فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر386
کمپاؤنڈر نے اس روز ہمارے لیے سفوف کی تین پڑیاں بنائیں۔ ایک بذات خود ہماری زبان پر ڈال دی۔ باقی دو لپیٹ کر حوالے کیں اور کہا ’’چار چار گھنٹے کے وقفے سے کھانا۔‘‘
’’اور پھر کب آئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید اب تین ہفتے بعد آنا پڑے گا۔
کمپاؤنڈر نے ایش ٹرے سے سگریٹ اٹھایااوربیزاری سے ہمیں اشارے سے بتایا کہ باقی باتیں اُدھر جاکر کرو۔ ڈاکٹر صاحب ہی بتائیں گے۔ ہم کشاں کشاں ڈاکٹر صاحب کے حضور میں جاپہنچے ’’ڈاکٹر صاحب، کتنے پیسے ہوگئے؟‘‘
وہ بدستور کنگھی میں لگے ہوئے تھے۔ ہماری طرف دیکھا اور بولے ’’ایک روپیہ۔‘‘
ہم نے خوشی خوشی ایک روپیہ ان کے سامنے رکھ دیا۔
’’اب کب آئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا ’’اگلے مہینے؟‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر385 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بولے ’’کل صبح۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ ہم تو آٹھ دن گزرنے کے عادی ہونے لگے تھے ۔ مگر یہاں معاملہ ہی مختلف ہوگیا تھا۔ عجیب بات یہ کہ آٹھ دن کی دوائی کی قیمت آٹھ آنے اور ایک دن کی دوائی ایک روپے میں؟ پھر معلوم ہوا کہ قیمت ڈاکٹر صاحب کے موڈ اور مرضی پر منحصر تھی۔ جو منہ میں آتا کہہ دیتے تھے۔ کم و بیش سے انہیں غرض نہیں تھی۔
دوسرے دن گئے اور جاتے ہی خوشی خوشی ڈاکٹر صاحب کو اپنا احوال بتانے لگے۔ ابھی دوسرا فقرہ ہی ادا کیا تھا کہ انہوں نے پُرزہ اٹھا کر کچھ لکھا اور ہمارے سامنے رکھ دیا۔
ہم نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے ہمارا حال تو سنا ہی نہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب قدرے بہتر موڈ میں تھے۔ بولے ’’جب آپ سیڑھی چڑھے تھے اسی وقت میں نے دیکھ لیا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔‘‘ پھر اپنے دوست سے مخاطب ہوئے ’’کیوں۔ چہرہ کیسا صاف ہے۔ رنگ بھی سُرخ ہے۔ طبیعت بھی بحال ہے۔ کیوں‘ ہے کہ نہیں؟‘‘
انہوں نے تائید فرما دی ’’کیسے نہیں ہوگی۔ دوائی کس کی کھائی ہے!‘‘
ان ڈاکٹر صاحب سے ہم وقتاً قوفتاً علاج کراتے رہے مگر دل نہیں ٹھکا۔ دراصل ان کا انداز ہمیں پسند نہیں آیا تھا۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں ڈاکٹروں‘ حکیموں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ بیمار کم تھے‘ معالج بہت زیادہ تھے مگر ہمارے دوست صلاح الدین کا انہوں نے معرکہ آراء علاج کیا تھا۔ کچھ اور بھی حضرات کا انہوں نے علاج کیا تھا۔ دو تین فلمی حضرات اور ایک دو ایکٹریسوں کو بھی ان کے علاج سے فائدہ ہوا۔
ہم ہر روز لکشمی چوک جاتے ہوئے بیڈن روڈ سے گزرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی دکان کی جانب نظر ضرور ڈالتے تھے۔ مریض تو کم ہی نظر آئے مگر ان کے حقّہ نوش دوست کو ہمیشہ حاضر پایا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی پریکٹس نہیں چلتی تھی۔ کافی مریض آتے تھے۔ بڑے بڑے اعلیٰ حکاّم اور پیسے والے ان کے مستقل مریض تھے۔ گورنر ہاؤس سے کئی بار انہیں لینے کے لئے شاندار گاڑی ہم نے بھی آتی دیکھی مگر ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر واپس بھیج دیتے کہ اس وقت فرصت نہیں ہے۔ کئی لوگوں سے ان کی روحانی قوّتوں کے بارے میں بھی واقعات سنے مگر ڈاکٹر صاحب عموماً خاموش ہی رہا کرتے تھے۔ نہ جانے ضرورت کے وقت بھی مختصر فقرہ کیسے ادا کر تے تھے۔ مگر بڑے وضع دار اور بے نیاز آدمی تھے۔ ان کا لباس ہمیشہ ہم نے وہی دیکھا۔ کم ہی ہوگا جب ہم نے انہیں محض شلوار قمیض میں دیکھا ہوگا۔ سخت گرمی میں بھی واسکٹ لازماً پہنا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی ماڈل ٹاؤن ہی میں تھی۔ ان کا کوئی بیٹا صبح انہیں دکان پر ڈراپ کر کے چلا جاتا تھا اور پھر رات کو مقرّرہ وقت پر لے جاتا تھا۔ دن میں وہ لنچ‘ چائے اور قیلولہ فرماتے تھے۔ اس مقصد کے لئے دکان میں ایک جانب پردہ لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کیا تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ البتہ چائے کے وقت اندر سے برتنوں کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ چائے نزدیک کے تنور نما ہوٹل سے آتی تھی مگر سروس کمپاؤنڈر کے ذمّے تھی۔ چائے کی گول ٹرے آتے ہی کمپاؤنڈر یہ چائے اور برتن لے کر پردے کے پیچھے چلا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بھی پردے کے پیچھے روپوش ہو جاتے تھے۔ چائے وہ صرف ایک وقت سہ پہر کو پیتے تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم نے انہیں کبھی نہیں دیکھا مگر جب وہ میز پر نظر نہ آئیں تو کمپاؤنڈر صاحب یہی فرماتے تھے کے اندر آرام کر رہے ہیں۔ پردے کے پیچھے کا اسرار کافی عرصے بعد ہم پر آشکار ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں ان کے بڑے صاحبزادے حامد حسن صاحب ان کے جانشین بن چکے تھے۔
پردے کے پیچھے صرف ایک لکڑی کی بینچ پڑی ہوئی تھی۔ اسی پر چائے پی جاتی تھی۔ اس پر لیٹ کر قیلولہ کر لیتے تھے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر387 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں