بلوچستان ماڈل
سینیٹ الیکشن کے بعد سیاسی استحکام آنے کے بجائے غیر یقینی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ شاید سینیٹ کے انتخابات وقت پر نہ ہوں۔ اگرچہ سارا عمل شیڈول کے مطابق ہی مکمل ہو گیا، لیکن اس حوالے سے شک کرنے والوں کے خدشات کسی طور غلط نہ تھے۔
سینیٹ الیکشن مقررہ وقت پر نہ کرانے کی بات کی ہی اس لئے جارہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) کسی طور کامیاب نہ ہونے پائے۔ بلوچستان اسمبلی میں ’’آپریشن‘‘ کے بعد یہ خطرہ پوری طرح سے ٹلا تو الیکشن کرا دئیے گئے۔ سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصل ٹارگٹ حاصل نہ ہوتا تو شاید الیکشن بھی نہ ہوتے۔ اب عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔
یہ کہا جارہا ہے کہ حلقہ بندیوں یا کسی اور معاملے کا سہارا لے کر نگران حکومت کی مدت بڑھا دی جائے گی۔ بہت اعلیٰ سطح سے ایسی اطلاعات موصول بھی ہوئی ہیں کہ عام انتخابات چند دنوں کے لئے ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے ماڈل کو مدنظر رکھا جائے تو پھر عام انتخابات کے انعقاد کا آئیڈل وقت وہی ہو گا جب یہ یقینی بنا لیا جائے کہ مسلم لیگ(ن) کسی طور اکثریت نہ لینے پائے۔ مسلم لیگ(ن) ہی کیوں، بلکہ کوئی بھی پارٹی ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے جس میں مختلف جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔ سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا اتحاد اسی اصل ہدف کی جانب قدم آگے بڑھانے کی علامت ہے۔
سیاسی افراتفری کے اس دور میں یہ تو بالکل واضح ہو چکا کہ کون اسٹیبلشمنٹ کے لئے استعمال ہو گا اور کون زیر عتاب رہے گا۔ عام تاثر یہی ہے کہ عدالت سے نااہلی کے بعد عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ابھرنے والے مورال کو ڈاؤن کرنے کے لئے نواز شریف کو عام انتخابات سے کچھ پہلے سزا سنا دی جائے۔ اندازہ یہی ہے کہ اس طرح پارٹی کو تتربتر کرنے میں آسانی ہو گی۔ شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں پر نیب کے مقدمات بنا کر بری طرح سے الجھا دیا جائے گا۔
یعنی 2002ء والا منظر ہو گا۔ لوٹے اور کھوٹے بھاگ جائیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے لئے انتخابی مہم تک چلانا مشکل ہو جائے گا۔
توہین عدالت کے مقدمات میں (ن) لیگ کے بعض دوسرے عقابوں کو بھی جیل میں ڈالا جائے گا۔ مقتدر حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد نواز شریف اوران کی صاحبزادی مریم جو مہم چلارہے ہیں اس سے اداروں کے بارے میں منفی
تاثر پھیل رہا ہے۔ آج 2018ء میں ادارے اس پوزیشن میں نہیں کہ اس قسم کی مہم کو برداشت کر سکیں۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں ڈالنے سے پہلے ہی ان کی عدالتی زبان بندی کر دی جائے۔ الطاف حسین فارمولے کے تحت دونوں کے بیانات ،بلکہ ہر طرح کی سرگرمیاں میڈیا کے لئے بین کر دی جائیں۔ ضرورت پڑنے پر اس فہرست میں بعض اور ناموں کا اضافہ بھی کیا جا سکے گا۔ عدالتوں کو اس نوع کا فیصلہ دینے میں بظاہر کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ یہ پیغام بالکل واضح انداز میں تمام متعلقہ حلقوں تک پہنچا دیا گیا ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت کے لئے اب کوئی گنجائش موجود نہیں۔
