اقوام کا میوزیکل چیئر ہو رہا تھا ،1683ءسے کالے نیویارک کی کچی بستیوں میں رہ رہے تھے پھر انہیں گرین وچ ویلج میں دھکیل دیا گیا

 اقوام کا میوزیکل چیئر ہو رہا تھا ،1683ءسے کالے نیویارک کی کچی بستیوں میں رہ ...
 اقوام کا میوزیکل چیئر ہو رہا تھا ،1683ءسے کالے نیویارک کی کچی بستیوں میں رہ رہے تھے پھر انہیں گرین وچ ویلج میں دھکیل دیا گیا

  

مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

قسط :31

 اس کا شکریہ میں نے بہت کم وقت میں ایسی بہت سی باتیں سیکھ لیں جو کسی نئے بیرے کے لیے بے حد نفع بخش ہو سکتی تھیں۔ گاہک مجھے نہ صرف اچھی طرح پہچاننے لگے بلکہ دوستانہ رویئے کا اظہار کرتے اور میں بھی ان کی دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتا۔

بار ٹینڈر اور باورچی، جو میرے خیال میں اپنے کام کے انتہائی مشاق تھے کے علاوہ گاہک بھی کبھی فرصت کے لمحات میں مجھے بہت کچھ سکھاتے رہتے۔

 میں یہ جان کر بے حد حیران ہوا کہ ”ہارلم“ ہمیشہ سے کالوں کی بستی نہیں تھی۔ پہلے پہل یہ جرمن آبادی تھی پھر یورپ بھر کے غریب، بھوکے اور مفلوک الحال مہاجرین بڑی تعداد میں یہاں آباد ہونے لگے۔ لیکن جرمن چونکہ پہلے آئے تھے اس لیے وہ آبادی پر غالب رہے۔ پھر آلوﺅں کے قحط سے ڈرکر آئرش یہاں آئے تو جرمنوں کو بھاگتے بنی اور آئرش ہارلم پر قابض ہوگئے۔ ان کے بعد اطالوی آئے تو انہوں نے آئرش قوم کو نکال باہر کیا۔ اطالویوں کے بعد یہودی آئے اور اطالوی چلے گئے۔

 اب ان تمام اقوام کے مہاجرین کی اولادیں ان کالوں سے جنہوں نے ان کا سامان ہارلم تک ڈھویا تھا ہارلم بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھیں۔

 مجھے ایک پرانے باسی نے بتایا کہ جب یہاں اقوام کا میوزیکل چیئر ہو رہا تھا اس سے بھی بہت پہلے تقریباً1683ءسے کالے نیویارک کی کچی بستیوں میں رہ رہے تھے۔ وہ پہلے پہل وال سٹریٹ کے علاقے میں مقیم تھے پھر انہیں گرین وچ ویلج میں دھکیل دیا گیا۔ وہاں سے انہیں پنسلوینیا اسٹیشن کی طرف ہانک دیا گیا اور پھر ہارلم سے ایک سٹاپ پیچھے ففٹی سیکنڈ سٹریٹ میں کالوں کی آبادی رہی جس کی وجہ سے اس کا نام سونگ سٹریٹ(Swing Street) پڑا جو کالوں کے جانے کے بعد بھی اس کی وجہ شہرت رہا۔

1910ءمیں کسی نہ کسی طرح ایک کالے ریئس اسٹیٹ ایجنٹ کی مدد سے دو تین سیاہ فام خاندان ایک یہودی کے گھر میں رہائش حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہودی کو وہ گھر چھوڑنا پڑا اور پھر وہ پورا بلاک ہی اور مزید سیاہ فام یہودیوں کے چھوڑے ہوئے گھروں میں آباد ہوتے چلے گئے اور پھر ایک وقت آیا کہ پورے ہارلم سے یہودیوں کو بستر لپیٹنا پڑا اور بہت کم وقت میں ہارلم پورا کا پورا سیاہ فام باشندوں سے آباد ہوگیا اور آج تک چلا آتا ہے۔

1920ءمیں میوزک اور انٹرٹینمنٹ ہارلم کی صنعت کے طور پر ابھرنا شروع ہوئے جسے اردگرد کے گوروں کی سرپرستی حاصل تھی جو ہر رات ہارلم میں آتے تھے اور یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب نیو اور لینز سے لوئی ساچمو آر مسٹرانگ نامی آدمی نیویارک پہنچا اور فلیچر ہینڈرسن کے بینڈ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔1925ءمیں سمال پیراڈائیز کھل چکا تھا 1926ءمیں کاٹن کلب نے اپنا آغاز کیا جہاں ڈیوک ایلنگٹن نے اگلے 5سال تک اپنا جادو جگایا۔1926ءہی میں سوائے بال روم کھلا جس کے ڈانس فلور پر ایک سو آدمیوں کے ناچنے کی گنجائش تھی۔

 ہارلم کی شہرت اتنی پھیلی کہ رات کے وقت یہاں دنیا بھر کے گورے جوق درجوق پہنچتے سیاحوں کی بسیں آنے لگیں۔ کاٹن کلب صرف گوروں کے لیے تھا اور دیگر کئی کلب صرف گوروں کی خدمت کرتے تھے کونیزان، لی نوکس کلب، سیرنز، دی نیسٹ کلب، جمی چکن شیک اور منٹنز چند بہت مشہور کلب تھے جبکہ سوائے، دی گولڈن گیٹ اور ری نائیسانس میں ہمیشہ گاہکوں کی بھیڑ رہتی۔ دی سوائے والوں نے نت نئی دلچسپیاں متعارف کروائی۔ مثلاً تھرسڈے کچن مکانکس نائٹس اور بیدنگ بیوٹی کونٹیسٹس جہاں ہر ہفتے کی رات ایک نئی کار انعام دی جاتی تھی ملک بھر کے بہترین بینڈز اپنے فن کا مظاہرہ کرنے یہاں آتے تھے۔

 بہت جلد کالوں کی اس بستی میں گورے، دلال، طوائفیں، چل پھر کر سودا فروخت کرنے والے پولیس اور خفیہ اداروں کے ایجنٹوں کی بھرمار ہوگئی۔ کالے اس قدر جوش و خروش سے ناچتے کہ لگتا کہ اس سے قبل انہیں کبھی کہیں ناچنے کا موقع نہیں ملا۔ مجھے کئی شوقینوں نے بتایا کہ”سیوائے“ میں انہوں نے زندگی کا پہلا ”لنڈی ھوپ“ رقص کیا جس کا آغاز 1927ءمیں”لنڈ برگ“ نے کیا تھا جو بعد میں فرانس چلا گیا۔ ایسے چھوٹے چھوٹے شراب خانے جن میں صرف پیانو رکھنے کی جگہ تھی ان میں بھی جیمز پی جانسن اور جیلی رول مورٹن جیسے کی بورڈ ماہر اور ایتھل واٹرز جیسے بڑے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ صبح چار بجے جب تمام قانونی کلب بند ہو جاتے تھے تو سارے قصبے کے گورے اور سیاہ فام موسیقار ہارلم میں پہلے سے طے شدہ ایک خاص جگہ پر اکٹھے ہوتے اور اگلی صبح تک ملکر خوب ہنگامہ اور تفریح کرتے۔ جب1929ءمیں سٹاک مارکیٹ کا کریش ہوا تو یہ ساری رونقیں ختم ہوگئیں۔ تب تک ہارلم پوری دنیا میں امریکی قصبہ (Americas' Casbah)کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔

 میں ہر وقت اپنے گاہکوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کےلئے تیار رہتا جو وہ کبھی اعتماد کی وجہ سے اور کبھی نشے کی زیادتی سے سکھاتے رہتے۔ وہ مجھے دلالی منشیات کی فروخت اور ہر قسم کی چوری بشمول مسلح ڈکیتی کے متعلق گر بتاتے۔( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -