نہ دیکھ سکیں۔ ان کی رخصتی کے بعد کم از کم اگلے 20 برس تک وہاں کوئی مقامی سکھ نظر نہ آیا۔ ہاں کبھی کبھار کچھ سکھ سیاح کراچی آجاتے تو لوگ حیرت سے ان کو اور ان کے لباس کو دیکھا کرتے تھے۔ بعد ازاں ان کے گردوارے حکومت پاکستان کے محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لے لیے۔  (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -