23 مارچ کا دن ہمارا ایک قومی دن ہے جسے ہم ’’یوم پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور ہر سال مناتے ہیں، بس جھنڈے لہراتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں یا کبھی کبھار جلوس کی شکل میں سڑکوں پر بھی آ جاتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں! مگر اس میں جو عبرتیں ہیں، ماضی حال اور مستقبل کے لئے جو پیغام ہے اس سے آگاہ ہونے کا تکلف کبھی نہیں کرتے!
اس میں ایک تاریخی عبرت تو یہ ہے کہ اس دن کو ’’یوم پاکستان‘‘ لاہور، امرتسر اور برصغیر کے ہندو پریس نے یہ نام دیا تھا دراصل بات یہ تھی کہ برہمن بنیا کے مہا سبھائی ذہن نے ہندوستان کو مہا بھارت کے سایہ میں ’’ہندو بھارت‘‘ بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا جس پر رام کا راج ہونا تھا اور غیر ہندو کے لئے اس میں کوئی جگہ نہ ہوتی، کم سے کم اسے ’’مسلمانوں سے تو پاک‘‘ ہونا تھا! مطلب یہ کہ مسلمان یا تو ہندو کلچر اپنا لیں یا جہاں سے آئے ہیں وہاں چلے جائیں اور یا پھر قبرستان ان کا ٹھکانہ ہوگا! بھارت کے کوڑ مغز لبھورام کا آج بھی یہی خیال ہے اور (ہمارا کوئی نظریۂ پاکستان ہو نہ ہو) اس کا ’’نظریہ بھارت‘‘ بھی یہی ہے، جبکہ مسلمان یہ کہنے لگے تھے کہ ہندوستان کا نام اگر بدلنا ہی ہے تو پھر اسے ’’پاکستان‘‘ کا نام دیا جائے مگر ہندو اس نام سے چڑتے تھے اس لئے ہندو پریس نے مسلمانوں کے الگ وطن کو بھی ’’پاکستان‘‘ ہی کا نام دے دیا جسے بالآخر مسلمانوں نے بھی خوشی سے اپنا لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کا یہی مطالبہ قرار پا گیا تھا!
در اصل صلیبی سامراج کے علمبردار انگریز نے جب 1857ء کے ناکام مسلم انقلاب کے بعد برہمن بنیا ذہن کو ایک لوری سنائی تھی جس سے برہمن بنیا دماغ جھوم اُٹھا تھا اور آج تک اس لوری کے مزلے لے لے کر جھوم رہا ہے اور وہ لوری تھی ’’جمہوری نظام میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے‘‘ مگر کوڑ مغز بنیا برہمن دماغ یہ نہ سمجھ سکا کہ حقیقت میں وہ یہاں اکثریت میں ہے ہی نہیں! یہاں کی اکثریت تو غیر ہندو ہے، جس میں یہاں پر ہزاروں سال سے بسنے والے دراوڑ (جنہیں ہندو اچھوت کہتا ہے) اور اس پورے برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کرنے والے مسلمان ہیں (پورے برصغیر پر تو صرف مسلمان یا انگریز حکمران رہے ہیں، ہندو کو تو یہ اعزاز کبھی نصیب نہیں ہوا بلکہ آج بھی اس کوڑ مغز کی ’’برکت‘‘ سے برصغیر تین ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے پاکستان، بنگلہ دیش اور خود بھارت اور اگر اس کوڑ مغز کی ’’برکات‘‘ اسی طرح رہیں تو آنجہانی چواین لائی وزیر اعظم چین کی پیشن گوئی کے مطابق بھارت کے مزید ٹکڑے ہوں گے) اور یا پھر انگریزی سامراج صرف سو سال تک پورے برصغیر کا حکمران رہ چکا ہے! برہمن بنیا یعنی اونچی ذات کے ہندو کی یہی نفسیاتی بیماری ہے کہ وہ انگریز کی جھوٹی لوری سے مست آج بھی جھوم رہا ہے مگر حقیقت میں وہ اکثریت میں نہیں ہے بلکہ بقول پروفیسر فتح محمد ملک، وہ آج بھی ’’ذہنی اقلیت میں مبتلا ہے‘‘ ہندو حقیقت میں بڑا ہے نہیں، خواہ مخواہ دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اونچا بننے کے جتن کرتا رہتا ہے! ہندو کی یہی نفسیاتی بیماری جنوبی ایشیا کی تمام بیماریوں کی جڑ ہے!