اس طرح ہر ایک کو یہ آسانی ہو گی کہ وہ موجودہ نام نہاد سویلین حکومتی ڈھانچے کے ساتھ جو چاہے وہ سلوک کرے۔ مقتدر حلقے ہر طرح سے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔
اب تک پیش آنے والے واقعات سے تو یہی نظر آرہا ہے کہ بات صرف نواز شریف تک نہیں رکے گی، بلکہ شہباز شریف کو بھی لپیٹ لیا جائیگا، اس کی سب سے بڑی نشانی وزیراعلیٰ پنجاب کے سب سے قریبی بیوروکریٹ احد چیمہ کو کسی عادی مجرم کی طرح اٹھا کر لے جانا ہے۔
اب تو پنجاب حکومت بھی برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ بات کھلم کھلا کہی جارہی ہے کہ نگران حکومتوں کے قیام کا معاملہ بالآخر عدالتوں کے پاس ہی جائے گا یعنی یہ سب پلان کا حصہ ہے۔ 2014 ء سے مسلسل جاری اس گیم کے دوران یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ نواز شریف کو کسی بھی طرح حکومت سے آؤٹ کر دیا جائے تو وہ سیاست سے خودبخود آؤٹ ہو جائیں گے۔
اس عرصہ کے دوران وقفے وقفے سے استعفیٰ طلب کیا گیا ،مگر ممکن نہ ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت سے نااہلی کا فیصلہ آنے سے پہلے اور بعد میں بھی سابق وزیراعظم کو یہ آفر دی گئی کہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں ،مگر وہ نہیں مانے۔ ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر وہ شاید
مشرف دور میں جدہ جانے والی غلطی دھرانا نہیں چاہتے تھے یا شاید انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ اگر انہوں نے اس طرح کا کوئی کمپرومائز کیا تب بھی انہیں بخشا نہیں جائے گا۔
مخصوص میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی کرنے کے ساتھ ساتھ غیر حاضری میں نہ صرف مقدمات چلیں گے، بلکہ سزائیں بھی سنائی جائیں گی سیاسی طور پر بہتر ہو گا کہ وہ ملک میں رہ کر ہی حالات کا سامنا کریں۔ شاید یہی وہ نکتہ تھا جو نواز شریف کے حوالے سے مقتدر حلقوں میں پہلے سے موجود شدید ناراضگی اور غصے میں مزید اضافے کا سبب بن گیا۔
سول ملٹری کشمکش کے اس اہم موڑ پر غیر جمہوری قوتوں کی مکمل دھاک بٹھائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وفاق کی سطح پر بھی بلوچستان جیسا تجربہ ہی دھرایا جائے، کسی قدوس بزنجو پر وزیراعظم کا لیبل لگا کر اسٹیبلشمنٹ کی معاون سیاسی جماعتوں کو اسے ووٹ ڈالنے کی ہدایت کر دی جائے۔ اقتدار نہ چھوڑنے کے حوالے سے نواز شریف کی ضد کے باعث اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملانا پڑا، ویسے اعتبار تو ان کو پی ٹی آئی پر بھی نہیں، مگر اب ایسی اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم کے لئے بھی جگہ بنائی جارہی ہے۔
دیکھنا تو یہ ہے کہ اس تمام صورت حال سے نمٹنے کے لئے (ن) لیگ کے پاس بھی کوئی پلان موجود ہے یا نہیں۔ مقتدر حلقے تو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ صرف وہ ہی نہیں، بلکہ کئی بیرونی ممالک کی حکومتیں بھی نواز شریف سے ناراض ہیں، یہ اشارہ امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کی جانب ہے، کیونکہ چین اور ترکی کو نہ سی پیک کا کوئی غم ہے نہ ہی فوج نہ بھجوائے جانے پرکسی قسم کا غصہ ۔
سو تاثر یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حتمی فیصلے کر لئے ہیں اور اب معاون ریاستی ستونوں کے ذریعے اس پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی جائیگی، کیا ایسا ہو پائے گا؟ اور تو اور اس کے بارے میں وہ لوگ بھی بدگمان پائے گئے جنہیں ریاست کی بہت اعلیٰ سطح سے براہ راست اگلا لائحہ عمل جاننے کا موقع ملا۔
ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ہمیں جو نئے موسموں کی خوشخبری سنائی گئی ہے خدا کرے کہ اس کو حقیقت میں وقوع پذیر ہوتا ہوا بھی دیکھیں۔ ویسے جو کچھ کیا جارہا ہے اس میں نیا کیا ہے۔
پاکستانی قوم 1950 ء کی دہائی سے ہی ایسے کئی ایڈونچر دیکھ چکی ہے۔ رہ گیا سب کے یکساں اور شفاف احتساب کا معاملہ تو حالیہ تاریخ میں اس کے سب سے بڑے داعی جنرل مشرف
تھے۔ نواز حکومت کا تختہ الٹتے ہی انہوں نے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور لٹیروں کو انجام تک پہنچانے کا نعرہ لگایا۔ ملک کے چوٹی کے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو بھی دھر لیا گیا۔
بڑے بڑے معززین تھانہ سرور روڈکے حوالات میں فرش پر بیٹھے پائے گئے۔ سیاسی مخالفین یعنی شریف خاندان کو تو رگڑا لگانا ہی لگانا تھا، مگر ایک بار یہ تاثر بننے لگا کہ شاید واقعی سب کا احتساب ہو گا۔
زیادہ وقت نہیں گزرا جب فوجی آمر کو احساس ہوا کہ وہ اپنے اقدامات کے باعث نہ صرف معیشت، بلکہ پورے ملک کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے۔ سو احتساب گیا بھاڑ میں۔ الیکشن 2002 ء کا وقت آیا تو رہی سہی کسر بھی تمام ہو گئی۔
نائن الیون کے بعد ہونے والی افغان جنگ میں اربوں ڈالر آئے، مگر پتہ نہیں چلا کہ کہاں چلے گئے۔ ویسے اچھا ہی ہو گا کہ کوئی جاننے کی کوشش بھی نہ کرے۔ اب ایک دفعہ پھر احتساب کا نعرہ بڑے زور و شور سے لگایا گیا ہے۔
اس حوالے سے چند ماہ قبل سندھ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سو تاثر یہی ہے کہ اس مرتبہ بھی سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے نام نہاد احتساب کا بیانیہ استعمال کیا جائے گا۔
ایک طرف نئے سرے سے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے تو دوسری جانب ناپسندیدہ سیاسی عناصر کو دیوار سے لگانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں شہباز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ ملک کو تصادم کی صورت حال سے بچانے کے لئے فوج عدلیہ اور پارلیمنٹ کو مل بیٹھنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ معاملات اب بھی طے ہو سکتے ہیں۔
صلح جو لیگی رہنماؤں کے ایسے بیانات سے پارٹی کو نیست و نابود کرنے پر تلے عناصر سخت بدمزہ ہوئے ہیں۔ ایک خطرہ مدت سے محسوس کیا جارہا تھا کہ ملک میں جاری واقعات کہیں اداروں میں تقسیم کا سبب نہ بن جائیں۔
اب اس حوالے سے بھی آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ یہ سب اچھا نہیں، انارکی اسی کو کہتے ہیں۔ بہرحال اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اگلے عام انتخابات ’’مینج‘‘ کر کے قدوس بزنجو ٹائپ وزیراعظم لایا جائے گا اور حکومت میں بھی حصہ صرف انہی جماعتوں کو ملے گا جو تعاون کریں گی تو کہا جا سکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات کے بعد قومی سطح پر ’’بلوچستان ماڈل‘‘ کا تجربہ دہرائے جانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، کیا یہ تجربہ کامیاب ہو گا، اس کا جواب ڈھونڈنا بالکل مشکل نہیں۔ پے در پے جو تجربات بلوچستان میں کامیاب نہ ہو سکے وہ وفاق میں کیونکر چل پائیں گے؟، حتمی فیصلہ تو بہرحال پلاننگ کرنے والوں کو ہی کرنا ہے۔