23مارچ1940ء۔۔۔تحریکِ پاکستان کا یوم الفرقان

23مارچ1940ء۔۔۔تحریکِ پاکستان کا یوم الفرقان
23مارچ1940ء۔۔۔تحریکِ پاکستان کا یوم الفرقان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قراردادِ پاکستان برصغیر میں ہندو مسلم تعلقات کا یوم الفرقان ہے۔ مسلمان پہلی صدی ہجری میں تین اطراف سے، یعنی جنوبی بھارت (دکن) افغانستان (سرحد و پنجاب) ایرانی مکران (سندھ) میں آئے، دکن میں آمدنے تجارتی اور تبلیغی، جبکہ سندھ اور سرحد میں عسکری کامیابی نے راستے کھولے۔ اولیاء اللہ کی اکثریت (داتا صاحب، غریب نواز اور دیگر) افغانستان سے آئی۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر اپنی فوجی ا ور اخلاقی برتری کئی صدیوں تک قائم رکھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کے قیام کے تین ادوار ہیں۔۔۔پہلا حکمرانی، دوسرا غلامی، تیسرا آزادی ہے۔۔۔ حکمرانی کا دور طویل اور رواداری کا آئینہ دار ہے۔ مسلم ہند کا دارالحکومت دلّی اور آگرہ تاحال غیر مسلم اکثریتی شہر ہیں۔ دورِ غلامی میں برطانوی انگریز کی حکمرانی تھی، جس نے سازش کے ذریعے متعصب، غیر روادار، انتہا پسند ہندو عوام کو مسلم حکمرانوں کے خلاف استعمال کیا، اس طرح 1857ء کو جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندی مسلمان مکمل طور پر برطانوی انگریز اور مکار ہندو کے رحم و کرم پر چلے گئے۔ برطانیہ کا استعماری طرز حکومت مغربی جمہوریت پر استوار تھا اور ہے۔ جمہوری اصول حکمرانی کے مطابق برطانوی استعمار کے جمہوری وارث ہندو تھے۔ مکار ہندو کا موقف تھا کہ برصغیر میں دو قومیں ہندو اور انگریز بستے ہیں۔ انگریزی بدیسی، یعنی غیر ملکی راج ہے اور مسلمان علیحدہ قوم نہیں، بلکہ ہندو مت کا حصہ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہندومت کے ماننے والوں کی تھی، لہٰذا یہ مسلم ہندو ہیں اور ہندوؤں سے جدا نہیں۔


مسلم قائدین کا پہلے دن سے موقف تھا کہ ہندو اور مسلم دو جداگانہ اقوام ہیں، ان کی تہذیب و تمدن اور تاریخ بھی جداگانہ اور متصادم ہیں، ان کے نام، لباس اور تعلیم بھی جداگانہ ہیں۔دونوں قوموں کی مذہبی رسومات اور طریق عبادت بھی مختلف ہے، قصہ مختصر دونوں کا صرف مذہب ہی مختلف نہیں، بلکہ ان کے ہیروز بھی مختلف، بلکہ متصادم ہیں، یعنی دونوں قوموں کے دوست اور دشمن بھی مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں یہ حقیقت ہے کہ قراردادِ پاکستان سے پہلے تک تمام مسلم قائدین انگریز سامراج سے آزاد ی کے لئے متحدہ جدوجہد کے حامی تھے اور متحدہ تحریک آزادی کو منظم اور موثر بنانے کے لئے ہندو مسلم دوستی کے خواہاں تھے۔ قائداعظمؒ نے اپنے سیاسی کیرئیرکا آغاز ہندو مسلم دوستی کے سفیر کے طور پر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں مسلم قائدین متحدہ ہندوستان اور متحدہ جدوجہد کے لئے سرگرم عمل تھے اور ان کاانتہا پسند ہندو قیادت سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ ان کی جداگانہ قومیت اور حیثیت کو آئینی اور ریاستی تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ ہندو قیادت مسلمانوں کی جداگانہ قومیت تو دور کی بات ہے، ان کو بُت پرست، مشرک ہندو مت کا حصہ قرار دینے پر مصر تھی۔ گو قائداعظمؒ کی کوششوں نے میثاق لکھنؤ کو عملاً معطل اور منسوخ کر دیا۔ تحریک خلافت کے دوران مشترکہ جدوجہد نے میثاق لکھنؤ کی جداگانہ ساکھ کو نہ صرف متاثر کیا ،بلکہ گاندھی نے عدم تشدد کے بہانے تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کی اور عملاًشیوا جی اور افضل خان کی یاد تازہ کر دی۔ تحریک خلافت کی پشت میں چھرا گھونپ دیا۔


