عوامی ہمدردی سمیٹنے کی منفی روش
نواز شریف جب یہ کہہ رہے تھے کہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ بھی عدالتی فیصلہ ہے تو مجھے بیک وقت ہنسی اور رونا آ رہا تھا۔ رونا اِس لئے کہ عوام کو بے وقوف بنانے پر کوئی پابندی نہیں اور ہنسی اِس لئے کہ نواز شریف کے پاس اب دلائل ختم ہو گئے ہیں،اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، جب سے نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے سے نااہل ہوئے ہیں، مَیں مسلسل ایک بات کہے جا رہا ہوں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو زیادہ شدو مد کے ساتھ اپنی کارکردگی بتانی چاہئے، تاکہ آنے والے انتخابات میں وہ ایک ایسی جماعت کے طور پر پیش ہو سکے جس نے عوام کی حالت بدلنے ے لئے بہت بڑے بڑے کام کئے،لیکن لگتا ہے پوری حکومت ڈری ہوئی ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد کوئی کارکردگی دکھائی تو قائد محترم ناراض ہو جائیں گے کہ بہتر کام میرے بغیر کیوں کئے جا رہے ہیں۔ اب نواز شریف کی اِسی بات کو دیکھئے جس میں انہوں نے ڈالر کی اڑان کو عدلیہ کے فیصلے سے جوڑ دیا ہے۔
وہ یہ بھول گئے ہیں کہ حکومت تو اب بھی مسلم لیگ(ن) کی ہے اور آج بھی اُن کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل رہا۔ پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے نے کوئی منفی اثر ڈالا ہے، فیصلہ ہوئے تو کئی ماہ گزر گئے، ڈالر کی مہنگائی اب ہو رہی ہے۔
آخر کیا ہوا ہے کہ اتنے بڑے معاشی جھٹکے دیئے جا رہے ہیں، ہر بات کو اپنی ذات کے گرد لپیٹ دینا ایک منفی سوچ ہے، اگر واقعی ایسا ہے کہ نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹنے کے باعث معیشت ڈانواں ڈول ہوئی ہے تو پھر انہیں کسی اور پر نزلہ گرانے کی بجائے اپنے وزیراعظم اور کابینہ سے باز پُرس کرنی چاہئے کہ وہ اُن کی ترقی کا ٹمپو کیوں برقرار نہیں رکھ سکے۔
اب تو وہ اپنی جماعت کے قائد ہیں اور قائد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ کیا انہوں نے رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، کیا اُن کی بات سنی نہیں جا رہی، کیا شاہد خاقان عباسی اُن کے فیصلوں اور شروع کی گئی پالیسیوں کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔
بادی النظر میں ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا، سب معاملات ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے نواز شریف چلا رہے تھے، پھر وہ سچی بات کیوں نہیں کرتے اور کیوں یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتے کہ اُن کی معاشی پالیسیاں ناکام ہو گئی ہیں اور ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی جو روش آج کل موجود ہے، اُس کا تو ماضی میں کہیں بھی نشان نہیں ملتا۔مثلاً اس ڈالر والے معاملے کو ہی لے لیجئے، اسٹیٹ بنک کہتا ہے مجھے معلوم نہیں کہ اچانک قیمت کیوں بڑھی۔
وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل عجیب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ ڈالر کے نرخ میں اضافے کو حکومت نہیں روک سکتی، روپے کی بے قدری کو روکنا بھی ہمارے بس میں نہیں، مزید فرماتے ہیں کہ ڈالر کے نرخ کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں۔
پہلی بار یہ باتیں سننے کو مل رہی ہیں اور یوں لگتا ہے ایک منصوبے کے تحت حکومت اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار کی موجودگی میں پاکستان شاندار معیشت کا حامل تھا اور اُن کے جاتے ہی بدحالی کا شکار ہو گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین اگر مارکیٹ فورسز کرتی ہیں تو انہوں نے اچانک ہی یہ تعین کیوں کیا۔آخر پچھلے دو چار دِنوں میں ایسا کیا ہوا کہ مارکیٹ فورسز ڈالر کی قیمت میں آٹھ روپے اضافہ کرنے پر مجبور ہو گئیں۔پچھلی بار جب ڈالر کی قیمت میں ایک چھلانگ لگی تھی تو اسٹیٹ بینک بھی میدان میں آ گیا تھا اور ایف آئی اے نے بھی اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی تھی کہ ڈالر کو کس کی مرضی اور کس مقصد کے لئے مہنگا کیا گیا۔
اُس وقت تو اسٹیٹ بینک نے ہاتھ کھڑے کئے تھے، نہ وزارتِ خزانہ نے کہا تھا کہ روپے کی بے قدری نہیں روک سکتے،جس کے باعث ڈالر کی مصنوعی مہنگائی اگلے ہی روز ختم ہو گئی تھی، مگر اب ڈالر کی قیمت کو مادر پدر آزادی کا سرٹیفکیٹ دینا سمجھ سے بالاتر ہے،اس طرح تو اس ملک کے مافیاز کسی وقت بھی معیشت کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔
مثلاً اگر آج کالے دھن والے لوگ ڈالر کو 150 روپے میں خریدنے لگیں اور مارکیٹ سے سارا ڈالر اُٹھا لیں تو کیا اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ وزارتِ خزانہ خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ کیا کسی اور ملک میں بھی اس طرح معیشت کو ڈانواں ڈول کرنے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔
صاف لگ رہا ہے کہ بعض سیاسی مقاصد کے تحت یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف کے جانے سے ملک کی معیشت بھی بحران کا شکار ہو گئی ہے، جب وہ خود یہ کہیں گے کہ عدلیہ کے فیصلے نے روپے کی قدر بھی گھٹا دی ہے تو اس سے یہ تاثر کیونکر نہیں اُبھرے گا کہ ترقی کی بجائے تنزلی کو نواز شریف زیادہ پسند کرنے لگے ہیں،حالانکہ حکومت اب بھی اُن کے پاس ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنی حکومت کی سرزنش کرتے کہ ڈالر کے ریٹ میں اضافہ کیوں ہوا ہے۔وزیراعظم کو اس سارے معاملے کا فوری نوٹس لینے کی ہدایت کرتے، جو بات اپوزیشن والے کر رہے ہیں، وہ نواز شریف کو کرنی چاہئے تھی،مگر وہ تو اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے تو اس میں سے بھی عدلیہ پر تنقید کی راہ ڈھونڈ نکالی ہے۔ گویا ہم ایک طرح سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جب ملک کا وزیراعظم نااہل ہوتا ہے، لیکن جمہوریت اور پارلیمینٹ چلتی رہتی ہے تو یہ انداز ہمیں قبول نہیں، جیسے پہلے وزیراعظم کے ساتھ پوری کابینہ اور اسمبلیاں بھی ختم ہو جاتی تھیں، اب بھی ایسا ہونا چاہئے تھا، صرف وزیراعظم کے منصب سے نواز شریف کو ہٹا کر اور پارلیمینٹ کو برقرار رکھ کے ہم نے درحقیقت ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے،جس میں نام نہاد حکومت موجود ہے، لیکن وہ صرف ڈنگ ٹپا رہی ہے،اس کی حتی الامکان یہ کوشش ہے کہ اپنی بُری کارکردگی سے یہ تاثر پیدا کرے کہ نواز شریف کے بغیر ملک چل سکتا ہے اور نہ حکومت چل سکتی ہے۔
مَیں یہ بات ہوا میں نہیں کہہ رہا، آپ یہ دیکھیں کہ نواز شریف کی نااہلی سے لے کر اب تک18روپے لیٹر تک پٹرول مہنگا ہو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں اب ڈالر کو ریکارڈ سطح تک مہنگا کر دیا گیا ہے۔
میاں صاحب اس کی ذمہ داری لینے کی بجائے اُلٹا اپوزیشن کی طرح بیان بازی کرتے ہیں،حالانکہ وہ اپنی حکومت کے اقدامات سے کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں کہ جب وہ وزیراعظم اور وزراء کو اپنے پاس بُلا کر مشاورت بھی کرتے ہیں اور احکامات بھی دیتے ہیں۔
پچھلے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی کا آخری عرصے میں ایک ایک دن عوام پر بھاری ثابت ہوا تھا، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ کرپشن اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کو اس کا نقصان عام انتخابات میں ہوا اور پنجاب سے اس کا صفایا ہو گیا۔
اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے، حکومت بیک وقت اپوزیشن بھی بنی ہوئی ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہی ہے۔ اگر اپنی ساری بُری کارکردگی کو حکومت نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کی آڑ لے کر چھپانے کا ارادہ رکھتی ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی دانشمندانہ حکمتِ عملی ہے۔ عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ وہ آج کے فیصلوں کو ماضی کے فیصلوں کا نتیجہ سمجھ کر قبول کر لیں۔
کوئی بھی حکومت عوام کو جو سب سے بڑا ریلیف دیتی ہے، اُس کا تعلق معیشت سے ہوتا ہے، مثلاً آپ جتنے مرضی پُل اور انڈر پاسز بنا دیں، میٹرو بسیں اورنج ٹرینیں چلا دیں، وہ اُس ریلیف کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی،جو پٹرول میں 10روپے لیٹر کمی کر کے دیا جا سکتا ہے، عوام کو سستا آتا، سستی سبزیاں اور دالیں ملنے لگیں تو انہیں فوراً حکومت کے فلاحی ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔
حیرت ہے کہ موجودہ حکومت اپنے آخری مہینوں میں ایسا کوئی ریلیف عوام کو دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی،بلکہ اُلٹا اُن پر مہنگائی کا مزید بوجھ لادنا چاہتی ہے۔ وزراء اس طرح بے رحمانہ باتیں کر رہے ہیں، جیسے عوام کے غیظ و غضب کی انہیں کوئی پروا ہی نہ ہو۔
مثلاً وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل کا یہ کہنا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو روکنا حکومت کی ذمہ داری نہیں، حالانکہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو گلی میں گنڈیریاں بیچنے والا بھی ریٹ بڑھا دیتا ہے،کیونکہ ساری معیشت تو درآمدات پر چل رہی ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ نواز شریف عوام پر بوجھ ڈالنے والے فیصلوں کو اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلے سے جوڑنے کی بجائے حکومت کو ہدایت دیں کہ وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے۔
انہیں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لانے کی ہدایت کرنی چاہئے،ڈالر کا ریٹ کیوں تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس کی تحقیق کرائیں صرف یہ کہہ کر جان نہ چھڑائیں کہ عدلیہ کے فیصلے نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے، حتیٰ کہ ڈالر کو بھی پَر لگ گئے ہیں۔