تحریک انصاف مشکل میں ہے
شیخ رشیدکبھی کبھی سنجیدہ گفتگو بھی کرتے ہیں۔ یعنی حالات کا حقیقی تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں۔ گو یہ کیفیت ان پر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ گزشتہ رات نجانے کس دل سے فرما رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) ابھی موجود ہے اور پنجاب میں بہرحال موجود ہے۔
ان کا خیال ہے کہ پنڈی اور میانوالی مکمل طور پر تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہیں، مگر پنجاب کے دیگر اضلاع ابھی مسلم لیگ(ن) کے ’’سحر‘‘ سے آزاد نہیں ہوئے۔
یہ بات کرتے ہوئے وہ اس کا علاج بھی بتاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کچھ نشستوں پر سمجھوتہ کرے۔
یعنی ان کے ساتھ تعاون کرے، لیکن یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ عمران خان ابھی ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہے اور پھر وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ تحریک انصاف ’’اسلامی‘‘ چہرے کے ساتھ آگے بڑھے۔
وہ لفظ کوئی اور استعمال کرتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ جماعت کو مذہبی یا اسلامی جماعت کے طور پر سامنے نہیں لانا چاہتے، مگر شیخ رشید کہتے ہیں کہ میں اس طرح کی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔
شیخ رشید خوفزدہ لہجے میں بتاتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی ممکن نہیں ہے کہ 2018ء کے بعد عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں، مگر جب ان سے اصرار کیا گیا کہ واقعی عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے تو انہیں یعنی شیخ رشید کو کو اپنی فکر پڑ جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کیوں میرے تعلقات خراب کرتے ہو۔۔۔ البتہ ایک بات وہ کہتے ہیں کہ وہ عمران خان سے چند اور سیٹیں بھی مانگیں گے۔
شیخ رشید نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی ’’اسمبلی‘‘ کے حوالے سے کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ظفر اللہ جمالی میرے ’’ووٹ‘‘ سے وزیراعظم بنے۔ یعنی اگر شیخ رشید ووٹ نہ دیتے تو جمالی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے، اس بات کو وہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں۔
البتہ تحریک انصاف کے اسد عمر تو عمران خان کو وزیراعظم بنائے بیٹھے ہیں اور باقاعدہ انگلیوں پر گن کے بتاتے ہیں کہ عمران خان ’’ایسے‘‘ وزیراعظم بنیں گے، مگر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ’’مسلم لیگ (ن)‘‘ ٹوٹنے کی دیر ہے۔ یعنی عمران خان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) کی موجودگی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) ٹوٹ گئی۔ یعنی اس وقت جو لوگ ہیں وہ سب کے سب تحریک انصاف میں چلے گئے۔ اور ان کے جانے کے بعد نئے لوگوں نے مسلم لیگ میں شامل ہوکر اپنا زور دکھا دیا تو پھر کیا بنے گا؟مجھے ذاتی طور پر مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ایک نئی مسلم لیگ(ن) ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی مسلم لیگ جو نوازشریف کے ’’بیانیے‘‘ کے ساتھ آگے بڑھے گی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جہاں لوگ نوازشریف کے ’’بیانیے‘‘ کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان کے ’’بیانیے‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
نوازشریف اپنے ’’بیانیے‘‘ کے بعد ’’غدار‘‘ قرار پائے ہیں۔ خاص طور پر تحریک انصاف کے نزدیک۔۔۔ مگر بلاول بھٹو نے نوازشریف کو ’’غدار‘‘ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں، مگر وہ انہیں ’’غدار‘‘ نہیں سمجھتے۔
ادھر اعتزاز احسن بھی نوازشریف کو’’غدار‘‘ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ یعنی نوازشریف اپنوں کے نزدیک ہی نہیں اپنے سیاسی حریفوں کے نزدیک بھی ’’غدار‘‘ نہیں ہیں۔ ان کا بیان ناسمجھی پر مبنی ہو سکتا ہے، مگر غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔یہ ایک طرح سے نوازشریف کی ’’سیاسی فتح‘‘ ہے۔
اب آگے جا کے کیا کہا جاتا ہے، اس کا انتظار کرنا پڑے گا، مگر بنی گالہ میں انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئی ہیں۔مستقبل کی حکومت کے وزیروں، مشیروں تک کے فیصلے ہوچکے ہیں، مگر ٹکٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔۔۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب ٹکٹ ٹکٹ کے نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔ اور یہ نعرہ جونہی ’’بنی گالہ‘‘ کی دیواروں سے ٹکڑاتا ہے۔ وزیراعظم یعنی عمران خان کی صدارت میں ہونے والا کابینہ کا اجلاس پریشان ہوجاتا ہے کہ اب اس کا کیا کریں، کیونکہ جونہی ٹکٹ دینے کا اعلان ہوگا۔ آدھی سے زائد جماعت مخالفت پر اتر آئے گی اور ایک نیا تماشا لگے گا۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ’’ایک انار سوبیمار‘‘ والا معاملہ ہے جماعت کے اندر اس وقت تک ایک ایک ایم پی اے کی نشست کے لئے دس دس کے قریب امیدوار اپنی اپنی مہم چلائے ہوئے ہیں اور ہر ایک امیدوار سمجھتا ہے کہ ٹکٹ کا اس سے بڑا حق دار کوئی نہیں ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہو گا، جس کے بعد تحریک انصاف کا مستقبل سامنے آئے گا۔
ابھی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کا آغاز نہیں ہوا۔ابھی تحریک انصاف کا مقابلہ نئی اور پرانی تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔
یعنی وہ لوگ جو گزشتہ بائیس سال سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کے درمیان جو ابھی ’’کل‘‘ شامل ہوئے ہیں۔ بظاہر جو ’’کل‘‘ شامل ہوئے ہیں۔
وہی تحریک انصاف کی ’’کل کائنات‘‘ ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کا اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ جو لوگ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ وہ لوگ ہر حال میں کامیاب ہوں گے اور ان لوگوں کی کامیابی ہی تحریک انصاف کو اقتدار میں لائے گی، یعنی قیادت سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کے لاکھوں ووٹر انہیں اقتدار میں نہیں پہنچا سکتے۔
جب تک کامیاب لوگ ’’اکٹھے‘‘ نہیں کئے جاتے۔سو تحریک انصاف کسی بھی پرانے یا حقیقی انصافین کو ٹکٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔۔۔ تو پھر بنی گالہ میں پرائم منسٹر کے نعرے کیوں لگائے جا رہے ہیں۔۔۔ تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ عمران خان کو نہ تو پرانے ساتھیوں پر یقین ہے اور نہ نئے ساتھیوں پر۔
انہیں اگر یقین ہے تو ان پر جو بظاہر نظر نہیں آتے، مگر اپنا کام دکھاتے ہیں۔۔۔ عمران خان کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ انتخابات میں ’’مداخلت‘‘ نہیں ہوگی۔۔۔ اور عمران خان اسی ’’یقین‘‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ مگر میرے نزدیک یہ یقین کافی نہیں ہے۔ جب تک کہ اپنی جماعت اور کارکنوں کے اخلاص پر یقین نہ ہو۔
جب تک کے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران کارکنوں کو مطمئن نہیں کیا جاتا۔ تحریک انصاف کے اندر یہ بے یقینی موجود رہے گی۔ میانوالی جو عمران خان کا آبائی شہر ہے۔ وہاں کی صورت حال مختصراً کچھ یوں ہے۔
تحریک انصاف کے اندر مختلف گروپ موجود ہیں اور یونین کونسل کی سطح پر موجود ہیں اور ہر یونین کونسل سے ایم پی اے کا ایک امیدوار اپنی مہم چلا رہا ہے۔
بظاہر سب اعلان کررہے ہیں کہ پارٹی جسے ٹکٹ دے گی، اس کی حمایت کریں گے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوگا۔ ابھی ضلعی چیئرمین کے انتخاب میں تحریک انصاف کے چودہ کے قریب چیئرمینوں نے ’’بغاوت‘‘ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کو ہرا دیا۔
اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو کامیاب ہونے کا موقع دیا۔ یہ سب کچھ عمران خان کی ناک کے نیچے ہوا۔ اور عمران خان کچھ بھی نہیں کر سکے۔ یہی صورت حال 2013ء کے ضمنی الیکشن میں نظر آئی۔
عمران خان نے جب اپنی آبائی نشست چھوڑ دی تو ضمنی الیکشن میں ان کے نامزد امیدوار شکست کھا گئے۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ایک معروف گلوکار نے ٹکٹ کے حصول کے لئے مہم چلائی۔ ایک دو اور لوگ بھی امیدوار بنے، مگر عمران خان نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی وجہ سے اس گلوکار سمیت دیگر رہنماؤں نے تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، بلکہ اپنے اپنے گروپ کے ساتھ ’’خاموشی‘‘ سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی حمایت کی۔ اور وہ سیٹ جس پر عمران خان بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔
تین ماہ بعد وہ سیٹ مسلم لیگ(ن) نے آسانی کے ساتھ جیت لی۔ مگر اس بار تو معاملہ اس سے بھی خراب ہے، یعنی ہر شخص پارٹی ٹکٹ کا خواہشمند ہے اور ناکامی پر کچھ بھی کر سکتا ہے اور یہ صورت حال دیگر اضلاع میں بھی نظر آتی ہے۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف ٹکٹ تقسیم کرنے کے بعد کافی حد تک بکھرے گی۔