اب نگران وزیراعظم کا فیصلہ کر ہی لیں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ میں ایک اور ملاقات ہو گئی ہے، جو اِس لحاظ سے کامیاب ثابت نہیں ہوئی کہ نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا اور ابھی مزید ملاقاتیں ہوں گی،اِس عہدے کے لئے جس کی مدت صرف دو ماہ ہے،اب تک ایک درجن سے زیادہ نام سامنے آ چکے ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی نیا نام بھی سامنے آ جاتا ہے، بظاہر لگتا ہے کہ سیاست دان یا میڈیا سے متعلق، خواتین و حضرات کسی تحقیق و تصدیق کے بغیر بھی بعض نام آگے بڑھا رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ہجومِ عاشقاں سامنے آ چکا ہے، جس میں سے کسی ایک متفقہ نام پر پہنچنا کوئی آسان کام نہیں رہا اور دو بڑوں کی ہر ملاقات اِس نوٹ پر ختم ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا اور مزید ملاقاتیں ہوں گی۔
آئینی طریقِ کار کے مطابق وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کو کسی ایک نام پر متفق ہونا پڑتا ہے اگر وہ اِس مرحلے پر نہ پہنچ سکیں تو پھر یہ معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس جاتا ہے، وہاں بھی اگر کسی وجہ سے اتفاق رائے ممکن نہ ہو تو پھر حتمی طور پر معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جنہیں ناموں کی ایک فہرست ارسال کر دی جاتی ہے، جن میں سے کسی ایک کے نام کا اعلان کرنے کا وہ مجاز ہوتا ہے اور پھر یہ نام وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف دونوں کو ماننا پڑتا ہے چاہے اُن کے لئے پسندیدہ ہویا نہ ہو، اِس لئے بہتر تو یہی ہے کہ یہ نوبت ہی نہ آنے دی جائے اور پہلے مرحلے ہی میں کسی نہ کسی نام پر اتفاق کر لیا جائے،جو نام اِس وقت سامنے ہیں اُن میں سے کئی ریٹائرڈ جج یا ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دو پسندیدہ صنعت کاروں کا نام بھی شامل کر دیا ہے،ان میں سے ایک تو پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور آج ہی انہوں نے یہ رکنیت چھوڑی ہے تاکہ وہ نگران کے لئے ’’کوالیفائی‘‘ کر سکیں، چلئے اگر ریٹائرڈ ججوں اور بیورو کریٹوں میں سے کسی پر اتفاق نہیں ہوتا، تو کسی صنعتکار پر ہی کر لیا جائے، اِسی طرح ایک نام صنعتکار کم ڈپلومیٹ کا بھی سامنے آیا ہے ان پر بھی غور ہو سکتا ہے،لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ غور کے مرحلے سے آگے نکل کر فیصلہ کر لیا جائے، ورنہ یہ عمل طول کھینچ جائے گا اور پھر ممکن ہے فیصلہ کسی ایسے شخص کے حق میں ہو جائے،جو نہ تو حکومت کا پسندیدہ ہو اور نہ ہی قائد حزبِ اختلاف کا، البتہ ایسے کسی امیدوار پر کسی نہ کسی کا دستِ شفقت تو ہو ہی سکتا ہے۔
نگران وزیراعظم جو کوئی بھی ہو، اس کی اولین ذمے داری ایسے انتخابات کرانا ہیں جن کا اعتبار قائم ہو سکے، جو آج تک تو نہیں ہوا،کیونکہ ماضی میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے اُنہیں ہارنے والوں نے نہیں مانا اور غلط یا صحیح کوئی نہ کوئی الزام انتخاب کرانے والوں پر جڑ دیا،حالانکہ یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ شفاف انتخابات کے سلسلے میں بہت سے اقدامات کئے جا چکے ہیں اور اب پولنگ سٹیشن پر اُس طرح کی دھاندلی کرنا کسی طور پر ممکن نہیں رہا، جیسی ماضی کے بعض انتخابات میں ہوتی رہی، اب انتخابی فہرستوں میں ووٹر کے نام کے اندراج کے ساتھ اُس کی تصویر اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر ہوتا ہے اور کارڈ کے بغیر کوئی ووٹر اپنا ووٹ نہیں ڈال سکتا،اِلا یہ کہ کوئی منظم گروہ غنڈہ گردی کر کے بیلٹ بکس ہی گھر لے جائے اور وہاں پندرہ بیس ہزار ٹھپے لگے ہوئے ووٹ بکس میں ڈل دے، جیسا کہ ماضی میں ایک گروہ نے ایسا کر دکھایا، تاہم اب انتخابی عملہ اگر مزاحمت کرے اور ایسی کوئی مداخلت نہ ہونے دے تو اس طرح کی غنڈہ گردی بھی ممکن نہیں،اِس لئے جو صاحب بھی نگران وزیراعظم مقرر ہوتے ہیں اُنہیں اپنی ساری توجہ شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد پر مرکوز رکھنی چاہئے تاکہ ہم کم از کم پہلا ایسا الیکشن کرانے میں تو کامیاب ہو سکیں جو صحیح معنوں میں شفاف ہو، اگر کوئی بھی نگران وزیراعظم اِس امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا اور اس کا کرایا ہوا انتخاب بھی اس سے پہلے ہونے والے انتخابات کی طرح متنازعہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ بات بالکل غیر متعلق ہو جائے گی کہ انتخابات کسی متفقہ وزیراعظم نے کرائے یا غیر متفقہ نے،اگر ہارنے والے پہلے کی طرح گھسی پٹی الزام تراشیوں پر اُتر آتے ہیں اور کوئی نئے انتخابات کو بھی آر او ز یا پیرپگارہ مرحوم کے الفاظ میں فرشتوں کا انتخاب قرار دے دے تو پھر اِس ساری غیر معمولی سرگرمی کا کیا حاصل؟
اِس وقت الیکشن کمیشن بھی پوری طرح با اختیار اور پُرعزم ہے یہ کمیشن کے عزم و حوصلے کا بھی امتحان ہے کہ وہ اپنے عملے کو کیسی تربیت دیتا ہے اور اُنہیں کیسی صلاحیت سے آراستہ کرتا ہے کہ وہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو پولنگ والے دن انتخابی عملے کو متاثر کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دے، چھوٹی موٹی بے قاعدگیاں تو انتخابات میں ہوتی رہتی ہیں، جن کے ازالے کے لئے انتخابی عذر داریوں کا طریقہ کار موجود ہے،لیکن اس طریقے پر بھی یہ اعتراض ہوتا ہے کہ انتخابی مدت ختم ہو جاتی ہے،لیکن ان عذر داریوں کا فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا، اب بھی جب اسمبلیوں کی مدت میں ایک ہفتہ باقی ہے، عذر داریوں کے بعض کیس اب بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں،الیکشن کمیشن کو ابھی سے اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے اور کوئی ایسا طریقہ وضع کرنا چاہئے، جس سے کام لے کر انتخابی عذر داریوں کی سماعت کم سے کم وقت میں ہو سکے، اِسی طرح جب یہ مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں جائیں تو ان کی سماعت تیزی سے ہونی چاہئے تاکہ اگر کسی متاثرہ شخص کی عذر داری قبول ہو تو اسے کوئی فائدہ بھی پہنچے، ایسا تو نہیں ہونا چاہئے کہ کسی کے حق میں فیصلہ بھی ہو جائے اور اس دوران اسمبلی کی مدت ہی ختم ہو جائے۔
ہماری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ سے گزارش ہے کہ وہ اب مشاورت کے سلسلے کو مزید دراز نہ کریں اور جلد از جلد کسی نام پر اتفاق کر لیں، اگر کسی وجہ سے اتفاق رائے نہیں ہوتا تو جو نام سامنے ہیں اُن کی قرعہ اندازی ہی کر لیں، شاید اِس طرح کام آسان ہو جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو کہا جائے گا دو بڑوں نے بروقت فیصلے سے گریز کیا تو آئینی طریقِ کار کے مطابق معاملہ دوسرے اداروں کے ہاتھ میں چلا گیا،اِس لئے بہتر ہے اب مزید تاخیر کی بجائے فیصلہ کر ہی لیں۔