بھٹو کی پھانسی پر نسرین انجم بھٹی نے ایک یادگار پنجابی نظم کہی جو اس دور میں سینہ بہ سینہ آگے چلی

 بھٹو کی پھانسی پر نسرین انجم بھٹی نے ایک یادگار پنجابی نظم کہی جو اس دور میں ...
 بھٹو کی پھانسی پر نسرین انجم بھٹی نے ایک یادگار پنجابی نظم کہی جو اس دور میں سینہ بہ سینہ آگے چلی

  

 مصنف: زاہد مسعود

 قسط:3

نسرین انجم بھٹی جب ریڈیو پاکستان آئیں تو ان کی دوستی شائستہ حبیب سے ہوئی دونوں ایک ہی کمرے میں بیٹھتی تھیں کیونکہ دونوں شاعرہ اور ترقی پسندانہ نظریات کی حامل تھیں۔ نسرین انجم بھٹی ، شائستہ حبیب اور فہیم جوزی ”ینگ پیپل فرنٹ“ میں جو ایک ادبی حلقہ تھا، اکٹھے ہوئے۔ ریڈیو پاکستان میں ان کو ترقی پسندانہ نظریات کی بناءپر کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور غیر ترقی پسند لوگوں نے ان کے لیے مشکلات بھی پیدا کیں مگر انہوں نے تمام مشکلات کا انتہائی صبر و استقامت سے سامنا کیا۔ وہ ریڈیو سے ڈپٹی کنٹرولر کے عہد ے سے ریٹائرڈ ہوئیں ۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ریڈیو پاکستان میں ہی کنٹریکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور پر منسلک کر لیا گیا۔ وہ میوزک کے شعبے سے وابستہ رہیں اور کلاسیکل میوزک پروگرام تیار کرتیں اس میں ان کے ساتھ استاد غلام حیدر خاں تھے۔ یہ پروگرام روزانہ رات کے وقت نشر ہوتا تھا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ ڈیپوٹیشن پر ڈائریکٹر شاکر علی میوزیم لاہور کی حیثیت میں تعینات رہیں۔ نسرین انجم بھٹی بیرون ملک ثقافتی اور ادبی پروگراموں میں شرکت کیا کرتی تھیں اس کے لیے انہوں نے کئی بار انڈیا کا دورہ کیا اس کے علاوہ ہالینڈ اور چین بھی گئیں۔ 

نسرین انجم بھٹی پنجابی اردو انگریزی اور سندھی زبان سے بھی واقفیت رکھتی تھیں انہوں نے جی ایم سیّد کی یادداشتوں کو سندھی زبان سے اردو میں منتقل کیا جو لاہور ہی سے شائع ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی کے ادبی اداروں کی ممبر تھیں جس میں اکادمی ادبیات پاکستان، رائٹرز گلڈ اور پنجابی ادبی بورڈ شامل ہیں۔ 

نسرین انجم بھی اس ملک میں پسماندہ طبقہ کی بہتری کے لیے سوچتی تھیں اور ان کے ذہن میں کہیں پرولتاری نظام حکومت کا ایک ادھورا سا خاکہ بھی ہمیشہ سے موجود رہا۔ وہ ذاتی حیثیت میں نہایت سادہ اور قناعت پسند واقع ہوئیں۔ ان کا لاہور میں کوئی گھر نہ تھا۔ وہ لاہور کے مختلف علاقوں میں کرائے کے مکانوں میں زبیر رانا کے ساتھ زندگی بسر کرتی رہیں۔ انہوں نے کبھی گھر بنانے کا پلان بھی نہیں بنایا شائد اس کی و جہ ان کامارکسی ہونا تھا یا ممکن ہے متوسط لائف سٹائل اور کم وسائل کے باعث ایسا ہوا مگر ایسی منصوبہ بندیاں ان کے ہاں رائج بھی نہ تھیں کہ وہ اور ان کے شوہر دونوں مارکسی تھے اور جائیداد کی ملکیت کے حوالے سے مارکسی نقطہِ نظر ہی رکھتے تھے۔ صبح صبح وہ ریڈیو سٹیشن اپنی نوکری پر آ جاتیں اور سارا دن اپنی معمول کی ادبی مصروفیات میں مصروف رہتیں۔ ان کے ملنے جلنے والے بھی انہی اوقات میں ان سے رابطہ کر لیتے۔ ان کے شوہر زبیر رانا جب تک تندرست رہے اپنے ویسپا سکوٹر پر ہی انہیں ریڈیو سٹیشن ڈراپ کرتے خود” جنگ “اخبار کے دفتر چلے جاتے اور دونوں اپنے کام اور دیگر ادبی مصروفیات کے بعد رات گئے اپنے مسکن کو لوٹ جاتے۔ سال ہا سال سے ان کا یہ معمول تھا۔ ضیاءالحق کا دور ان کی زندگی کا مشکل دور تھا کہ وہ اینٹی مارشل لاءخیالات رکھنے کے باعث وہ مزاحمتی ادبی لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتیں تھیں۔ ستار سیّد اور شائستہ حبیب ، ناہید شاہد اور خالد طور وغیرہ ریڈیو سٹیشن لاہور میں ان کے ہم خیال تھے۔ جبکہ ان کے مخالفین کا بھی ایک پورا گروہ ان کے مقابل موجود تھا۔ انہی دنوں ان کو ستانے یا پریشان کرنے کے لیے ریڈیو کے لان میں واقع کچے درخت سے آم توڑنے پر ان کے خلاف انکوائری قائم کر دی گئی۔ 

جنرل ضیاءکے خلاف جمیل دہلوی نے ان دنوں ”فلم بلڈ آف حسین“ بنائی تھی تو لاہور میں نسرین انج بھٹی نے وہ فلم حاصل کر کے ہم خیال ترقی پسند لوگوں کو خفیہ طور پر ایک تقریب میں یہ فلم دکھائی۔ یہ تقریب ستار سید کے فلیٹ واقع انگوری باغ میں منعقد ہوئی شرکاءکی تواضع کے لیے کھانا نسرین انجم بھٹی نے خود تیار کیا۔ ان دنوں وہ اپنے ریڈیو پروگراموں میں بھی اپنے ہم خیال لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدعو کرتی تھیں۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر نسرین انجم بھٹی نے ایک یادگار پنجابی نظم کہی جو اس دور میں سینہ بہ سینہ آگے چلی”میں مرا ساغر سندھ دا، میری راول جنج چڑھی“ شروع شروع میں وہ اس نظم کی تخلیق سے انکاری رہیں مگر بعدازاں انہوں نے اپنی اس شاہکار تخلیق کو اپنا قرار دے دیا۔ 

نسرین انجم بھٹی ریڈیو سے مُدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئیں مگر ان کو بعداز ریٹائرمنٹ بھی اپنے ذاتی اخراجات کے لیے پنشن کے علاوہ رقم کی ضرورت رہتی۔ اس موقع پر بھی ریڈیو پاکستان لاہور ہی ان کے کام آیا اور انہیں ریڈیو پاکستان لاہور میں بحیثیت میوزک کنسلٹنٹ 30000روپے ماہوار پر منسلک کر لیا گیا۔ طویل بیماری کے بعد 26جنوری 2016ءکو کراچی میں اُن کی وفات ہوئی۔

زاہد مسعود

( جاری ہے )

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -