ہے کوئی سائل جو مجھ سے سوال کرے

ہے کوئی سائل جو مجھ سے سوال کرے
ہے کوئی سائل جو مجھ سے سوال کرے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دیوان عدل میں داد گستری کے چہل چراغوں کی لاٹیں چرخ نیلوفری کو چھورہی ہیں، کبھی قلب پاکستان دھڑکنے لگتا ہے تو کبھی روشنیوں کے شہر پر انصاف سایہ فگن نظرآتا ہے۔ کبھی بلہے شاہ کی دھرتی ننھی کلیوں کو مسلتے درندوں پہ تنگ کر دی جاتی ہے۔

تو کبھی اسما کے بابا کے جگرِ فگار پہ پھاہے رکھے جاتے ہیں، کبھی دودھیا کیمیکل کو مامتائی شِیر کا درجہ دینے والے ہوش کے ناخن لیتے نظرآتے ہیں توکہیں امارت کے نشے میں مخمور شاہ زیب کے قاتل کو مْکا لہرانا مہنگا پڑتا ہے۔

کہیں اعضائے انسانی کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کی گردنوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے توکہیں شہرت کے بْھوکے سراسیمگی پھیلاتے اینکر کا سر دائرہ معذرت میں خمیدہ دکھائی دیتا ہے، ناجائز تجاوزات پہ اِتراتے شادی بیاہ کے فلک بوس اخراجات کے حامل شادی ہالز کے کنگرے ہِلنے لگتے ہیں تو کہیں نسل نو کو ڈاکٹر بنانے کے خواب دیکھتے والدین کا خون چوستے واجبات کی باز پْرس پہ بِلبِلا اٹھتے ڈاکٹر فریدکی خاتون وکیل پہ دھونس جمانے کی سزا معطلی پہ منتج ہوتی ہے، دْکھی دلوں کو دھڑکنوں کی طوالت عطا کرتے خرچوں کے چرچوں کو لگام ڈالی جاتی ہے تو کہیں دْہری شہریت سے لطف اندوز ہوتے اعلیٰ عہدیداران کو عدلیہ یا انتظامیہ کی چھاپ نہیں بچا پاتی، کہیں کچہریوں میں برسوں سے التوا کے شکار مقدمات کے پنوں میں کھڑکھڑاہٹ سنائی دیتی ہے تو کہیں پنچائیتوں کے سرپنچوں کے طرے سرنگوں ہونے لگتے ہیں، امتیازات سے بالا عدلی عینک ہندو کی مقبوضہ زمین پہ حکومت سندھ کی چالاکی بھانپ لیتی ہے تو تلاش رزق میں دیار غیر کا رخ کرتے جوانوں کی تربت میں پڑی نعشوں کی شنوائی ہو جاتی ہے۔

فاضل مادوں کو ٹھکانے لگانے والوں کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں تو کہیں سی ڈی اے کے چْنگل میں پھنسی درسگاہ کی ملکیت پھڑپھڑانے لگتی ہے۔

پنڈی کی نو سالہ دختر حوا کی شعلوں میں جلتی چیخوں پہ توجہ مرکوز ہوتی ہے تو جنسی ہوس کا نشانہ بنتی طوبیٰ کی موت کے گھاٹ پہ متنفرانہ کراہ پہ کان دھرے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک عادل کے ثروت کدے میں انسانیت سوزی کا شکار ایک خادمہ کے دریدہ بدن کی تشفی کا چیلنج قبول کیا جاتا ہے، کہیں انسانی ابدان میں زہر گھولتے کوکنگ آئل کا بھانڈا پھوڑا جاتا ہے۔

جب ایک مامتا کے سینہ دریدہ سے نکلتی بکا پہ دربدر بھٹکتے سائلین کی داد رسی کے لئے الگ سیل کے قیام کا اعلان ہوتا ہے تو عین اسی وقت وفاقی وزارت تعلیم کے زیر سایہ ایک محکمہ کا ڈائریکٹر ایسے مستغیث پہ کڑکدار ابر سیاہ کی طرح گرج گرج کر برسنے لگتا ہے۔

جس کا جرم یہ ہے کہ ٹاٹ کے شگاف پہ اس لئے پانچ سال بیٹھا کہ ہم جماعتوں میں کم سن و کوتاہ قامت تھا۔ بے راہ صحراؤں کی چلچلاتی ریت اس لئے جھاگی کہ چھٹی سے دسویں تک کا سکول چودہ کلومیٹر کی مسافت پہ تھا۔ گریجوایشن تک کے اخراجات امیر زادوں کی دہلیز پہ علم کی دولت ابلاغ کرنے کے بدلے ملتی ٹیوشن فیس سے پورے کئے۔

قومی ادارہ برائے انسانی ترقی میں خواندگی کی شرح بلند کرتے لٹریسی پروگرام کی مانیٹرنگ کے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے جعلی سکولز بے نقاب کرنے کی پاداش میں سسپنشن، ٹرمینیشن اور ڈسمزل کی ساری سزاؤں کے طمانچے بیک وقت اسے رسید کر دیے گئے تو رنگ روڈ لاہور کی بد عنوانیوں سے شہرت پانے والے معروف بیوروکریٹ اسے دھکے دے کر نکالتے ہوئے دھاڑا کہ خسرو پرویز کی ڈکشنری میں نظر ثانی کا لفظ وجود تک نہیں رکھتا۔ چار و ناچار دروازہ عدل کی بھاری بھرکم زنجیر ہلانے کے لئے در در پہ اپنے آپ کو رہن رکھنے والاعدل کے انتظار میں چار برس کے بجھے چولہے کی راکھ میں چنگاری کی امید لگائے آکاش پہ چھائے سرمئی بادلوں سے باتیں کرتی شہید ملت سیکریٹریٹ اسلام آباد کی عمارت کے سامنے کھڑا وہ سوچ رہا ہے کہ کونسی چیخ دھار چیخوں کہ ابلق ایام کی ہنگامہ آرائیوں کو ہیچ کرتی ان سماعتوں تک رسائی کر پائے جن کو اعلان کرنا پڑا ہے کہ ہے کوئی سائل جو مجھ سے سوال کرے اور میں یہیں کھڑے کھڑے اس کا فیصلہ کر دوں ۔
اے دور حالیہ کے نوشیرواں۔ جہاں تمام شعبہ جات کا بگڑا آوے کا آوا آپ کی نظر کرم کی گرفت میں ایسے ہے کہ جام جم کی افسانوی کہانیاں بھی دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ وہاں چہار دانگ عالم چھائی دردشناسی کے دمکتے چراغوں تلے اندھیرے سے ڈبلیو۔ پی۔ 315.2015 کیس ہائی کورٹ اسلام آباد کے فریادی کی سسکتی سسکاریاں پکار رہی ہیں کہ میزان عدل کی ناک کے عین نیچے گذشتہ تین برسوں سے عدالتی احکامات و پیغامات کو پایہ استحقار پہ رکھ کرعدالتی احترام و تقدیس کی دھجیاں اڑاتی مذکورہ بالا ادارے کی عدیم الحس انتظامیہ کا کیس کا جواب داخل نہ کرانا فضائے بسیط پہ محیط دائرہ اہانت عدالت میں نہیں آتا؟ کیا کوئی ایسا پیمانہ تخلیق نہیں ہؤا کہ جس کی حدود و قیود کی گرفتوں میں نام نہاد خواندگی پروگرام کی آڑ میں ڈکار کی زحمت گوارا کئے بغیر لاکھوں ہڑپ کرنے والوں کو ہالہ احتساب میں کھڑا کیا جا سکے۔

عدالتی جمود کی اس سے بڑھ کر انتہا اور کیا ہو گی کہ کالا کوٹ بھی سائل کو مخلصانہ مشورہ سے نوازے کہ مٹھیاں گرم کرتے میل ملاپ کے فارمولے کو اپنا کرمحکمہ کی طرف سے جواب داخل کرائے تو کوئی فیصلے کا نتیجہ برآمد ہو۔ اب سائل کالے کوٹ پہ انگشت نمائی کا نہ سوچے تو اور کیا کرے کہ متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر ایچ آر بھی سارا کیچڑمحکمے کی نمائندگی کرنے والے کالے کوٹ پہ ڈال رہا ہے۔

ایک طرف کالا کوٹ اسی دْہائی دینے والے کے لئے عدالت عالیہ کو لاچار قرار دے اور دوسری طرف جعلی اسناد کے حاملین کو بحالی ملازمت کا پروانہ تھما کر بڑی تمکنت سے اترا اترا کے چلے۔

دور حاضرکے ایسے جری عادل جس نے وزارت عظمی کی مضبوط کْرسی کے پائے ہلانے میں جھرجھری تک نہیں لی، اْس کو بھی کالے کوٹ سے کیا گیا جرمانہ وصول کرنے کے لئے بصیرتوں و بصارتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
بلا تشکیک وکالت ایک قابل احترام شعبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسما میں سے ایک الوکیل بھی ہے۔ برطانیہ میں قانون کی درسگاہ لنکنز ان کے صدر دروازے پر دنیا کو قانون دینے والوں میں سب سے اوپر نام مرسل اعظم محمد مصطفیٰﷺ کا اسم گرامی کندہ ہے۔

بانی پاکستان پر تاریخ کی تقدیرساز شخصیات کے مطالعے سے یہ عقدہ کھلا کہ ان میں سے اکثر بیرسٹر تھے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے بارایٹ لا میں داخلے کا فیصلہ کیا۔

شہرہ آفاق ادیب لیو ٹالسٹائی نے آزادی کی تحریک دینے کے لئے گاندھی کو خط لکھا تب وہ ایک وکیل ہی تھے۔ اور آج کے صور عدل پھونکنے والوں کا سفر بھی کالے کوٹ سے شروع ہؤا تھا۔ ستم رسیدگیوں سے کْچلے ابنائے آدم کی ترجمانی کرتے وکلا عدل کا ترازو تھامنے والوں کے نائبین کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جناب والا، محکمہ جات کے نظام کو ثاقب بنانے کے اقدامات قابل تحسین و آفرین لیکن سائل کی آخری امید باب عدل کی شفافیت تاخیر و التوا کے دیمک زدہ اوراق میں ملفوف و مشکوک رہی اور افلاک کو چھوتی وکلا کی فیسوں کو لگام نہ ڈالی گئی نیز وکلا گردی کے جوان ہوتے لفظ کو دفن نہ کیا گیا تو مینارہ عدل پہ دمکتے ثاقب کی چاندنی چار دن کی ہو گی اور عہد ناپرساں کے مظلوم کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ ہو گا
بقول جناب اسد جعفری صاحب
دامن صاحب انصاف نہ ہاتھ آیا مگر
تارتار اپنا گریباں تو کر سکتا ہوں
اس کو معلوم ہے کچھ ظلم کے ماروں کی طرح
میں بھی انصاف کی دہلیز پہ مر سکتا ہوں

مزید :

رائے -کالم -