سانحہ ماڈل ٹاؤن ،نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل ،ایڈووکیٹ جنرل کی بنچ سے تلخ کلامی،واک آؤٹ

سانحہ ماڈل ٹاؤن ،نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل ،ایڈووکیٹ جنرل کی بنچ سے تلخ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمد قاسم خان ، جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس مس عالیہ نیلم پر مشتمل فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، وقفہ کے بعدکیس کی دوبارہ سماعت کے موقع پرایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس درجن بھرلاء افسروں کے ساتھ کمرہ عدالت میں آئے اورفاضل بنچ سے تلخ کلامی کے بعد واک آؤٹ کرگئے ۔فاضل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف عبوری فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے جاری کیا ،مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے بنچ کے دیگر ارکان سے اتفاق نہیں کیااور اختلافی نوٹ میں قراردیا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔فاضل بنچ نے گزشتہ روز درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد مزید کارروائی جمعہ کی نماز کے بعد تک ملتوی کردی تھی،جمعہ کی نماز کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پنجاب دیگر لاء افسروں کے ساتھ عدالت میں پہنچ گئے ، انہوں نے بنچ کے ارکان سے چیمبر میں ملاقات کی ،جس پر فاضل بنچ نے انہیں کہا کہ کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں ہوگی ، شام 6بجے کے قریب فاضل بنچ کے ارکان عدالت میں آئے تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے غیر روائتی رویہ اختیار کرلیااور کہا کہ ہائیکورٹ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اہم مقدمے کے بارے میں عدالتی عملے نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا، اس کیس کی تمام کارروائی ایک منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ،ضمنی پیشی فہرست جاری کرکے کیس لگایاگیاجبکہ اس کیس کی پہلے بھی سماعت ہوتی رہی ہے ،یہ کوئی نئی درخواست نہیں ہے ۔فاضل بنچ نے انہیں بلند آواز میں بولنے سے منع کیا تو احمد اویس نے کہا کہ میں اونچابول رہا ہوں تاکہ میری آواز عدالت تک جائے، اگر مجھے نہ سنا گیا تو عدالت کاواک آؤٹ کروں گا، بنچ کے رکن جسٹس ملک شہزاد احمدنے کہاکیا آپ عدالت کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں؟اپنی آواز نیچی رکھیں ورنہ توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جائیں گے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہامجھے توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں اس بنچ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے واک آؤٹ کرتاہوں۔فاضل بنچ نے کہا کہ آپ اس فیصلے کو متعلقہ فورم پر چیلنج کرناچاہیں توکر سکتے ہیں۔فاضل بنچ نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف انسپکٹررضوان قادر ہاشمی اور کانسٹیبل خرم رفیق کی درخواستیں باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور دیگر مدعاعلیہان کو نوٹس بھی جاری کردیئے ہیں۔فاضل بنچ نے ابتدائی طور پر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے معاملہ پرسماعت کی،جس کے بعد اکثریت رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے درخواستوں کو قابل پذیرائی اوران میں اٹھائے گئے قانونی نکات کو تصفیہ طلب قراردے دیا۔درخواست گزاروں کے وکلا ء اعظم نذیر تارڑ اور برہان معظم ملک نے موقف اختیار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری ایک جے آئی ٹی نے کی تھی،جس کی رپورٹ پر چالان داخل ہوااورمقدمہ کا ٹرائل انسداددہشت گردی کی عدالت میں جاری ہے ،50سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جاچکے ہیں،اب پنجاب حکومت نے ایک نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے ،کسی معاملہ پرایک جے آئی ٹی کے بعد اسی معاملے پر دوسری جے آئی ٹی نہیں بن سکتی، ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ ایک فوجداری معاملے پر دوسری تحقیقاتی ٹیم مقرر کی جائے ، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ نے کوئی حکم جاری نہیں کیا، نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ، وکلاء نے استدعا کی کہ پنجاب حکومت کا نئی جے آئی بنانے کا اقدام کالعدم قرار دیا جائے اور درخواستوں کے حتمی فیصلے تک نئی جے آئی ٹی کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جائے۔ نماز جمعہ سے قبل فاضل بنچ نے مزید کارروائی جمعہ کے بعد تک ملتوی کردی ،شام 6بجے کے قریب عدالت نے مذکورہ کارروائی کے بعد اپنا عبوری فیصلہ جاری کردیا۔یادرہے کہ نئی جے آئی ٹی نے گزشتہ دنوں سابق وزیراعلیٰ میاں شہبا زشریف کا بیان قلمبند کرنے کے علاوہ میاں نواز شریف سے جیل میں بھی تفتیش کی تھی۔