کوئی تو پُرسان حال ہو

کوئی تو پُرسان حال ہو
کوئی تو پُرسان حال ہو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ویرو کوہلی شدید بیماری میں مبتلا ہیں، لیکن ان کے پاس علاج و معالجہ کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ ویرو اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہیں زمینداروں کی نجی جیلوں کی جبری مشقت کے عذاب سے رہائی دلائی گئی تھی۔ رہائی کے کچھ عرصے بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا۔ ویرو جیسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے تحت شکیل پٹھان مرحوم نے 1995ء سے جبری مشقت کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا ۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر زمینداروں کی نجی جیلوں پر دھاوا بولتے تھے اور لوگوں کو رہا کرایا کرتے تھے۔ انہیں کبھی پولس کی مدد حاصل ہوتی تھی اور کبھی نہیں۔

یہ بڑا جان جوکھم کام تھا، جس میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی جان بچانا ہوتی تھی۔شکیل پٹھان مرحوم جیسا سخت جان شخص ہی یہ کام کر سکتا تھا۔ انسانوں کی خدمت کے صلے میں اس وقت کی حکومتوں میں شامل لوگوں نے انہیں بھارتی ’’را‘‘ کا ایجنٹ تک قرار دیا تھا۔ بعض تو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ کسی بیرونی ملک کے ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں جو پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبری مشقت کے شکار لوگوں کو صرف آزاد کرانا ہی کام نہیں تھا بلکہ انہیں آزاد کرانے کے بعد ان کی دیکھ بھال،ان کی رہائش کا انتظام اور روز گار کا بندوبست بھی کرنا ہوتا تھا۔

شکیل پٹھان نے جتنے بھی لوگوں کو آزاد کرایا،انہیں باقاعدہ بسایا بھی۔ شکیل پٹھان کے اس کام سے انسانی حقوق کمیشن کو بین الاقوامی طور پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ کمیشن نے بھی ایک وقت میں بہت توجہ کے ساتھ جبری مشقت کے شکار لوگوں کی رہائی اور دیگر معاملات پر وقت اور پیسہ صرف کیا۔

شکیل پٹھان کی ایک حادثہ میں اچانک موت کے بعد اس ذمہ داری کو ان کی بیوہ نسرین شکیل پٹھان اور آفتاب چودھری نبھاتے رہے۔ عدالتوں کے ذریعہ جبری مشقت کے شکار لوگوں کو رہا کرایا جاتا رہا۔

کمیشن نے نسرین کی ملازمت ختم کر دی اور آفتاب بہتر روزگار کے لئے لندن چلے گئے ۔ ان لوگوں کے بعد کوئی پُرسان حال نہیں رہا۔ کمیشن کا ایک دفتر حیدر آباد میں کام کرتا ہے لیکن یہ لوگ جو جبری مشقت سے رہائی پا کر آزاد ہوئے تھے، ان کے معاملات کو اس طرح نہیں دیکھ پاتا جیسا خود شکیل پٹھان ہمہ وقت مصروف رہا کرتے تھے۔ 


ویرو کی مثال ہی لے لیں۔ ویرو کو بعض غیر سرکاری تنظیموں نے ’’کامریڈ ‘‘ تو بنا دیا، لیکن آج جب وہ بیماری میں مبتلا ہیں تو کوئی انہیں پوچھتا ہی نہیں ہے۔

ویرو کو 2013ء کے عام انتخابات میں سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کے مقابلے میں امیدوار کھڑا کر دیا گیا، غیرسرکاری تنظیموں کے کرتا دھرتاؤں کو کیوں نہیں معلوم تھا کہ ویرو کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بس صرف ذرائع ابلاغ میں تشہیر اور تصاویر شائع کرانے سے تو انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہو جاتی۔ انتخابات کے بعد ان لوگوں کی نظر میں ویرو کی افادیت ختم ہو گئی، آج کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ ویرو کو اگر اسلام آباد میں کوئی ایوارڈ ملنا ہوتا تھا تو سب ہی اس ’’کامریڈ ‘‘ کے ساتھ ہوتے تھے۔

وہ جب واشنگٹن ایوارڈ لینے گئیں تو سب ہی کی کوشش تھی کہ وہ بھی ساتھ جائیں۔ ویرو کے مستقل روز گار کا کسی نے نہیں سوچا اور کوئی انتظام بھی نہیں کیا۔ یہاں تو صورت حال ایسی ہے کہ مروا نامی خاتون کو ایک ایوارڈ ملا تو ان سے وہ ایوارڈ بھی کسی حیلے بہانے واپس لے لیا گیا۔

مروا نے بھی جبری مشقت سے رہائی حاصل کی ہے اور آج کل پتھر توڑ کر اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ مروا اور دیگر لوگوں کو شکیل پٹھان اور آفتاب نے کوٹری میں سرکاری زمین پر بٹھا دیا تھا اور انتظامیہ اور پولس کے ساتھ ایسا افہام پیدا کیا تھا کہ پولیس ان لوگوں کی ایک طرح سے دیکھ بھال کیا کرتی تھی، آج یہ لوگ بھی جو سکندر آباد میں سرکاری زمین پر رہائش رکھتے ہیں، مختلف قسم کی مشکلات کا شکار ہیں۔ وسائل سے محروم لوگ جن کی آواز کوئی نہیں سنتا انہیں قدم قدم پر سرپرستی کی ضرورت پڑتی ہے۔

سکندر آباد میں جہاں ہندو بھیل کوہلی ، عیسائی رہائش رکھتے ہیں، اگر کسی بات پر تنازعہ ہو بھی جاتا ہے تو صلح صفائی کے لئے انہیں پولس کی مدد لینا ہوتی ہے اور پولیس والے ان سے پیسہ بنانے کے سوا کچھ اور نہیں کرتے۔

روزانہ کی محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے بہت ہی شکل ہوتا ہے کہ پولیس کو پیسے دے سکیں۔پولیس کی دھمکیوں کی صورت میں لاچار ہوکر ان لوگوں کو پیسے دینا ہی پڑتے ہیں۔ اگر کوئی پولیس افسر سے ان کے معاملات دیکھ لینے کی سفارش بھی کرتا ہے تو معاملہ عارضی طور پر حل تو ہو جاتا ہے لیکن مستقل حل نہیں ہوتا۔

اس علاقے کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی تک انہیں رسائی حاصل ہی نہیں ہوتی ہے،حالانکہ رکن قومی اسمبلی ملک اسد سکندر بہت طاقت ور شخصیت ہیں ، وہ اگر ان لوگوں کی سرپرستی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ لوگ پُرسکون زندگی نہ گزار سکیں۔

پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کے پاس بھی ایسے لوگوں کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ سکندر آباد کی زمین نے قیمت نکالی ہے تو لوگوں نے آنکھیں گاڑ لی ہیں اور قبضوں کی کوشش روزانہ کا معمول بن گیا ہے،جس کی وجہ سے پولیس کی مدد لینا اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ 

جبری مشقت سے رہائی پانے والوں کی بحالی کے سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے ایک وقت میں طے کیا تھا کہ انہیں بحال کیا جائے گا۔ بحالی کے لئے پہلی ضرورت ان کے نام زمین کا کوئی ٹکڑا جہاں وہ رہائش رکھ سکیں، کرنا تھا۔

ایسا نہیں ہوسکا۔ دوسرا معاملہ سرکاری زمین کا کوئی رقبہ ان کے نام جہاں وہ کاشت کاری کرسکیں۔ یہ لوگ بنیادی طور پر کاشت کاری کا کام ہی بہترین طریقے سے کر سکتے ہیں اور اس کے بارے میں ہی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔

ان کی ا کثریت آج بھی کرایہ کے کھیت مزدور کی حیثیت سے کام تو کرتی ہے، لیکن انہیں مشکلات کا سامنا ہی رہتا ہے۔ وفاقی حکومت نے ان کی بحالی کے لئے برسوں قبل دس کروڑ روپے کی رقم مختص کی تھی، لیکن وہ رقم سرکاری خزانہ میں ہی پڑی ہوئی ہے، مختلف وجوہات کی بناء پر اس کا استعمال نہیں کیا جا سکا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم پائلر نے ایک زمانے میں کوشش کی کہ اس رقم کو ان لوگوں کی بحالی پر استعمال کیا جائے۔ حکومت سندھ نے بھی پہلے مرحلے پر بانڈڈ لیبر سے متعلق محکمہ قائم کیا پھر انسانی حقوق کے معاملات دیکھنے کا محکمہ قائم کیا گیا، لیکن یہ ادارے بھی ذمہ داری نبھا نہیں سکے۔اس کی بنیادی وجہ سرکاری افسران اور منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی ہے۔

پیپلز پارٹی نے ریگستانی ضلع تھر پارکر سے ایک کوہلی خاتون کو سنیٹر منتخب کرایا ہے اور ذرائع ابلاغ میں خوب ’’ واہ، واہ‘‘ حاصل کی ہے، لیکن پارٹی کو دوسرے وقت کی روٹی سے محروم، رہائش کے لئے مکان سے محروم، مناسب روزگار سے محروم اور زندگی گزارنے کے لئے دیگر تمام سہولتوں سے محروم ننگے پاؤں،ننگے جسم والے لوگوں کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا چاہئے۔ 


اس تماش گاہ میں عدم دلچسپی کی صورت حال تو اتنی زیادہ خراب ہے کہ جبر ی مشقت سے آزادی حاصل کرنے والے ہی نہیں،بلکہ تمام کے تمام غریب لوگ کسی قسم کی سرپرستی سے محروم ہیں۔ ان کی یہ محرومیت انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتی ہے۔

لوگ جس طرح جوتے گھستے ہیں، اپنا کام کاج چھوڑ کر اپنا دن خراب کرتے ہیں، پھر بھی ان کے مسائل حل نہیں ہوتے تو اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کس نے ادا کرنی ہے۔ حکومتوں کے بڑے حجم،وزراء کی بڑی تعداد، سرکاری افسران کی بھر مار، بھی اگر یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے تو لوگ کیا کریں اور کہاں جائیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -