سیاسی کشیدگی میں قومی ایجنڈے کی ضرورت! 

 سیاسی کشیدگی میں قومی ایجنڈے کی ضرورت! 
 سیاسی کشیدگی میں قومی ایجنڈے کی ضرورت! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب سے ا پوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کروائی ہے،اس وقت سے اب تک کی صورتحال پر دل چاہتا تھا کہ کچھ تحریر کروں لیکن صورت حال اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں حالات بگڑ رہے ہیں۔ پاکستان کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جو موجودہ سیاسی بدحالی کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ موجودہ حکومت جب برسر اقتدا ر آئی تو اس سے پہلے کا سیاسی منظر نامہ قارئین کو یاد ہوگا کہ مختلف الخیال سیاسی نظریات کے حامل متوقع طور پر جیتنے والے امیدواروں کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا۔ رائی کو پہاڑ بنانے کے لئے میڈیا مہم شروع کی گئی۔جس سے عام آدمی سمجھا کہ واقعی ’نیا پاکستان‘بنے گا تو اسے کرپٹ حکمرانوں سے نجات ملے گی۔ایماندار وزیر اعظم کے دور میں ان کے دکھوں کا مداوا ہوگا۔ مگر انہیں ماسوائے مایوسی اور پریشانی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت سیاستدانوں کی کچھ مجبوریاں بھی ہوں تاکہ وہ اقتدار میں رہیں اور خود کواحتسابی شکنجے سے بچائے رکھیں۔لیکن جوں جوں وقت گزررہا ہے، اپوزیشن اور حکمران سخت گیر اقدامات کے لئے  آمادہ نظر آرہے ہیں جبکہ پاکستان کے اندرونی حالات ٹھیک ہوئے،کرپشن کم ہوئی، مہنگائی بیروزگاری سے چھٹکار ا مل سکا اور نہ ہی اداروں کو عزت دی گئی، حتیٰ کہ مختلف سوچ اور بیک گراونڈ کے حامل کابینہ کے افراد کو بھی کوئی نظریہ نہ دیا گیا۔اسی طرح اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالا گیا۔ پارلیمانی زبان اور شائستگی کو نظر انداز کرتے ہوئے گلی کوچے کی زبان استعمال کی گئی، جس سے کشیدگی بڑھتی گئی۔ حکمرانوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کشیدہ بین الاقوامی حالات پاکستان پر اثر انداز ہورہے ہیں یا ہو سکتے ہیں، ان سے نمٹنے کے لئے چاہیے تو یہ تھا کہ پوری ملت کو اکٹھا کر کے پاکستانی مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کیے جاتے۔


 دنیا میں کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔چین اور امریکہ کا آپس میں جو کھچاؤ ہے،یقینااس سے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے اثرات بھی ہم محسوس کر رہے ہیں۔ ہم ہی نہیں پوری دنیا میں حکومتیں مشکلات کا تجزیہ کرکے اپنے قومی نقطہ نظر پر سیاسی قیادت کو یکجا کر رہی ہیں مگر ہماری قومی تقسیم اور خلیج ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔بلکہ یہ سیاسی کشیدگی اب ذاتی انا کا مسئلہ بن چکی ہے۔ آئی ایم ایف سے 6 ملین ڈالر کا قرضہ لینے کے لئے  جس دستاویز پر دستخط کئے گئے ہیں، اس کے اثرات غریب سے لے کر متوسط طبقے تک شدید نظر آ رہے ہیں بلکہ آنے والے وقت میں ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، یوکرین اور روس کی جنگ میں توانائی کا بحران دنیا بھرمیں شدت اختیار کرتا جارہا ہے خاص طور پر یورپ شدید متاثر ہو رہا ہے کیونکہ روزانہ 2.38 ملین بیرل کروڈ آئل یورپ کو برآمد کیا جاتا ہے،اسی طرح 6 ٹریلین کیوبک فیٹ گیس،3.8ملین ٹن کوئلہ روس یورپ کو دے رہا ہے۔ جب اس جنگ میں یورپ اور امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کیں تو دنیا بھر میں اتنا بحران پیداہوگا کہ، اس سے خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائیں گے۔


مکئی اور گندم کو دنیا بھر میں برآمد کرنے کی وجہ سے یوکرین دنیا میں ”فوڈ باسکٹ“کے نام سے مشہورہے۔ یوکرین سے 2.5 ملین ٹن نیدر لینڈ، 1.9 ملین ٹن اسپین،اور 8.5 ملین ٹن مکئی چین کو جاتی ہے۔اسی طرح یوکرین 2.5 ملین ٹن مصر،1.4 ملین ٹن پاکستان،1.1ملین ٹن بنگلہ دیش اور ایک ملین ٹن گندم مراکو کو برآمد کرتا ہے۔اس لئے روس یوکرین جنگ کے اثرات نہ صرف یورپ بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی نمایاں نظر آ رہے ہیں۔اس جنگ کا حکومت کو پتہ تھا،لیکن وزیراعظم ماسکو گئے اور ان سے گندم کی خریداری کی بات چیت ہوئی۔
 ان حالات میں جب یورپ پر مشکل وقت آئے گا تو اس کے منفی اثرات سے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ ان عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے،میں بڑے دکھ اور درد کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا پاکستان کے پسے اور کچلے ہوئے عوام پر رحم کریں۔ اس سے پہلے انہیں صفحات میں ہم نے امریکہ میں نئی حکومت کے اختلافات کے حوالے سے تذکرہ کیا تھا۔ اس میں خوش آئند بات ہے کہ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان انتخابات کے دوران پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث امریکی قوم دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی مگر نئے امریکی صدر نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قوم کو متحد کیا۔اسی طرح ہم نے سردیوں کے دوران گیس بحران پر بھی اپنے کالم میں حکمرانوں کو روس اور یوکرین تنازعہ کے تناظر میں خبردار کیا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی بحالی پر کام شروع کرنے کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے، نہ کہ قوم کو خلفشار اور ذہنی کوفت میں مبتلا رکھا جائے۔ یہ تو واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں قوم یقینا تقسیم ہوگی۔ اس صورتحال میں حکومت عمران خان کے پاس رہے یا آئندہ وزیراعظم شہباز شریف ہوں یا کوئی اور، ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو متحد کیا جائے۔جوبحران ملک کو ایک عرصے سے در پیش ہیں، آنے والے دنوں میں مزید گھمبیر ہوں گے۔ اس لئے  قومی یکجہتی کے لئے حزب اختلاف اور حزب اقتدار،دونوں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی ایجنڈا تشکیل دیں۔ اور اس پر اتفاق رائے سے لائحہ عمل تیار کریں تاکہ تحریک عدم اعتماد کے بعد عالمی اور ملکی سیاسی منظر نامے میں پاکستان کی قومی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔

مزید :

رائے -کالم -