یوم پاکستان اور اس سے آگے
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ لگن اور برداشت جیسی صفات قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ کرتی ہیں۔کچھ قومیں اپنی بقا کیلئے جدّو جہدمیں مصروف رہتی ہیں تواس کے برعکس کچھ قومیں مقصد اور آگے بڑھنے کے جذبے کے تحت اپنی پہچان بنانے میں جُتی رہتی ہیں۔ 23 مارچ کا دن پاکستانی ایسے ہی جذبے کی یاد تازہ کرنے کیلئے مناتے ہیں۔1940ء کے ایک دن ، لاہور کے منٹو پارک میں ، اس قوم نے آگے بڑھنے اور دنیا کے نقشے پر ایک آزاد قوم کے طور پراپنی حیثیت منوانے کا فیصلہ کیا۔برصغیر کے مسلمان رہنماؤں نے بجا طور پر آزادی اور خود مختاری کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھااور پھر 23مارچ 1940کووہ دن آیا ،جب انھوں نے تاریخ کا دھار ا بدل دیا۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس دن ایک ملک اور ایک قوم کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس سے پہلے ، برصغیرکے مسلمان خوش دلی سے ہندوؤں اور برٹش راج کے ساتھ ایک ایسے دستوری تصّور تلے زندگی گزارنے پر آمادہ تھے جس میں ان کے مذہبی اور سیاسی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہولیکن اس سلسلے میں مسلمانان برصغیر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ 23مارچ کے تاریخی دن پاکستان کے قیام کی جدّو جہد کا باقاعدہ آغاز ہوا۔یہ محض ایک خوبصورت تاریخی اتفاق ہے کہ 23مارچ کے دن ہی بھگت سنگھ کوسال 1931ء کے دوران لاہور میں پھانسی دی گئی جبکہ ان کی عمراس وقت23سال تھی۔شائد ، تقدیر کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے۔
قرار داد پاکستان1940ء کا ایک اور دلچسپ پہلو اس کا مناسب وقت ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ، برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے مقاصدکی پہچان حاصل کر لی تھی۔ قائد اعظم نے عوام کو باور کرا دیا تھا کہ عزم و ہمّت جیسی صفات کے ساتھ ظلم کے امکان کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ منٹو پارک میں قائد اعظم نے تاریخی تقریر کی جس میں انھوں نے ہندوستان کی متعلقہ یا مقامی قیادت کی مشاورت کے بغیر ہندوستانی فوجیوں کو دوسری جنگ عظیم کا ایندھن بنانے پر برطانوی حکمرانوں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔قائد اعظم نے اس موقع پر 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے عوامل کو بھی مفصّل بیان کیا۔اس عظیم تاریخی اجتماع کے موقع پر راہنما اور پیروکار اپنی امنگوں اور مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک صفحے پر تھے اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا۔قرار داد پاکستان کے ساتھ ہی سخت جدّو جہد اور کوشش کے نتیجے میں تمام مشکلات کے باوجود بالآخر 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔
لاکھوں مہاجرین کی آمد، پنجاب میں قتل عام، کشمیر کے معاملہ پر ہندوستان کے ساتھ جنگ اور وسائل کی مطلق کمیابی جیسے مسائل سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ نئی وجود میں آنے والی ریاست اپنے آغاز میں ہی ناکام ہو جائے گی۔بہت سوں نے اس بات کی پیش گوئی کر دی تھی کہ یہ کمزور ریاست دس سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے گی۔محمد علی جناح کا 1948ء میں وصال ہو گیا جب کہ لیاقت علی خان کو1951ء میں قتل کر دیا گیا۔محض احساس جرم اور بہادری کے ملے جلے جذبات کے زیر اثر قوم ترقّی کے سفر پر گامزن رہی۔ یہاں تک کہ 1956ء میں 23مارچ کے ہی دن ایک اور بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے دیا گیا۔مسلم لیگ کا قیام 1906ء کو عمل میں آیا جبکہ پہلا اسلامی دستور اسکندر مرزا کے دور حکومت میں نافذ ہوا ۔