تحریک خلافت اور قراردادِ پاکستان کا دورانیہ تقریباً 20سال(1920 تا1940ء) کا ہے، جس میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف سنگھٹن اورشدھی کی تحریک شروع کی۔ نہرو رپورٹ اور کانگرس وزارتوں کے دوران ہندوؤں نے صلیبی انگریز سے ساز باز کر کے مسلمانوں کے وجود کو نابود کرنے کا عزم کر لیا تھا، جنگ عظیم دوم نے حالات بدلے، برطانیہ کو جنگ کے لئے ہندی فوج کی ضرورت تھی، جس میں بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ برطانیہ کو مسلم فوجی کی ہمدردی درکار تھی۔ دریں صورت ہندو انگریز گٹھ جوڑ نے مسلم قائدین کو متحدہ قومیت اور متحدہ ہندوستان سے مایوس کر دیا تھا۔ حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے خطبہ الٰہ آباد (دسمبر1930ء) میں مسلم اکثریتی علاقے (مشرقی و مغربی ہندوستان) میں الگ آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کر دیا تھا۔علامہ اقبالؒ قائداعظم ؒ کے دوست، مرشد، رہنما اور دستِ راست تھے۔ قائداعظم ؒ کی قیادت کا کمال ہے کہ جب انہوں نے اقبال پارک(سابق منٹو پارک23مارچ 1940ء) کو آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا تو انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ کے خلاف مزاحمت اور استقامت کی سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔قراردادِ پاکستان قائداعظم ؒ کے عزم صمیم کی مظہر ہے۔ قائداعظم ؒ نے قرارداد کی منظوری کے بعد دن رات کام کیا۔ قائداعظم ؒ کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ انہوں نے حصولِ پاکستان کے لئے منتشر مسلم عوام کو سات سال کی قلیل مدت میں متحد، منظم اور موثر قوت بنا دیا۔اگر قائداعظم کے ساتھی اور مسلم لیگ کے مخلص اور بے لوث کارکن انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار نہ بنتے تو پاکستان نہ بنتا۔


1945-46ء کے عام انتخابات میں ہندی مسلم عوام نے ملی یکجہتی اور ایثار کا ثبوت دیا اور تقریباً100فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں دیا۔ یہی سبب تھا کہ ماؤنٹ بیٹن کو کہنا پڑا کہ قیام پاکستان پاگل پن ہے، مگر اس کو روکا گیا تو ہندوستان خونریز خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا ۔ مسلمان بہترین جنگجو قوت ہیں، اس طرح وہ سارے ہندوستان پر دوبارہ اسلامی حکومت قائم کر لیں گے۔ تقسیم ہند کے وقت برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی تھے ،جنہوں نے اپنی کتاب’’ یادداشت‘‘ میں لکھا ہے کہ میرے دور کا ناگوار ترین واقعہ قیام پاکستان ہے۔ہم نے ہندی مسلمانوں کو قیام پاکستان سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، مگر مسلمان قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کے جھڈے تلے ایک متحد اور منتظم آواز بن گئے تھے اور ہمیں وہی کچھ کرنا پڑا جو وہ چاہتے تھے۔ پیغمبر اسلام محمد مصطفی ؐ کا فرمان ہے کہ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ جو ارادہ کر لیں، وہی اللہ کا ارادہ بن جاتا ہے۔


برطانوی صلیبی سرکار نے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کر نے کے لئے کرپس مشن اور کابینہ پلان بنائے، جبکہ گاندھی اور کانگرس نے انگریز راج کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی جو تین ماہ میں ختم ہو گئی۔ گاندھی، کانگرس اور ہندو عوام نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ اگر قائداعظمؒ اور مسلم لیگ انگریز کے ایجنٹ نہیں تو انگریز سے آزادی کے لئے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں شامل ہوں اس ضمن میں قائداعظم ؒ کا موقف تھا کہ گاندھی اور کانگریس ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں، نیز مسلمان جذباتی قوم ہے جلسے جلوسوں اور مظاہروں سے جیلیں بھر دیں گے اور اس طرح مسلمانوں کی قوت بکھر جائے گی، حصول پاکستان کی منزل دور ہو جائے گی اور گاندھی تحریک خلافت کی طرح اہنسا، یعنی عدم تشدد کا بہانہ بنا کر علیحدہ ہو جائیں گے۔ نیز ہندو مسلمانوں کے بغیر عوامی تحریک چلانے کی ہمت نہیں رکھتے، مسلمان عوام تین ماہ صبر کریں۔ گاندھی اور کانگرس کا ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کا بخار اُتر جائے گا اور ایسے ہی ہوا۔ قائداعظمؒ دور اندیش مدبر تھے، پاکستان کی سلامتی بھی قائداعظمؒ کی پالیسی میں ہے۔ پاکستان برصغیر اور جنوبی ایشیا میں اسلامی روایت کا امین ہے، اس میں مسلمانوں کی بقا اور سلامتی ہے۔ بقول شاعر:
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس دیس کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے

مزید :

کالم -