جاگ مسیحا

جاگ مسیحا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تنگدستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اسد اللہ خاں غالب نے ان دو سطروں میں ایک صحت مند اور خوشحال زندگی کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ حقیقت میں اس کرۂ ارضی پر تنگدستی اوربیماری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ابھی تک کوئی ایسا معاشرہ معرض وجود میں نہیں آیا جہاں غربت اوربیماری نہ ہو۔ یہ درست ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے اے چارہ گراں جب پینے کے لئے صاف پانی میسر نہ ہو کھانے کے لئے متوازن غذا نہ ملے، رہنے کے لئے صاف ستھرا ماحول نہ ہو۔ آج تک غربت کو ماپنے کا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا۔ البتہ ہمارے اردگرد بے شمار ایسی مثالیں بکھری پڑی ہیں جنہیں دیکھ کر انسانی دکھوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ پرانی بات ہے مظفر گڑھ میں ایک ڈاکٹر کے پاس بیٹھا تھا ایک عورت اپنے بیمار بچے کو دکھانے کے لئے آئی۔ ڈاکٹر نے نسخہ لکھ کر اسے بازار سے دوائی لینے کے لئے کہا تو وہ بولی:’’ ڈاکٹر صاحب! میں شاہ جمال سے آئی ہوں اور میری جیب میں صرف واپسی کا کرایہ ہے۔ مجھے دوائی دے دیں۔۔۔مَیں نے جب ڈاکٹر سے بات کی تو اس نے کہا کہ ہسپتال میں دوائیں نہیں ہیں ۔ ہم مریضوں کو نسخہ لکھ دیتے ہیں اوروہ بازار سے خرید لیتے ہیں۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ غربت کیا ہے؟ مَیں نے اپنی جیب سے اس خاتون کو دوا لے کر دی ،مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے۔ کیا ہم اپنی اپنی حیثیت میں انصاف کررہے ہیں؟ کیا ریاست منصف کا کردار ادا کر رہی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔


ایک طرف بڑے شہروں میں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔ دوسری جانب دور افتادہ علاقوں میں لوگ علاج معالجے کی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں۔دیہاتی علاقوں میں ڈسپنسریاں ڈاکٹروں اوردواؤں سے خالی پڑی ہیں۔ ہمارے مسیحا پسماندہ علاقوں میں اس لئے جانا پسند نہیں کرتے کہ وہاں شہری سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ وہاں کمانے کے مواقع مفقود ہیں۔طب کا پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے۔ جس طرح معاشرے میں تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں اسی طرح اس میدان میں بھی بے لوث لوگ پائے جاتے ہیں اور لالچی اوربے حِس بھی۔میں ایک چھوٹے شہر چنیوٹ کا باسی ہوں۔ مَیں ایک ایسے مسیحا کا ذکر کرنا چاہوں گا جس نے زندگی کے آخری لمحے تک نادار اور غریب مریضوں کی خدمت کی۔ اس کا نام ڈاکٹر یٰسین ہے۔ اللہ مغفرت کرے اس عظیم سپوت نے ایک پرائیویٹ فلاحی ہسپتال میں سروس کاآغاز کیا اورآخری سانس تک اسی ادارے سے منسلک رہا۔ اس نے ٹی بی جیسے موذی مرض کے خلاف جہاد کیا۔ یہ درویش صفت ڈاکٹر کچی بستیوں میں موٹر سائیکل پر جاتا اور مفلوک الحال مریضوں کا مفت علاج کرتا۔ دوسری مثال مَیں نے چشتیاں میں تعیناتی کے دوران دیکھی۔ ایک ڈاکٹر صاحب کا کیس ٹیکس آڈٹ میں آگیا۔ وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی صحیح آمدنی ظاہر کی ہے، جس میں مزید اضافہ ان پر بوجھ ہوگا۔ جب میں نے ان کے مریضوں سے تصدیق کی تو پتہ چلا کہ وہ شہر بھر میں حقیقی مسیحا کا کردار ادا کررہے ہیں۔ مَیں نے مزید ٹیکس نہ لگا کر انہیں عزت سے رخصت کیا۔


یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اب ملاحظہ کیجئے دوسرا رخ۔ پچھلے دنوں میری بیٹی ایک جلدی مرض میں مبتلا ہوئی تو مَیں نے شہر کے معروف ماہر امراض جلد سے رابطہ کیا۔ ان کے پرائیویٹ کلینک میں حاضر ہوا تو مجھ سے قبل16مریضوں کو ٹوکن دیئے جا چکے تھے۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد میری باری آئی تو اس وقت پچاس ٹوکن دیئے جا چکے تھے۔ خیر ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے بعد نسخہ لکھ دیا اور دو ہزارروپے فیس چارج کرنے کے بعد فرمایا کہ ایک دوائی میرے کلینک سے بھی لیتے جانا جس کی قیمت سات سو روپے تھی۔ دوائی اورنسخہ تھامے جب ڈاکٹر صاحب کے بتائے ہوئے میڈیکل سٹور پر گیاتو وہاں دوائی موجود نہیں تھی۔ یہ مخصوص دوا شہر کے کسی بھی سٹور سے نہ مل سکی۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ایک ماہر ڈاکٹر اگر اورسطاً 50مریض روزانہ دیکھتا ہے اوردو ہزار روپے فیس لیتا ہے تو اس کی سالانہ آمدنی تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے بنتی ہے۔ کوئی اور ایسا پیشہ ہے کہ جس میں ایک رائٹنگ پیڈ اور قلم کے جادو سے اتنی کثیر دولت اکٹھی کی جاسکے؟


مَیں چونکہ ٹیکس کے شعبے سے وابستہ ہوں اور34سال لوگوں کے ٹیکس معاملات کو دیکھتا رہا ہوں جن میں طب کے پیشہ ور لوگ بھی شامل تھے۔ مَیں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ایسے ’’ مسیحا‘‘ نہ صرف مریضوں کا استحصال کررہے ہیں بلکہ ٹیکس چوری میں بھی ملوث ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر اس مقدس پیشہ میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت ایک حلف نامہ دیا جاتا ہے جس میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا ذکر واضح طور پرموجود ہے۔ یہ حلف اوردیگرشرائط پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ممبر شپ کے لئے لازمی ہیں۔ ایک مسلم ڈاکٹرکے لئے یہ حلف نامہ غیر مسلم ڈاکٹر سے مختلف ہے ،کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔۔۔ کیا کیا جائے کہ۔دولت کی ہوس نے انسان کو اندھا کردیا ہے۔ کاش وہ یہ سوچتا کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے اورجب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دوگز کپڑے کے علاوہ کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاتا۔ سرمایہ داری نظام میں منافع ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ شاید اس نظام میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ سرمایہ کار منافع خوری کو ہی اپنا دین ایمان سمجھتے ہیں۔ جب حکومتیں ہی سرمایہ داروں کی دست نگر ہوں تو ان کا احتساب کون کرے گا؟


امریکہ جیسے مہذب ملک میں انتخابات جیتنے کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ اوباما کی انتخابی مہم کے لئے دوائیں بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 10ارب ڈالر چندہ دیا اور پورے آٹھ سال تک نہ صرف امریکہ میں لوٹ مار کی، بلکہ غریب ملکوں پر بھی ڈاکے ڈالے۔ ہمارے ملک میں ان کا طریقہ واردات مختلف نہیں ہے۔ جب بکنے والے موجود ہوں تو نہ کوئی ادارہ بچتا ہے اورنہ ہی فرد۔ بازار میں فشار خون کو قابو میں رکھنے کے لئے 100سے زائد دوائیں موجود ہیں۔ ان میں کم قیمت اوربیش قیمت دونوں قسم کی دوائیں شامل ہیں۔ اب یہ ڈاکٹر کی صوابدید پر ہے کہ وہ کون سی دوا تجویز کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کمپنیاں بھاری رشوتیں دے کر ڈاکٹروں کو اپنی دوائیاں تجویز کرنے پر قائل کرتی ہیں۔ غیر ملکی تفریحی دورے اور قیمتی تحائف دے کر بالواسطہ مریضوں کی جیبیں صاف کی جاتی ہیں۔


ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شیخ رشید وزیر صحت نے جب جنرک دوائیوں کا نظام متعارف کروایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اورزرداروں نے اسے بالآ خر فیل کردیا۔ آج بھی 5روپے والی دوائی ایک سو روپے میں بک رہی ہے۔ یہ پیٹنٹ کا کمال ہے۔ حال ہی میں دوائیاں بنانے والی کمپنیوں نے قیمتوں میں اضافہ کیا تو حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔پولیو ویکسین کے موجد جونس سالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کروالیں۔ انہوں نے بڑا خوبصور ت جواب دیا کیا تم سورج کی شعاؤں کوپیٹنٹ کرسکتے ہو؟ قدرت کی عنائیات کسی معاوضے کے بغیر ہو رہی ہیں۔ آج اگر ہوا عطا کرنے والا اس پر قدغن لگا دے تو ایک بھی زی روح زندہ نہ بچے فطرت ہمیں یہ سبق سکھا رہی ہے کہ دینے والے کے شکر گزار بنو اور اس میں سے دو جو تمہیں عطا کیا گیا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر

مزید :

کالم -