پاکستان اب جدید اور شاندار جمہوری نظام میں اسلامی تصورات کے اشتراک سے خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہو گیا لیکن عظیم فلسفی ہیگل کے الفاظ میں ، "مجھے دردناک ماضی رکھنے والی مضبوط قوم کو ابھی دریافت کرنا ہے"کے مصداق یہ ایک کٹھن کام تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بطن سے ایک پولرائزڈ دنیانے جنم لیا۔ برلن کیا تقسیم ہوا گویا دنیا ہی تقسیم ہو گئی ۔ مشرق بمقابلہ مغرب، لبرل ازم بمقابلہ سوشلزم اور سرمادارانہ نظام بمقابلہ اشتراکی نظام جیسی اختراعات سامنے آئیں۔ پاکستان بھی جلد یا بدیر ان شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔اگرچہ پاکستان میں سوشلزم کے فروغ کیلئے کافی سیاسی تحریکیں وجود رکھتی تھیں لیکن پاکستان کے حکومتی اکابرین نے مغرب کے لبرل ازم کی حمایت کو ترجیح دی۔حکومت پاکستان نے امریکہ اور مغرب پروری پر مبنی خارجہ پالیسی تشکیل دی۔اگر سیاق و سباق سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان نے جارح ہندوستان کے مقابلے میں اپنے سیکیورٹی چیلنجز کو مدّ نظر رکھتے ہوئے مغرب کے ساتھ اتحاد کا بہت بڑا رسک لیا۔1958ء میں پہلے مارشل لاء کے بعد جنرل ایّوب خان سوویت بلاک کے خلاف ایک غیر فطری فوجی اتحاد کو تشکیل دینے کی کوششوں کا حصّہ بنے۔1955میں پاکستان سینٹو اور 1962میں سیٹو کا حصہ بنا۔ پاکستان اس غیر فطری اتحاد سے دیر پا فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔1962ء میں چین بھارت جنگ اور پاکستان و چین کے مابین اٹوٹ بھائی چارے نے مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔
اس تعلق کے نتیجے میں اب مغربی بلاک ہندوستان پر مہربان ہونے لگاجس کے واضح نتائج 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے مارشل لاء کے بعد پاکستانی قیادت ایک مرتبہ پھر 1979ء میں افغانستان میں روسی افواج کے داخلے کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں امریکی امداد کے زیر اثر آگئی جس کے نتیجے میں جنگ کی آگ اور دہشت گردی کا عفریت پاکستانی شہروں میں داخل ہو گیا۔چین اس دوران ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں کے اس خطّے میں اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف رہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ علاقائی تعلقات کو فروغ دے کراپنی حقیقی صلاحیت کا اظہار کرے۔ 23مارچ 1917ء پاکستان اور چین کیلئے ایک نئے اُفق کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔ جدید دنیا ایک قوم کے وسیع و مختصر اقتصادی پھیلاو کی کامیابی و ناکامی کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ ہم بیرونی مداخلت سے آزادی اور دفاع کوصرف اور صرف احساس برتری کے جذبے ، پیداواری اور تجارتی مسابقت کی بدولت ہی ممکن بنا سکتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری اپنی نوعیّت کا ایک منفرد منصوبہ ہے۔ یہ نہ صرف صنعتی،بنیادی ڈھانچہ جات اور تجارت کو فروغ دینے کا باعث بنے گا بلکہ چین اور پاکستان کے عوام میں سماجی و ثقافتی رشتے کو بھی مضبوط کرے گا۔اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوا ہے جس کی بنیاد امداد اور خارجہ پالیسی میں مداخلت کی بجائے باہمی تعلّق پر اُستوار ہے۔سی پیک پاکستان اور خطّے کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ شاہراہ ریشم کی حیات نو اور اس کے ذریعے ہونے والے وسیع اور واضح تجارتی ماحصل سے قائداعظم کے قیام پاکستان کے خوابوں کو تعبیر ملے گی۔ پاکستان اگرچہ کوفت کے دورسے گزر رہا ہے لیکن امید اب بھی باقی ہے کیونکہ ہر تاریکی کے بعد سحر ہے۔ (مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)