ناامیدی کا کیا جواز ہے؟

ناامیدی کا کیا جواز ہے؟
ناامیدی کا کیا جواز ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کا شمار دنیا کے ان پہلے بیس ممالک میں ہوتا تھا جہاں کے لوگ عموماً کافی خوش رہتے تھے۔ پچھلے چار سال میں یہ happiness index پر سوویں نمبر سے نیچے آ گیا ہے۔ اس سال اسکا نمبر اس انڈیکس پر 108 واں ہے۔ پاکستان کے لوگ طبعاً حوصلہ مند اور ہر حال میں خوش رہنے والے ہیں۔ ہر سوال کا جواب الحمدللہ ہوتا ہے۔ شکر اطمینان پیدا کرتا ہے اور اطمینان خوشی پیدا کرتا ہے۔ تاہم پچھلے چند سالوں میں مہنگائی، معاشی دباؤ اور ملک کے مستقبل کے بارے میں شکوک نے ان پہ منفی اثر ڈالا ہے۔ اگرچہ اب بھی یہ اس خوشی انڈیکس پر بھارت (126) اور بنگلہ دیش (129) سے بہت بہتر ہیں، مگر ہمیں تو فن لینڈ، ڈنمارک، سویڈن اور آئس لینڈ کے قریب جانا ہے جو کہ خوشی انڈیکس کے پہلے چار ممالک ہیں۔ تجزیہ یہ بھی ہے کہ ناخوشی کا ایک اہم سبب بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر مایوسی کا کردار ہے جو افراد و اقوام کو شکست خوردگی اور بے بسی کا شکار کر دیتی ہے۔ 

دراصل مایوسی کی مہلک بیماری کا مریض روشنی میں اندھیرا ڈھونڈ نکالتا ہے۔ سیدھے راستے پہ معصوم اور موہوم سا موڑ اسے گہری خطرناک کھائی دکھائی دیتا ہے۔  بلا وجہ سینہ کوبی اور نوحہ گری عادت بن جاتی ہے۔ خاص طور پر ملک کی معاشی بد حالی اور نا مساعد سیاسی حالات کو دیکھ کر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اوندھے منہ گر جاتا ہے۔ مایوسی پھیلانے میں رہنماؤں اور سرکردہ شخصیات کا کردار اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں مایوسی پھیلانے کا رحجان دیکھنے میں آ رہا ہے۔  جس رہنما اور پارٹی کو حکومت اور فائدہ نہیں ملتا وہ جانے انجانے میں مر گئے، لٹ گئے کی ہاہا کار مچانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ مہنگائی ایسی ہو گی کہ قحط و افلاس پھیل جائے گا۔ اس سے لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے متعلق بے یقینی اور خوف کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

اس موقع پہ خاندان کے سربراہ سے لیکر ملک کے سربراہ تک کا فرض ہے کہ وہ اہلِ خانہ اور اہلِ وطن کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے آگاہ کرتا رہے“ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مال و جان اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے، لیکن صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔" یعنی انہیں راحت و خوشحالی ملے گی۔ زندگی میں مشکلات اور صبر آزما ماہ و سال آتے ہیں مگر کوشش اور صبر ان سے گزرنے کی کنجی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مسافر کے لئیے  راہِ امید پر چلنا  مایوسی سے بنی سڑک پہ چلنے  سے زیادہ خوشگوار ہوتا ہے حالانکہ دونوں ایک ہی منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔

پاکستان کے حالات  دوسری جنگ عظیم کے دوران کے برطانیہ سے زیادہ مشکل و مایوس کن نہیں۔ مگر وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے کمال جرأت اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ برطانیہ بے حد مایوسی شکار تھا کیونکہ نازی جرمنی کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ لیکن چرچل نے اپنے ناقابل تسخیر جذبے اور جوشیلی تقریر کے ذریعے برطانوی عوام میں امید اور عزم پیدا کئے۔ اسکی تقاریر، بشمول مشہور "ہم ساحلوں پر لڑیں گے" نے قوم کو بظاہر ناقابل تسخیر مشکلات کا سامنا کرنے پر تیار کر دیا۔ چرچل کی قیادت سراسر عزم اور اتحاد کے ذریعے ملک کو ناامیدی سے نکالنے کی بہترین مثال ہے۔

پاکستان کے معاشی حالات گریٹ ڈپریشن کے دور سے برے نہیں۔  گریٹ ڈپریشن ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گہری معاشی مایوسی کا 

وقت تھا۔ تاہم اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے عوامی کام کے منصوبوں، مالیاتی اصلاحات، اور ضوابط کے ساتھ قوم کی مایوسی کو دور کیا۔ اس کی دور اندیشانہ اور جرأتمندانہ گفتگو جو کہ وہ ہر شام ریڈیو خطاب کے ذریعے عوام سے کرتا تھا نے امید کی کرنیں پیدا کیں۔ وہ ہر روز معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے اپنے اقدامات کی وضاحت کرکے امریکی عوام کو سکون اور امید فراہم کرتا رہا۔ اس کی قیادت نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح پالیسی کی جدت اور براہ راست مواصلات مشکل وقت میں امید کو بحال کر سکتے ہیں۔ ہمارے رہنماؤں اور حکمرانوں کو یہ سبق سیکھنا ہو گا۔ کیا پاکستان کے حالات نسل پرستی اور بدامنی میں گھرے ہوئے جنوبی افریقہ سے بھی بْرے ہیں جب 27 سال کی قید سے نکل کر نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کو نسل پرستی کے سائے سے باہر نکالا۔ کس طرح اس نے عوام میں امنگ جگائی اور مفاہمت، امن اور مساوات کی فضا پیدا کی۔ منڈیلا کی غیر متزلزل وابستگی نے نسلی تناؤ اور مایوسی سے دوچار قوم کو ایک امید اور جمہوری مستقبل میں بدل دیا۔ ان کی صدارت اور سچائی اور مصالحتی کمیشن کے قیام نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح معافی اور اتحاد پر توجہ مرکوز کرنے والی قیادت کسی قوم کے گہرے زخموں کو مندمل کر سکتی ہے۔

سنگا پور کیا تھا، ایک چھوٹی، وسائل سے محروم نوآبادیاتی تجارتی ریاست۔ 1965 میں آزادی کے وقت، سنگاپور کو بے روزگاری، مکانات کی قلت، اور قدرتی وسائل کی کمی سمیت متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر سنگاپور کے پہلے وزیر اعظم لی کوان نے سٹریٹجک اقتصادی منصوبہ بندی، انسداد بدعنوانی کے اقدامات اور تعلیم میں سرمایہ کاری کے ذریعے، سنگا پور کو صفِ اول کے ممالک میں لا کھڑا کیا۔ لی کوان یو نے بصیرت و قیادت سے سنگاپور کو مایوسی کے پاتال سے نکال کر خوشحالی کی بلندیوں کی طرف لایا۔

کیوں کہ پنجاب کی سربراہ ایک متحرک اور سرگرم خاتون ہیں تو جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی مثال موزوں ہو گی۔ اس نے ملک کو متعدد بحرانوں سے نکالا، جن میں 2008 کا عالمی مالیاتی بحران اور یورو زون کے قرضوں کا بحران بھی شامل ہے۔ میرکل کی ا صلاحیت نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح مستحکم قیادت امید اور ترقی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ 

ہمارے لئیے یہ مثالیں اہم ہیں۔  یہ واضح کرتی ہیں کہ قوموں کے اندر ناامیدی اور مایوسی کو ایسی قیادت سے دور کیا جا سکتا ہے جو انتہائی سنگین حالات کو بھی امید اور کامیابی کی کہانیوں میں بدل سکتے ہیں۔ جو جرات، ایثار اور ہمدردی کی علامت ہوں۔ وہ رہنما جو مسائل میں گھرے عوام سیمسلسل رابطے میں ہوں۔ وہ جو بے مثال محنت اور خلوص سے اپنے لوگوں کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد کرتے ہیں۔ ہمارا ہدف خوشی انڈیکس میں فن لینڈ کے برابر آنا ہے۔ ہمیں یہ ہدف متحد ہو کر جہدِ مسلسل سے ملے جائے گا۔ اسکی نوید قرانِ پاک نے دی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -