قرارداد پاکستان ،عوام کوملا کیا؟
آج پوری قوم قرارداد پاکستان منارہی ہے۔اچھی بات ہے ۔لیکن اس سے زیادہ اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم سب سوچیں اس دن کی نسبت سے جو تقاضے ہم سے منسوب ہیں کیا ہم ان سے عہدہ برا ہوپائے ہیں۔کہیں ہم کل بھی غلام تھے تو آج بھی غلام تو نہیں ۔نظر تو یہی آتا ہے کہ ہم ہنوز غلام ہیں۔نہیں تو سوچ لیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیانیہ میں اس با ت کا برملا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومتِ وقت نے رواں مالی سال کے دوران دس کھرب نوے ارب اور چھ کروڑ روپے کا قرض صرف مرکزی بینک سے لیا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم ستر بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور اگر اس میں پاک چائنہ راہداری والے قرضوں کو بھی شامل کر لیا جائے ،تو یہ تقریباََنوّے بلین ڈالر بنتا ہے۔کیا یہ قرضہ غلامی کا اشارہ نہیں ؟
پاکستان کی تاریخ میں سب زیادہ قرض لینے والی اس حکومت کے،بے بنیاد دعوؤں اور عوام سے کی جانے والی منافقت کا پردہ اْس وقت چاک ہوتا ہے،جب ہم آئی ایم ایف کے اس انکشاف کو دیکھتے ہیں۔جس میں کہا گیا ہے ’’کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا پینسٹھ فیصد قرضوں کی مد میں وصول کرتا ہے‘‘۔پی پی پی کے دورِ حکومت میں یہ شرح 64فیصد تھی جبکہ مشرف کی حکومت میں 54فیصد رہی۔
روزبروز بڑھتا ہوا اندرونی اور بیرونی قرضوں کا یہ بوجھ ،جسے حکومت معاشی اعدادوشمار کے ہیر پھیر سے سادہ لوح عوام سے چھپانے کی کامیاب کوششیں کر تی رہتی ہے۔مستقبل قریب میں عوام کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوگا۔اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ بیس ہزار ورپے کا مقروض ہو چکا ہے۔جس کا خمیازہ انہیں غلامی ،غربت،بے روزگاری،ناانصافی اور ملاوٹ شدہ خوردونوش کی صورت میں برداشت کرنا پڑرہا ہے۔جبکہ کبھی جمہوریت کا سبز باغ دیکھا کر اور کبھی آمریت کے فوائد سناکر عوام کا استحصال کرنے والے ،یہ حکام اپنی اس بے حسی اور انسانیت کشیْ کو محسنیت کا درجہ دلوانے کی خاطر گاہے بگاہے بین الاقوامی رسائل و جرائد میں خود ساختہ اور بے بنیاد رپورٹس شائع کروانے کو ہی اپنا فرضِ منصبی سمجھے بیٹھے ہیں۔حالانکہ ان کوریاستی اداروں کی حالتِ زار پر توجہ دینی چاہیے جن کا جائزہ مندرجہ ذیل سطور میں لیا جارہاہے۔
مالی سال 2015ء سے 2016 کے بجٹ کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں ۔تو 44 کھرب اور95ارب روپے کے اس ٹوٹل بجٹ میں سے محکمہ تعلیم جیسے اہم ادارے کے لیے صرف 79.5 ارب روپے مختص کیے گئے۔جبکہ ہمارے نظامِ تعلیم کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ 6 کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہیں اور جو بچارے خوش قسمتی سے کسی سرکاری سکول میں پڑھ رہا ہے اس کی تعلیمی ضروریات پوری نہیں ہورہیں۔لیکن کل آبادی کا 2.6 فیصد جو کسی نہ کسی طرح یونیورسٹی کی سطح تک پہنچتا ہے وہ بھی مایوس اور نااْمید ہی دیکھائی دیتا ہے۔
اسپتالوں کی موجودہ کارکردگی کا اندازہ خادمِ اعلیٰ کے پیرس ، لاہورکے اسپتالوں میں زندگی کی بھیک مانگتی وہ بوڑھیا کی موت سے لگایا جا سکتا ہے ۔۔ایک اندازے کے مطابق روزانہ 5لاکھ لوگ اسپتالوں کا رْخ کرتے ہیں جو بچارے مفت علاج کی بجائے اپنی جمع پونجھی خرچ کر دینے کے باوجود بھی بہتر علاج سے محروم ہی رہتے ہیں۔جبکہ ان غریب لوگوں کے نا م پر حاصل کردہ قرضوں سے ،خود کو ماورائے قانون سمجھنے والا یہ حکمران طبقہ بیرونِ ملک سے علاج کروانے چلا جاتا ہے۔انگزیز اور ہندو سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی جن حکمرانوں کو اپنے ملک اور قوم سے وفا اور اسکی قدر کرنا نہ آئے اسے غلامانہ سیاست نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