برطانوی عہد حکومت میں ہندو کانگریس کے ایک ہندو لیڈر جواہر لال نہرو نے یہ ڈینگ ماری تھی کہ برصغیر میں طاقتیں صرف دو ہیں ایک انگریز اور دوسری طاقت ہندو کانگرس ہے، اس پر محمد علی جناحؒ نے اسے للکارا تھا کہ پنڈت جی! یہاں تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہیں مسلمان، جنہوں نے ایک ہزار سال تک یہاں حکومت کی ہے اور آج بھی وہ مسلم لیگ کی قیادت میں ایک منظم طاقت ہیں! اس وقت بھی ہندو کانگریس کو محمد علی جناح کی یہ للکار اسی طرح کڑوی لگی تھی جس طرح بیس کروڑ آبادی والا ایٹمی پاکستان نریندر مودی جیسے تنگ نظر، چھوٹے ذہن والے مگر بڑا بننے کے لئے پریشان حال ہندو کو کڑوا لگتا ہے چنانچہ وہ کبھی پاکستان کو گیدڑ بھبکی دیتا ہے اور کبھی اچھل کر انکل سام اوباما کے کندھے سے لٹکتا دکھائی دیتا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ اس طرح نہ تو مودی کا قد بڑھ سکتا ہے اور نہ اس کا بھارت خطے کا تھانیدار بن سکتا ہے! لیڈر بننے کے لئے رعب دار شخصیت اور بلند کردار درکار ہوتا ہے۔!
مگر یہ رعب دار شخصیت اور بلند کردار تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے پاس تھا جب اس نے موتی لال نہرو کے لاڈلے جواہر لال نہرو کو للکارا تھا اور یہی رعب دار شخصیت اور بلند کردار اس کے پاس اس وقت بھی تھا جب وہ لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کو تاریخی تقریر کرتے ہوئے گرجا تھا! یہی وہی جناح تھا جس کی رعب دار شخصیت اور بلندی کردار نے ایک ہندو دیوی سروجنی نائیڈو کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ برصغیر کے گوشے گوشے میں گنگنانے لگی تھی کہ ’’محمد علی جناح ایک ایسے عظیم لیڈر ہیں‘‘ جو ہندو اور مسلمان دونوں کو محبوب ہیں! بلکہ وہ تو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر اور پیامبر ہیں!!‘‘
محمد علی جناح کی اس مقبولیت اور صلاحیت نے موتی لال نہرو اور گاندھی سمیت ہندو کانگریس کے ہندو لیڈروں کی نیندیں حرام کر دی تھیں کیونکہ انگریز کا بھاگنا طے تھا۔اور ہندوستان آزاد ہونے والا تھا ایسے میں لیڈر شپ اور وزارت عظمیٰ اسی کو سجتی تھی جو ہندو مسلم کا متفقہ اور محبوب لیڈر ہوتا، ایسے میں سیکولرزم اور جمہوریت کے منافقانہ دعووں سے سب کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا تھا! چنانچہ موتی لال نہرو اور گاندھی کے متفقہ اور منافقانہ منصوبے نے محمد علی جناح کو اس قدر زچ کر دیا کہ وہ تنگ آکر کانگریس سے الگ ہو گئے! مسلم لیگ چونکہ اس وقت بھی سرمایہ داری اور وڈیرہ شاہی کی لونڈی بنی ہوئی تھی اس لئے وکالت میں نام پیدا کرنے اور برطانوی جمہوریت میں مقام پیدا کر کے مسلمانوں کی خدمت کی غرض سے مسٹر جناح انگلستان چلے گئے تھے ملت کی ہمدرد مگر بیدار آنکھ اقبال دیکھ رہے تھے کہ ان کی صحت خراب ہو چکی ہے مگر برصغیر کی مسلم اکثریت ان پر بھروسہ بھی کرتی ہے اور ان سے توقع بھی رکھتی ہے! اس لئے قوم کو سرمایہ داری اور وڈیرہ شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اقبال نے قوم کو پاکستان کی راہ بھی دکھا دی مگر ساتھ ہی قوم کو قابل اعتماد لیڈر اور لیڈر کو قربانی دینے والی قوم بھی مہیا کر دی! اس لئے 23 مارچ 1940ء کو جب محمد علی جناحؒ نے گرج کر کہا تھا کہ انگریز سے جو آزادی ہندو کانگریس مانگ رہی ہے وہ صرف ہندو کے لئے ہے جس میں مسلمان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ مسٹر جناح قائد اعظم قرار پا گئے، مسلمانوں نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دے لیا! قائد اور ان کے پیرو کار ہندو مزاج نہ تھے بلکہ ہندو شناس تھے اس لئے کامیاب ہوئے مگر ہم میں سے جو آج بھی ہندو مزاج بن کر یعنی ہندو سے گھل مل کر کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں وہ ناکام ہو نگے!!