بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی تاریخی پرانی سی عمارت ہوا کرتی تھی جس سے بچپن کی بہت ساری یادیں جڑی ہیں

 بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی تاریخی پرانی سی عمارت ہوا کرتی تھی جس سے بچپن ...
 بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی تاریخی پرانی سی عمارت ہوا کرتی تھی جس سے بچپن کی بہت ساری یادیں جڑی ہیں

  

 مصنف: محمد سعید جاوید

قسط:54

 نیٹی جیٹی پُل سے ایک دو اور یادیں بھی وابستہ ہیں۔ ان کا بھی ذکر کرلوں تو چلوں۔ ایک تو یہ کہ ہم بعض اوقات کسی اتوار کے دن مچھلی پکڑنے والا کانٹا اور ڈور لے کر وہاں جا بیٹھتے تھے ۔ گھنٹوں انتظار کے بعد بے نیل و مرام واپس آنا پڑتا تھا۔ہاں دو دفعہ میرا پھینکا ہوا کانٹا ”کچھ“ ساتھ لے کر پانی کی سطح پر نمودار ہوا ۔ ایک بار تو ایک بڑا سا کیکڑا اس کے ساتھ چمٹا ہوا چلا آیا تھا ،جبکہ دوسرے موقع پر کسی کے پھٹے پرانے جوتے نے سر باہر نکالا۔ ہم اس کو بڑی مچھلی سمجھ کر خوش ہوتے رہے اور احتیاط سے کھینچ کر باہرلاتے رہے مبادا وہ کانٹا توڑ کر بھاگ نہ نکلے ۔مختصر یہ کہ کم از کم میں اور میرا کوئی دوست تو وہاں سے کبھی کوئی مچھلی نہیں پکڑ سکا تھا۔ بس گھر سے لایا ہوا پراٹھا کھا کر منہ لٹکائے ہوئے شرمندہ شرمندہ سے واپس آجاتے تھے ۔

اس پُل سے جڑا ہوا دوسرا واقعہ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ ہے ۔ہوا کچھ یوں تھا کہ ہمارے سکول کے انتہائی شریف النفس اور با وقار ہیڈ ماسٹر علی مقدس رضوی اپنی پینشن کے پیچیدہ معاملات کو سدھارتے ہوئے حوصلہ ہار بیٹھے اور پھر ایک صبح ان کی لاش اسی پُل کے نیچے تیرتی ہوئی پائی گئی تھی ۔ وہ یہ ذہنی اذیت برداشت نہ کرسکے تھے اور یہاں سے کود کر اپنے تمام دکھوں سے خود تو نجات حاصل کرلی مگر پیچھے رہ جانے والوں کو گہرے صدمے سے دوچار کر گئے ۔آج بھی ان کا شفیق چہرہ نظر کے سامنے گھومتا ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ وہ بہت عظیم استاد اور اتنے ہی پیارے انسان بھی تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے !

اس دعا کے ساتھ ہم فی الحال اس پُل سے آگے جانے کا پروگرام معطل کرکے ایک بار پھر بندر روڈ سے ہوتے ہوئے واپس صدر کی طرف آتے ہیں ۔

 بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی ایک خوب صورت ، تاریخی اور پرانی سی عمارت ہوا کرتی تھی جس سے بچپن کی بہت ساری یادیں جڑی ہیں۔ اس عمارت کی بناوٹ کچھ عجیب و غریب سی تھی۔ ایک گوشے پر تو بڑا سا گنبد تھا اور دو نسبتاً چھوٹے گنبد مرکزی دروازے کے اوپر بنائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں سنانے اور بتانے کو میرے پاس بڑا کچھ ہے ۔ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس ریڈیو کہانی کے ساتھ اس زمانے کے عوام کو تفریحی مواقع پیش کرنے والے دو اور اہم ذرائع یعنی ٹیلی وژن اور فلم کے بارے میں بھی بات کر لیتے ہیں ۔لیکن یہ طوطا کہانیاں اس قدر پھیلی ہوئی ہیں کہ ان کو دائرہ تحریر میں لانے کے لیے کتاب کا ایک پورا نیا باب کھولنا پڑے گا ۔ تو پھر ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور ان کو اگلے باب کے لیے بچا رکھتے ہیں۔

 صداؤں اوررنگ و نور کی محفلیں 

ریڈیو پاکستان 

ریڈیو پاکستان کی عمارت کے اندر جانے کا اتفاق تو کبھی نہیں ہوا تھالیکن بچپن اور لڑکپن میں ریڈیو پاکستان کو ہمیشہ ہی اپنے دل کے بہت ہی قریب پایا۔ٹر۱نسسٹر ریڈیو ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ بازار میں مرفی اور فلپس کے بڑے بڑے ریڈیو ہوتے تھے لیکن ان تک پہنچ کم از کم اپنے بس کی بات نہیں تھی ۔ اس لیے میرے ابا جان نے اپنی فوجی یونٹ کے الیکٹریشن سے کہہ سن کر ایک ذاتی سا ریڈیو بنوایا تھا اور پھر بڑھئی سے اس کی خوبصورت سی باڈی بھی بنوا کر اس پر پالش کروا لیا تھا۔ اس میں بس دو ہی بٹن تھے ، ایک ریڈیو کو چلانے اور آواز اونچی نیچی کرنے کا جبکہ دوسرا مختلف اسٹیشن بدلنے کا ۔اس کے اندر تکنیکی احتیاج کی بناءپر ایک سو واٹ کا بلب لگتا تھا جو ہر وقت روشن رہتا تھا ۔ ایرئل کی ایک باریک اور لمبی سی تار گھر کی چھت پر بندھے بانس پر عشق پیچاں کی بیل کی طرح چڑھا دی گئی تھی ۔ 

اب ہوتا کچھ یوں تھا کہ جب اس کو چلایا جاتا تو یہ اپنی آئی پر آنے میں دو تین منٹ ضرور لے لیتا تھا ۔ اس دوران کوشش کے باوجود ایک گانا تو گزر ہی جاتا تھا ۔ تھوڑا سا شور مچانے کے بعد اس کی آواز ایسے ہی صاف ہو جاتی تھی جیسے کوئی بڑا بوڑھا کھنگار کر اپنا گلا صاف کرتا ہے ۔ ایک دوگھنٹے بعد اس ریڈیو کو کچھ دیر کے لیے بند کرکے ٹھنڈا کرنا پڑتاتھا۔

 ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -