سجدے سے سر اٹھا تو روح پرسکون تھی۔۔۔(افسانہ)

تحریر:سامعہ افتخار (فیصل آباد )
سنا ہے ہاتھ کی لکیروں میں ہمارا مقدر لکھا ہوا ہے۔۔۔اس خیال کے ساتھ ہی میری نظریں کسی جوتشی کی طرح ہاتھ کی لکیروں پر جم گئیں۔۔۔
دعا کے لیے اٹھے ہاتھ سوال بن گئے تھے
ذہن و دل کی تکرار میں بڑے عجیب عجیب سے سوالات اٹھنے لگے۔۔
میں نے نظروں ہی نظروں میں شاہراہوں کی طرح پھیلی ہوئی لکیروں میں سے خوشی اور غم کی لکیروں کو علیٰحدہ کرنے لگی۔۔۔
لمبی سی گہری لکیر۔۔ خوشی کی ہے یا غم کی ۔۔۔
اگر یہ خوشی کی ہے تو اتنی گہری کیوں ہے؟
شاید یہ مستقبل میں ملنے والی بڑی بڑی خوشیوں کی نوید ہوں۔۔ اوہ۔۔۔ اگر یہ غم کی لکیر ہوئی تو کیا اس کا مطلب گہرا زخم ملنے کو منتظر ہے؟ خوشیاں تو خوش فہمی کی طرح بہت سی گمان میں تھیں ۔۔۔؟ مگر غم کیا ملنے والا ہے ۔۔۔؟اس کے تصور ہی نے دل کو کچھ پریشان سا کردیا۔۔۔
میں سوچنے لگی کہ مقدر کے بدل جانے سے کیا یہ لکیریں بھی بدل جاتی ہوں گی۔۔؟
ویسے ایک انسان اپنی ساری زندگی خواہشات کی تکمیل میں ہی گزار دیتا ہے۔۔۔
یعنی وہ صرف کامیابی کو ہی خوشیوں کا کلیہ سمجھتا ہے۔۔۔
غم ، پریشانی ،اداسی یہ سب اس کی خواہشات سے بہت دور کی چیزیں ہیں وہ شعور تو کیا لاشعور میں بھی سمجھنا نہیں چاہتا کہ یہ سب ہونا بھی زندگی کا ایک حصہ ہے۔
ہماری خواہشات تب تک بدلتی رہتی ہیں جب تک ہماری زندگی حقیقت کا روپ نادھار لے اور ہر چیز لاشعور سے نکل کر شعور میں نا آجائے۔۔
درحقیقت خوشیاں ہی کامیاب زندگی کی ضمانت نہیں ہوتیں بلکہ کبھی کبھی تو ناکامی یا کوئی گہرا دکھ ایک بڑی کامیابی کی علامت بن جاتا ہے۔۔۔ یہ زندگی کا وہ مرحلہ ہے جب انسان بچپن کی عمر سے جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے، لوگوں کے رویئے اس پر اثرانداز ہوتے ہیں ، ذمہ داریوں کا بوجھ وہ اپنے کاندھوں پر محسوس کرتا ہے ، اپنے آنے والے کل کو بہتر بنانے کی فکر اس کو بے چین رکھتی ہے، کامیاب انسان بننے کی خواہش ہمیشہ اس کے اندر روشن چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے ۔ یہ رونقیں تب بے رونق ہو جاتیں ہیں جب کوئی برا وقت آزمائش بن کر انسان کی زندگی کو ایک نئے موڑ پر لے آتا ہے۔
محبت کا دم بھرنے والے پل بھر میں غیر ہو جاتے ہیں یا ان کی طنز بھری باتوں سے بچنے کے لیے انسان تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ کہ انسان بہت جلد غیروں سے مانوس ہو کر بھروسہ اور اعتماد کا رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ نامانوس اجنبی اس کی ذات کی حقیقتوں سے آشنا نہیں۔۔
لہٰذا ان کے ساتھ رہنا اپنوں کے ساتھ رہنے سے قدرے آسان لگتا ہے ۔
