عدلیہ بچاﺅ تحریک سے وکلاءگردی تک

عدلیہ بچاﺅ تحریک سے وکلاءگردی تک
عدلیہ بچاﺅ تحریک سے وکلاءگردی تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وکالت نہ صرف ایک معزز پیشہ ہے بلکہ دکھی انسانیت کی عظیم خدمت بھی ہے ۔پاکستان بھر کے وکلاءنے ایک طویل جدوجہد کی اور جسٹس افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی میں اپنا یادگار کردار ادا کیا۔یہ احتجاج تو رنگ لے آیا مگر پاکستان بھر کے وکلاءکو ایک نیا مزاج دے گیا اور پھر پاکستان کی تاریخ میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ وکلاءگردی کی اصطلاح سامنے آگئی ۔ وکلاءنے جب چاہا ،جہاں چاہا اور جسے چاہا اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیا۔کہیں معزز عدالتوں کے جج صاحبان ان کے ہتھے چڑھے اور ان پر جوتے برسائے، کہیں عدالتوں میں پیشی پر پولیس افسران ،کہیں عدالتی اہلکار اور کہیں بد نصیب سائلین وکلاءگردی کا شکار ہوئے۔
چند روز پہلے مسلم لیگ (ن) لائرزونگ اور حکومت کے حامی وکلاءنے لاہور ہائی کورٹ بار میں وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کیلئے طلب کیا گیا آل پاکستان وکلاءکنونشن الٹا دیا،اس موقع پر دونوں گروپوں کے وکلاءکے درمیان دھکم پیل ہوئی، آڈیٹوریم کے شیشے ٹوٹ گئے ،کرسیاں الٹ گئیں اور صدرسپریم کورٹ باررشید اے رضوی سمیت دیگر رہنماﺅں کو لائبریری میں بند کردیاگیا۔کنونشن انتظامیہ کو قرار داد منظور کروانے کا موقع نہ ملا توکنونشن کے انعقاد کے بغیر ہی اعلامیہ جاری کردیا جس میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے کیلئے سات دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ۔ جبکہ تحریک چلانے کیلئے صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی کی سربراہی میں نیشنل ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ۔
لاہورہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ، دھکم پیل اوروکلاءراہنماﺅں کو لائبریری میں بند کرناانتہائی شرمناک فعل ہے۔مسلم لیگ (ن) لا ئر ز فورم کے سربراہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کنوشن پرحملہ بار کے تقدس کے خلاف اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ کوناصرف عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے بلکہ ساتھیوں سمیت ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ضرور ہونی چاہیے تاکہ بار کا تقدس بحال ہوسکے۔دیکھا جائے تو اس صورتحال کے بعد پاناما کیس کے معاملے میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کے مطالبے پر وکلاءبرادری تقسیم ہوچکی ہے۔حکومتی حمائتی وکلاءکی کثیر تعداد میں مزاحمت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لیے چلائی جانے والی تحریک ہرگز وکلاءتحریک نہیں ہے بلکہ حکومت مخالف گروپ ہے۔لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی منتخب باڈی کے کچھ وکلاءووٹر میں بھی اس حوالے شدید بے چینی دیکھنی میں آرہی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنا ووٹ سیاسی استعمال کیلئے نہیں دیا تھا ۔ وکلا ءقائدین کی طرف سے وکلاءکی فلاح وبہبودکیلئے اقدامات کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن جاناقابل افسوس ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ6 مئی کو پاکستان بار کونسل کے تحت وکلاءنمائندگان کی ایک کانفرنس بلائی گئی تھی جس میں وکلاء اتحاد کو برقرار رکھنے اور پاناما کیس میں وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ملک بھر سے84 بار رہنماو¿ں نے شرکت کی تھی۔کانفرنس میں 24 وکلاءرہنماﺅں نے وزیراعظم سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ 48 نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیئے، اس سے قبل کوئی احتجاج کرنا غیردانشمندانہ فیصلہ ہوگا اور اس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔کانفرنس میں شریک 12 وکلاء نے کوئی رائے نہیں دی تھی اور کہا کہ پی بی سی کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کی حمایت کریں گے۔
قبل ازیں پانامہ کیس فیصلہ کے بعدوکلاءکی طرف سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کیا تھا ا ورساتھ ہی وکلاءتحریک چلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔وکلاءلیڈرشپ کو خدائی فوجدار بننےکی سوچ کو ترک کرنا ہوگا ۔وزیراعظم سے اخلاقی طور پرمستعفی ہونے کا مطالبہ ہرپاکستانی کا حق ہے ،لیکن اس بات کا بھی خیال ہونا چاہیے کہ اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی اخلاقی اقدار میں ہی ہونا چاہیے نہ کہ لٹھ لیکر سڑکوں پر نکلا جائے۔عوامی مینڈیٹ سے منتخب وزیر اعظم پر کوئی بھی فیصلہ زبردستی نہیں تھوپا جاسکتا۔وکلاءسمیت کسی بھی ادارے کوسربراہ مملکت کو ڈکٹیٹ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔جب قانون کے رکھوالے ہی عدالتی فیصلے سڑکوں پر کرنے کے خواہشمند ہوںگے تو پھر قانون کی بالادستی کے سامنے سوالیہ نشان ہے؟
جس ملک میں وکلاءقانون شکن ہو جائیں ،ججز کو گالیاں دیں ،انہیں زد وکوب کر کے کمروں میں محبوس کر دیں اس معاشرے میں انصاف کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ۔معززجج صاحبان ایسے” جگے“ وکیلوں کے خلاف کیسے فیصلہ سناسکتے ہیں؟۔وکلاءتحریک چلانے والوں کو چاہیے کہ اپنی سمت کا تعین کریں اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوزکرنے کی بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں جنہوں نے کالے کوٹ کو کالے کرتوت میں بدل دیا ہے۔
وکلاءکی جانب سے آئے روزپولیس اہلکاروں پر تشدد کیا جاتاہے،احاطہ عدالت سے ملزمان کو بھگایا جاتا ہے۔سچ کی آوازبننے پر صحافیوں پر تشدداور انکے کیمرے چھیننے کا عمل عام رویہ بن چکا ہے۔ وکلاءکو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ قانون دان ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور جب جہاں چاہیںبے قابو ہوجائیں، جس کو چاہے پِیٹ ڈالیں، جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں۔
یہ خدشہ موجود ہے کہ وکلا گردی پاکستان کے عدالتی نظام کو ناقابل بیان نقصان پہنچائے گی تاہمان حالات میں میڈیا کی طرف سے سارے وکلاءکو بدمعاش بنا کر پیش کرنا ہرگز عقل مندی نہیں۔وکلاءمیں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف حق کا ساتھ دیتے ہیں اور جھوٹے کا مقدمہ تک نہیں لڑتے۔ یہ بے چارے ہمیشہ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں، میرے مخاطب تو مخصوص اجارہ دار اور مفاد پرست وکلا ہیں اور انہیں اپنی برادری کے لوگ بھی اچھا نہیں سمجھتے۔
( بلاگر ایک قومی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں )

روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -