بھارت سے جنگوں میں پہل کس نے کی تھی؟
پرسوں 21مئی کو اسی اخبار میں شائع ہونے والے میرے کالم کا عنوان تھا: ’’ عسکریات اور سیاسیات۔۔۔‘‘ میں ان کالم نگاروں میں شامل نہیں جو اپنے ہی کسی سابقہ کالم کا حوالہ دے کر گویا چبائے ہوئے مواد کو چبانے لگتے ہیں لیکن آج اجازت دیجئے کہ اس تحریر کا ایک پیراگراف بارِ دگر یہاں کوٹ کروں۔ میں نے لکھا تھا:
’’پاکستان اور انڈیا کی عمریں تو ایک ہیں لیکن اب تک کے 70برسوں میں انڈیا نے جتنی بھی جنگیں پاکستان سے لڑی ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی اس نے پہل نہیں کی۔۔۔ 1947-48ء ،1965ء،1971ء اور 1999ء کی جنگوں میں پاکستان ہی نے پہل کی‘‘۔
اس پر کئی قارئین کے فون آئے کہ میں نے یہ کیا لکھ دیا ہے۔ہم پاکستانی آج تک تو یہی کہتے اور سمجھتے رہے ہیں کہ انڈیا نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا، اسی نے جارحیت کا ارتکاب کیا اور وہی ہے جو ہر بار اور بار بار چھوٹی بڑی جھڑپوں، لڑائیوں (Battles) اور جنگوں (War) میں پہل کرتا آ رہا ہے۔
پاکستان تو ایک امن پسند ملک ہے۔ وہ انڈیا کے خلاف کیسے جارحیت کا ارتکاب کر سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ قارئین محترم! یہ وہ بیانیہ ہے جسے پاکستان کا ایک محدود سول اور فوجی طبقہ قارئین کے سامنے رکھ کر عالمی تاریخ اور نیز تاریخِ اسلام سے اپنی عدم واقفیت کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔۔۔
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ سن 2ہجری میں غزوۂ بدر میں مسلمانوں نے ہی کفار مکہ کے ساتھ جنگ میں پہل کی تھی؟۔۔۔ کیا مسلمانوں نے ابو سفیان جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، کی زیرِ قیادت شام سے جو قافلہ مکہ آ رہا تھا اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی؟ ذرا اس غزوے کی تفصیلات میں جائیں اور دیکھیں کہ اس میں پہل مسلمانوں نے کی تھی یا کفار نے؟۔
ہم اس بات کو شاید فراموش کر دیتے ہیں کہ آنحضورؐ کو اس غزوۂ بدر سے ڈیڑھ دو برس پہلے کفار مکہ نے انؐ کو اپنے مولد سے دربدر کر دیا تھا اوراللہ کے آخری رسولؐ کو چھپ چھپا کر مکہ سے مدینہ آنا پڑا تھا۔
کفار کی یہی پہل تھی جس کا جواب فوری طور پر مسلمانانِ یثرب نے نہیں دیا تھا بلکہ آنحضورؐ کی قیادت میں جب جنگ کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں تو پھر ابو سفیان کے تجارتی قافلے کو روک کر کفار مکہ کو دعوتِ جنگ دی تھی!
یہ غزوۂ بدر، اسلام اور کفر کی گویا پہلی لڑائی تھی جو باقاعدہ میدان جنگ میں لڑی گئی۔ بعض دوست اس جنگ کو ایک خود حفاظتی جنگ یعنی ایسی جنگ کا نام بھی دیتے ہیں جو مسلمانوں نے ’’سیلف ڈیفنس‘‘ کے نام پر لڑی تھی۔
چلو اگر اس غزوہ کو ’’خود تحفظی غزوہ‘‘بھی سمجھ لیا جائے تو پھر غزوۂ تبوک کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ یہ غزوہ آنحضورؐ کی زندگی ء مبارکہ کا آخری غزوہ تھا۔ کیا وہ بھی تحفظی غزوہ تھا؟ کیا وہ غزوہ فتح مکہ کے بعد سن 9ہجری میں نہیں لڑا گیا تھا؟ کیا اس وقت مکہ یا مدینہ پر عیسائی لشکر کی طرف سے کسی حملے کا فوری خطرہ تھا؟۔۔۔ یہ معرکہ ء تبوک تو اس دور کے عرب میں جدید اسلامی اور قدیم رومی لشکروں کے درمیان ایک ایسی جنگ تھی جس کا حجم 313بمقابلہ 1000نہیں تھا بلکہ 30ہزار بمقابلہ کئی لاکھ تھا!۔۔۔(اصل تعداد میں اختلاف ہے) کیا اس غزوۂ تبوک میں کسی عیسائی لشکر نے مکہ یا مدینہ پر یلغار کر دی تھی؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ لشکرِ اسلامی مدینہ سے روانہ ہو کر 688 کلومیٹر(428میل) کا فاصلہ طے کرتا ہوا آج کے اردن اور سعودی عرب کی سرحد پر واقع شہر تبوک پہنچا تھا اور رومی لشکر کے دوبدو ہوا تھا؟باز لطینی لشکر بھاگ گیا تھا اور آنحضورؐ نے بمعہ لشکر 20دنوں تک تبوک میں قیام فرمایا تھا کیا یہ اسلام کا جارحانہ حملہ نہیں تھا؟
جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ دفاع اور حملہ کسی بھی جنگ کے دو اساسی اور بڑے آپریشن شمار کئے جاتے ہیں۔ آج تک کوئی بھی جنگ محض دفاع میں بیٹھ کر نہیں جیتی جا سکی۔ اس کے لئے حملے اور پہل (Initiative) کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
اگر دشمن کی تعداد اور قوتِ ضرب اپنے مقابلے میں زیادہ ہو تو ایسی صورت میں دفاعی جنگ (Defensive Battle / War) لڑی تو جا سکتی ہے، جیتی نہیں جاسکتی ۔۔۔جیت ہمیشہ حملہ کرنے والے کی ہوتی ہے۔
اسلام کی پہلی تین چار جنگیں (بدر، احد، خندق) دفاعی جنگیں تھیں جن میں مسلمانوں کو مکمل فتح نصیب نہیں ہوئی تھی بلکہ انہوں نے جارحانہ حملہ آور کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور دفاعی جنگ / لڑائی لڑی تھی۔
جب تک مکہ فتح نہیں ہو گیا تھا، مسلمانوں کو کُلّی کامیابی کا اطمینان نصیب نہ تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ فنونِ جنگ کے ماہرین دفاع کو (Attack Halted) کا نام دیتے ہیں۔ یعنی ’’حملہء معطلہ‘‘۔۔۔ دوسرے لفظوں میں اس وقت تک دفاع میں بیٹھنے کی اجازت ہے جب تک حملہ کرنے کی قوت اور جمعیت (Strength) اکٹھی نہ ہو جائے۔۔۔ دنیا بھر میں حدیثِ جنگ کا یہ اصول ایک مسلمہ اصول ہے اور اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں!
یہ سطور میں اہلِ سپاہ کے لئے قلمبند نہیں کر رہا کیونکہ ان کے لئے تو یہ موضوع پیشۂ سپاہ گری کے ’’ابجدی موضوعات‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ میں تو صرف ان سویلین حضرات کے لئے یہ سطور لکھ کر رہا ہوں جن کا مطالعۂ فنونِ جنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔
میرا مکرراستدلال ہے کہ آج تک پاکستان نے انڈیا سے جتنی بھی جنگیں(تین یا ساڑھے تین یا چار) لڑی ہیں ان کی شروعات انڈیا نے نہیں، پاکستان نے کی تھیں۔۔۔ اور یہ پاکستان کی پروفیشنل مجبوری بھی تھی!
یہی حدیثِ جنگ تھی جو1947ء میں انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد انڈین آرمی نے بھی پاکستان پر آزمانے کی کوشش کی تھی۔ انڈین آرمی کو معلوم تھا کہ اگر اس نے پاکستان پر فتح حاصل کرنی ہے تو اس کو پاکستان پر ’’حملہ‘‘ کرنا پڑے گا۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ’’پہل‘‘ کرنی پڑے گی۔
لیکن حملہ آور ہونے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں مادی اور غیر مادی (روحانی) عناصر کا ایک ناگزیر تناسب بھی ہوتا ہے جسے نپولین بونا پارٹ نے یہ کہہ کر کو انٹی فائی کر دیا تھا کہ بلند مورال کا حامل ایک ڈویژن، کم مورال والے تین ڈویژنوں کے ٹروپس کومیدانِ جنگ میں مات دے سکتا ہے!
ہندوستان کی ساری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ہندو نے رامائن اور مہا بھارت کے ادوار سے لے کر محمد بن قاسم کے حملے(711ء) تک اپنی سرحدوں سے باہر کبھی پاؤں نہ رکھا۔
یہ شرف محمد بن قاسم کی مسلم فوج کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے ہزارہا کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے دیبل پر حملہ کیا اور راجہ داہر کو شکست دی۔۔۔۔ اس کے بعد1000ء یا1001ء میں محمود غزنوی نے لاہور کے ہندو راجہ جے پال اور اس کے بیٹے انندل سے فتوحات کا جو سلسلہ شروع کیا اس کا اختتام سومنات پر 17ویں اور آخری حملے پر جا کر ہوا۔۔۔۔ اس کے بعد غوری نے1193ء میں ترائن کی دوسری لڑائی میں ایک اور ہندو راجہ، پرتھوی راج کو شکست دی۔
بعدازاں تیمور، بابر، نادر اور احمد شاہ درانی سب کے سب ہندوستان سے باہر کے علاقوں سے آئے اور ہندوستان کے اُن مسلم حکمرانوں کو شکستیں دیں جو مرورِ ایام سے ’’ہندو نما‘‘ بن گئے تھے اور ان کے بعد انگریزوں نے ایک اور طرح کی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا جس سے ہم سب واقف ہیں۔
پاکستان ہمیشہ یہ کہتا آرہا ہے کہ ہم کسی ملک پر حملے میں پہل نہیں کریں گے،لیکن اگر ہم پر حملہ ہوا تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔۔۔ آپ نے کبھی سوچا کہ اس جملے کا منطقی مفہوم کیا ہے؟اس سے مراد یہ ہے کہ خبردار جو ہم پر حملے کرنے کی جرأت(یا غلطی) کی۔ اگر بھول کر بھی ایسا اقدام اٹھایا تو خود ذمہ دار ہو گے۔
پاکستان نے ہمیشہ یہ استدلال بھی کیا ہے کہ ہم انڈیا کے ساتھ اسلحہ کے دوڑ میں شریک نہیں ہوں گے لیکن کم سے کم ڈیٹرنس برقرار رکھیں گے۔۔۔ اس جملے کا مطلب بھی آپ کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان انڈیا کو کبھی یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ اتنا اسلحہ اور گولہ بارود خرید کر اتنا طاقتور ہو جائے کہ پاکستان پر واک اوور حاصل کرلے۔
بعض قارئین شاید یہ سوال کریں کہ اس ڈاکٹرین یا تصور(Concept) کو 1971ء کو اس شکست کے حوالے سے کس کھاتے میں ڈالیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا؟۔۔۔ اس کا ایک جواب تو مَیں نے 21مئی والے کالم ہی میں دے دیا تھا کہ پاکستان کو اگر1971ء کی شکست کا سامنا نہ ہوتا تو وہ آج ایک جوہری و میزائلی قوت نہ بن سکتا۔۔۔ یعنی اقبال کے الفاظ میں :
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر دیکھ
دوسری عالمی جنگ ستمبر1945ء میں ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے علاوہ اور بھی کئی برٹش کالونیاں آزاد ہوئیں۔ان کی تعداد اگر جاننی ہو تو ’’دولت مشترکہ‘‘ کے ممالک کی فہرست پر نظر ڈال لیں۔
ان کو دیکھ کر اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ برٹش تسلط سے آزاد ہونے کے بعد کتنے ممالک تھے یا ہیں کہ جن کو جوہری اور میزائلی اہلیت کا حامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کا پاکستان یہ دلیل لا سکتا ہے کہ اگرچہ پاکستان آج اپنی70 سالہ تاریخ کے کمزور ترین موڑ پر کھڑا ہے،لیکن کسی ہندو حکمران کو آج بھی یہ جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان پر حملہ کر دے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کبھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی بھی تو اس میں پہل پاکستان ہی کرے گا، انڈیا نہیں!۔۔۔
انڈیا کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین اور سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹ بول چکا ہے۔لیکن اس کی سرشت میں جارحانہ سپرٹ مفقود ہے۔ یہ سپرٹ آپ کو صرف اور صرف ’’غیر ہندو‘‘ اقوام میں ملے گی جن میں مسلم، عیسائی اور بدھ شامل ہو سکتے ہیں۔
اب کچھ عرصہ سے انڈیا نے ’’ائر کیولری کانسپٹ‘‘(Air Cavalry Concept) کو آزمانے کی مشقیں بھی شروع کر دی ہیں۔۔۔۔ یعنی کولڈ سٹارٹ اور سرجیکل سٹرائیک میں ناکام ہونے کے بعد ایک اور ’’جدید پروفیشنل تصور‘‘ کو آزمانے کا ارادہ کر لیا ہے۔۔۔۔ بندہ پوچھے کیا محض جدید کمبٹ اصطلاحیں(Combat Terms) ہی کسی فوج کو فتح سے ہمکنار کر سکتی ہیںیا اس کے لئے جارحانہ سپرٹ کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو ہندو جاتی میں نہیں پائی جاتی۔ یہ قوم کمزوروں اور ضعیفوں پر مظالم تو ڈھاسکتی ہے،برابر یا برتر قوت کے سامنے سراونچا نہیں کرسکتی!