مگر دوسروں پر اعتماد، بھروسہ اور مان کا بڑھ جانا انسان کو بہت سی توقعات کے ساتھ کئی غلط فہمیوں کو بھی ساتھ جوڑ دیتا ہے۔
یہ حقیقت انسان کے لیے کس حد مؤثر ہے ۔اس کا تعین آنے والا وقت کرتا ہے۔
میں نماز کے بعد دعا مانگنے کے لیے اٹھے ہاتھوں کو دیکھ کر جانے کیا کیا سوچ رہی تھی کیا یہ سب بھی ہاتھوں کی لکیروں میں چھپا ہوا ہے۔۔۔؟
میں نے سجدہِ شکر کے لیے اپنا ماتھا زمین پر رکھا ہی تھا کہ زمین کی گردش گرداب کی طرح میرے دماغ میں اترتی محسوس ہونے لگی۔۔ آندھی کی طرح ایک غبار سا اٹھا اور خیالات درست سمت چلنے لگے ذہن دل پر چھائی کچھ دیر کی مایوسی و ناامیدی پر ایک کالی گھٹا بوند بوند یوں برسنے لگی کہ جیسے وہ میری سوچ کو زندگی کی اصل حقیقت سے روشناس کروا رہی ہو میرا دل مجھے ایک ایسی وادی میں لے گیا جہاں ہر طرف خاموشی تھی سکون تھا۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی اٹھنے والا ایک بے ہنگم شور میری زات کے لاشعور سے کیا تحت الشعور سے بھی بہت دور نکل گیا ہو۔۔۔
سجدے سے سر اٹھا تو روح پرسکون تھی۔۔۔
تب میں سمجھی اس دنیا اور آخرت میں اللہ کے علاوہ انسان کے ساتھ کوئی اتنا مخلص ہو ہی نہیں سکتا۔ ہماری ماں بھی نہیں جو اس دنیا میں ہمیں سب سے زیادہ پیار کرتی ہے ہمیں دنیا کی تلخیوں اور مشکلات سے بچاتے ہوئے ہمیں کامیاب انسان بنانے کے لیے ہزارہا جتن کرتی ہے۔
مگر ہمارا رب جو ہم سے ایک ماں سے 70گنا زیادہ پیار کرتا ہے اور ہم اسی در کو چھوڑے اپنی الجھنوں میں کھوئے ہوئے ہیں ۔جبکہ ان سب مشکلات کا حل تو اسی کے در پر موجود ہے۔ وہی ہے جو مقدر کے فیصلے لکھتا ہے اور لوحِ محفوظ میں بند کردیتا ہے۔۔
خود سے یہ مکالمہ جاری تھا کہ فجر کی اذان سنائی دی اور میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ میرا چہرہ پسینہ سے شرابور تھا اور خود کو جھنجوڑتے ہوئے سوال کر رہی تھی میں کہاں تھی؟ کیا یہ سب خواب تھا ؟ کچھ دیر یہ بات سمجھنے میں لگی کہ میں ابھی زندہ ہوں اور میرے پاس ا بھی زندگی کو بہتر بنانے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع موجود ہے۔ کچھ ہی دیر میں مزید اور مساجد سے اذانیں سنائی دینے لگیں۔۔۔
بستر سے اٹھ کر وضو کیا اور حقیقی نماز ادا کی۔۔اس بار دعا مانگتے وقت نظریں ہاتھوں کی الجھی لکیروں کی بجائے اس سجدہ گاہ کی جانب تھیں جس نے میرے مقدر کو بدل ڈالا تھا۔
گوکہ وہ خواب تھا مگر اس کی تعبیر نے مجھے میرے رب سے ملاقات کا موقع فراہم کردیا تھا ۔۔مجھے یقین ہے میرے رب نے فرشتوں کو ندا دی ہوگی کہ اس کی تقدیر میں سنہرے حرفوں سے لکھ دو وہ ایک ایک دعا جو اس نے ابھی ہاتھ اٹھا کے مانگی ہے میں نے اسے عطا کردی ہے.