یونانی فلسفہ کا دورِزوال 

 یونانی فلسفہ کا دورِزوال 
 یونانی فلسفہ کا دورِزوال 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:لطیف جاوید
قسط:23
یونان میں ارسطو کی وفات کے بعد فلسفہ کا دورزوال شروع ہو جاتا ہے۔اِس دور کی بنیادی خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں۔
۰ اِس دور میں کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا گیا۔
۰ فلسفہ کو مذہب کے زیرِ سایہ کر دیا گیا،سوائے اپیکوریت کے۔
۰ عقل و حکمت کا استعمال کم از کم کیا گیا۔
۰ فطری تحقیق کو الوداع کہا اور صرف اخلاقیات پر زور دیا گیا۔
۰ سائنسی فکر اور منطق کو صرف اخلاقی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔
۰ تحقیق پسندی کی بجائے تقلید پسندی کو اپنایاگیا۔
۰ اِس دور میں مندرجہ ذیل مکاتبِ فکر وجود میں آئے، رواقیت ، اپیکوریت ،شکوک پسندی ، انتخابیت اور نو فلاطونیت۔اب اِن کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
 رواقیت (Stoicism)
اِس مکتبِ فکر کا بانی زینو (Zeno)تھا۔ زینو یونانی نہ تھا ،سامی النسل تھا۔ قبرص کا تاجر تھااورفلسفیانہ رجحان رکھتاتھا۔ یہ کاروباری سلسلے میں ایتھنزآیا۔کتابوں کی ایک دکان پر زینوفائنیز کی کتاب میں سقراط کے فلسفہ اور فلسفہ کے لئے قربانی کے حالات پڑھ کر بہت متاثر ہوا۔اسی کتب فروش سے دریافت کیا کہ ایتھنز میں ایسے لوگ کہاں رہتے ہیں ؟ عین اس وقت ایک کلبی فلسفی بازار سے گذر رہا تھا۔کتب فروش نے زینو کا اس سے تعارف کرا دیا اور یوں زینو کلبی مکتب ِ فکر میں شامل ہو گیا لیکن زیادہ دیر اِن کے ساتھ چل نہ سکا۔ ان کی مبالغہ آمیز زندگی زینو کوپسند نہ آئی اِس لئے وہ کلبیت سے الگ ہو گیا۔اِس نے ایتھنز میں کریٹس،سٹیفلو اور پولمو سے فلسفہ پڑھا اورسٹوا میں اپنے مدرسے کی بنیاد رکھی۔یہاں پر رواقیت کا آغاز ہوا۔زینو کو رواقیت کا بانی سمجھا جاتا ہے لیکن رواقیت کئی لوگوں کے افکار سے تعمیر پاتی ہے۔جن میں نمایاں نام کلیتھینز اور کرسپس کے ہیں جنہوں نے زینو کے بعد اِس مدرسے کو چلایا،جو کئی صدیوں تک قائم رہا۔نہ جانے کن حالات کی بِناءپر زینو کی موت خود کشی سے واقع ہوئی۔ 
۰ نظریات 
۰ افلاطون اور ارسطو کا خیال تھا کہ علم صرف منطقی استدلال سے حاصل ہوتا ہے۔جبکہ رواقی اِس سے اختلاف کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ علم حواس سے حاصل ہوتا ہے۔
۰ اِن کے نزدیک مادہ اور روح دونوں ایک ہی شے ہیں۔روح یا ذہن مادہ کی ایک اعلیٰ شکل ہے۔
۰ رواقی کائناتی تحقیق کی بجائے صرف اخلاقیات پر زوردیتے ہیں۔ان کا قول تھا کہ ” فطرت کے مطابق زندگی بسر کرو۔“اِن کے نزدیک زندگی جذبات و احساسات سے عاری ہونی چاہے۔ سقراط کی زاہدانہ زندگی ان کے سامنے تھی۔ اِسی نظریئے کا حامی انٹی تھینس تھا جو تمام عمر مکانوں اور دکانوں کے چھپروں کے نیچے سوتا رہا۔
۰ مسیحیت کی ترقی ہوئی تو لو گ رواقیت چھوڑ کر مسیحیت میں شامل ہو گئے۔کیونکہ رواقیت میں حقیقتِ کامل اور مردِ کامل کاتصورمہمل اور ناقابلِ قبول تھا۔اِس میں انسانی جذبات کو مسخ کیا گیا تھا۔ جبکہ مسیحیت میں خدا کو اِنسان کے روپ میں پیش کیا گیا تھا جو اِنسان کے زیادہ قریب تھا اور قابلِ فہم تھا۔مسیحیت میں جذباتی زندگی گذارنے اور پھر غلطی اور گناہ کرکے مغفرت حاصل کرنے کا آسان راستہ موجود تھا۔ اِس لئے لوگ مسیحیت میں داخل ہو گئے اور رواقیت دم توڑ گئی۔
 ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -